قبائلی اضلاع: نئی گریٹ گیم کی تیاریاں۔۔۔تحریر: سلیم صافی


میرا دعویٰ ہے کہ اگر قبائلی اضلاع کی مخصوص حیثیت (فاٹا) نہ ہوتی اور ایف سی آر کا ظالمانہ نظام نہ ہوتا تو وہاں اس تباہی کا ہمیں ہر گز سامنا نہ کرنا پڑتا، جو گزشتہ بیس برس میں کرنا پڑا۔ سردست اس دلیل پر اکتفا کرتا ہوں کہ چترال بھی افغانستان کے دو صوبوں یعنی کونڑ اور بدخشان سے لگا ہوا ہے اور بلوچستان کے پختون علاقے بھی افغانستان سے جڑے ہیں لیکن پسماندہ ہونے کے باوجود ان علاقوں میں وہ خونریزی اور تباہی دیکھنے کو نہیں ملی جو قبائلی اضلاع میں دیکھنے کو ملی۔

اسی طرح ملاکنڈ ڈویژن میں بھی ملٹری آپریشن ہوئے (واضح رہے کہ مالاکنڈ ڈویژن بھی پوری طرح پختونخوا میں ضم نہیں تھا اور اس کی حیثیت پاٹا (پراونشلی انڈمنسٹرڈ ٹرائبل ایریاز) کی تھی لیکن چونکہ صوبے سے کسی حد تک اس کا ادغام ہوچکا تھا، اس لئے وہاں ملٹری آپریشن کے بعد بحالی کا کام بھی جلدی مکمل ہوا اور ریاست کے خلاف وہ غم وغصہ بھی سامنے نہیں آیا جو قبائلی اضلاع میں دیکھنے کو ملا۔

یہی وجہ ہے کہ اے این پی جیسی پختون قوم پرست، جماعت اسلامی جیسی مذہبی جبکہ پیپلز پارٹی ، مسلم لیگ(ن) اور پی ٹی آئی جیسی قومی جماعتیں فاٹا کے پختونخوا کے ساتھ انضمام کی حامی تھیں اور یہ نکتہ ان کے انتخابی منشور کا بھی حصہ ہوا کرتا تھا۔ پیپلزپارٹی اور اے این نے تو ماضی میں عملی قدم اٹھانے کی بھی کوششیں کی تھیں لیکن انہیں کامیابی حاصل نہیں ہوئیں۔دوسری طرف منظور پشتین اور محسن داوڑ جیسے لوگ بھی پی ٹی ایم کے بننے سے قبل انضمام کیلئے سرگرم عمل تھے۔

عبدالطیف ایڈوکیٹ اور افراسیاب خٹک جیسے لوگوں نے بھی رائے عامہ ہموار کرنے میں گراں قدر خدمات سرانجام دی تھیں۔ تاہم یہ خواب شرمندہ تعبیر اس لئے نہیں ہورہا تھا کہ اس ظالمانہ نظام سے مستفید ہونے والا ڈرگ مافیا اور اسمگلنگ مافیا روایات اور الگ تشخص کی آڑ لے کر قبائلی اضلاع کو اسی طرح سرزمین بے آئین اور پسماندہ رکھنے پر مصر تھے ۔ البتہ ان سے بھی بڑی رکاوٹ ہماری اسٹیبلشمنٹ تھی ۔ افغانستان کے تناظر میں چونکہ ان علاقوں کو ایک لیبارٹری اور بیس کیمپ کے طور پر استعمال کیا جارہا تھا، اس لئے اسٹیبلشمنٹ وہاں ایسے نظام کو برقرار رکھنا چاہتی تھی کہ جہاں نہ آئین پاکستان کا اطلاق ہو اور نہ کوئی عدالت ہو۔

نہ اس کے لئے صوبائی اسمبلی قانون سازی کرسکتی تھی اور نہ قومی اسمبلی ۔تاہم قبائلی اضلاع کے نوجوانوں اور بالخصوص فاٹا یوتھ جرگہ کے جوانوں کویہ کریڈٹ جاتا ہے (اس میں اس وقت کی حکمراں جماعت نون لیگ کے نوجوان بھی شامل تھے اور پی ٹی آئی کے بھی) کہ جنہوں نے اس سلسلے میں رائے عامہ ہموار کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا اور پھر یہ کریڈٹ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور ان کی ٹیم کو جاتا ہے کہ انہوں نے عوام اور نوجوانوں کے جذبات کے احترام میں نہ صرف قبائلی اضلاع کو پختونخوا میں مدغم کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا۔

مسلم لیگ(ن) کے اندر اگر انتہائی منفی تھا تو سرتاج عزیز صاحب کے کردار کو تاریخ کی کتابوں میں سنہرے حروف سے لکھا جائے گا ۔عوامی پریشر میں سہی لیکن بہ ہر حال یہ مسلم لیگ(ن) کی قیادت نے آئینی ترمیم کرکے قبائلی اضلاع کو آئینی اور سیاسی حوالوں سے پاکستان کا حصہ بنا دیا۔ قبائلی اضلاع کے انضمام سے نہ صرف وہاں کے باسیوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی بلکہ نائن الیون کے بعد پہلی مرتبہ وہاں جشن منائے گئے ۔ یہ عمل سول ملٹری ہم آہنگی پیدا کرنے اور قبائل کو اپنی فوج کے قریب لانے کا بھی موجب بنا ۔ لیکن افسوس کہ اس کے فورا ًبعد الیکشن نما سیلیکشن کا مرحلہ آیا اور اس کے نتیجے میں مرکز میں عمران خان اور صوبے میں محمود خان حکمراںبنے ۔عمران خان نے ماضی میں قبائل کے کارڈ کو اپنی سیاست کیلئے بہت استعمال کیا لیکن حکمراں بننے کے بعد ان کے ساتھ وہی سلوک کیا جو مخدوم جاوید ہاشمی اور اکبر ایس بابر کے ساتھ کیا۔

دوسرا ظلم انہوں نے پورے صوبے اور بالخصوص قبائلی اضلاع کےساتھ محمود خان کو وزیراعلیٰ بنا کر کیا جن کی سوچ سوات سے شروع ہوتی اور سوات پر ختم ہوتی ہے ۔سرتاج عزیز کمیٹی نے بھی سفارش کی تھی اور اسمبلی کے فلور پر پوری ملکی سیاسی قیادت نے بھی اتفاق کیا تھا کہ دس سال تک قبائلی اضلاع کو این ایف سی کے تین فی صد دیئے جائیں گے لیکن پی ٹی آئی کی حکومت نے ایک سال بھی یہ وعدہ پورا نہیں کیا۔ ہر سال جو چند ارب روپے فراہم کئے جاتے رہے ، وہ بھی کرپشن کی نذر ہوتے رہے یا پھر دیگر مدات کو منتقل ہوتے رہے ۔

تازہ ترین مثال یہ ملاحظہ کیجئے کہ قبائلی اضلاع میں جو نرسنگ اسٹاف بھرتی کیا جارہا تھا ، ان میں ستر (۷۰) فی صد سے زائدکا تعلق مالاکنڈ ڈویژن (جو وزیراعلیٰ اور عمران خان کے قریبی وفاقی وزرا کا حلقہ ہے) سے تھا لیکن تقرریوں کا یہ حکم میری چیخ و پکار کے بعد واپس لے لیا گیا۔دوسری طرف قبائلی اضلاع کو اسپیکر، وفاقی وزرا، وزیراعلیٰ اور گورنر کے درمیان فٹ بال بنا دیا گیا ہے حالانکہ انضمام کے بعد ان اضلاع سے اسپیکر اور وفاقی وزرا کا کوئی تعلق ہے اور نہ گورنر کا اب بھی حکومت کمیٹی کمیٹی کھیل رہی ہے جسےا سپیکر اسد قیصر اور نورالحق قادری کے سپرد کیا گیا ہے ۔ حالانکہ اسپیکر کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ اب قبائلی اضلاع سے متعلق ان کا یا کسی وفاقی وزیر کا اقدام غیرآئینی اور غیرقانونی ہے ۔ان حالات میں ایک سیاسی جماعت اور سابقہ فرسودہ نظام سے مستفید ہونے والے چند کروڑ پتی ملک فاٹا انضمام کے خلاف تحریک کی تیاریاں کررہےہیں۔

وہ بخوبی جانتے ہیں کہ اب فاٹا انضمام کی واپسی کے لئے قومی اسمبلی اور سینیٹ میں دو تہائی اکثریت کا حصول ناممکن ہے اورحقیقتاً وہ بلدیاتی انتخابات کیلئے اسے ایک نعرے کے طور پر عوام کو گمراہ کرنے کیلئے استعمال کررہے ہیں لیکن وہ یہ نہیں سوچتے کہ یہ لوگ بھی دانستہ یا غیر دانستہ اس گندے اور گریٹ گیم کا حصہ بن رہے ہیں۔

یہ لوگ اگر قبائلی اضلاع کے عوام سے مخلص ہوتے تو ایک ناقابل عمل نعرے (فاٹا کو الگ صوبہ بناؤ اور سابقہ ایف سی آر کا نظام بحال کرو) کی بجائے وہ انضمام کے عمل کے لئے فنڈز اور دیگر اقدامات کو یقینی بنانے کے لئے حکومت کے خلاف تحریک چلاتے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ