معلمات کو نوجوان نسل کی تربیت کے ساتھ ساتھ ظالمانہ نظام کی اصلاح کے لیے بھی کام کرنا ہو گا-حافظ نعیم الرحمن

لاہور(صباح نیوز)اسلام کا تصور تعلیم و تربیت یہ ہے کہ انسان کی تخلیق علم کے ساتھ ہوئی ہے ۔اسی علم کے ساتھ دنیا میں بھیجا گیا ۔ وہ علم جو نافع تھا ۔ جس سے اخلاق و کردار کی تعمیر ہواور وہ باقی مخلوقات کے لئے مفید ہو، پاکستان کا نظام بننے کے بعد وہی  لارڈ میکالے کا نظام تعلیم جاری رہا  جس سے غلام ذہنیت پیدا کرنا مقصود تھی –

ان خیالات کا اظہار امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمن نے ملک بھر کی خواتین اساتذہ کے آن لائن کنونشن سے خطاب کے دوران کیا-انہوں نے کہا کہ نظام تعلیم اگر عالمی چیلنجز کا سامنا کرنے کی صلاحیت پیدا نہیں کرتا،  مخالفانہ فلسفوں سے آگہی نہیں دیتا۔ٹیکنالوجی کی ضروریات کا بھی خیال نہ رکھے تو وہ محدود علم ہے-مولانا مودودی رحمہ اللہ نے ایک بہترین تعلیمی نظام کا خاکہ پیش کیا-

انہوں نے مذید کہا کہ  پاکستان میں قرار داد مقاصد کے مطابق تعلیم کا مقصد کبھی بھی معیشت نہ تھا اور نہ ہی اشرافیہ کا حق تھا۔ سب کے لیے ایک جیسی تعلیم تھی۔ اداروں کا نظام ایک جیسا تھا ۔انیسویں صدی کی آخری دہائی میں نجی شعبے کا سرکاری نظام میں آنے کے بعد تعلیم کا معیار وہ نہ رہا ۔ تعلیم تجارت بنتی گئی ۔پہلے سرکاری اسکول ٹاپ پر تھے۔ گورنمنٹ نے اپنے تعلیمی اداروں کو گود دے دیا ۔این جی آوز کے اپنے ایجنڈے ہیں ۔ گورنمنٹ میں نگرانی کا عمل بھی اچھا نہیں ، پرائیویٹ اسکولوں مسائل  کوالٹی ایجوکیشن میں رکاوٹ ہیں ۔

استاد کے مقام و مرتبے پر بات کرتے ہوئے حافظ نعیم الرحمن نے کہا کہ ایک ٹیچر کا کام جہاں اخلاق و کردار سنوارنا اور اپنے مضمون کی مہارت پیدا کرنا ہے ۔اب استاد کو ساتھ ساتھ اس ظالمانہ نظام کے خلاف بھی کام کرنا ہوگا-مجموعی ظلم کے نظام کو بدلنے کی ضرورت ہے ۔اپنا نظام ،اپنی تعلیم ،اپنی معیشت چاہیے ۔اساتذہ کرام جماعت اسلامی کے پلیٹ فارم پر اس کام کو آگے بڑھائیں ۔اپنی مہارتوں کا اظہار ورکنگ سٹیج  میں کریں ۔جماعت اسلامی کے دروازے سب کے لیے کھلے ہیں -ہم اساتذہ کے لیے بنو قابل پروگرام مفت شروع کروا رہے ہیں ۔

سیکرٹری جنرل حلقہ خواتین جماعت اسلامی پاکستان ڈاکٹر حمیرا طارق نے کہا کہ بحثیت استاد ہمارا فرض ہے کہ ۔نماز اور قرآن سے نسلوں کا تعلق مضبوط بنائیں تاریخ اسلام سے رشتہ جوڑیں۔ذات کی فکر سے نکال کر امت کی فکر دیں ہماری دعاوں میں اپنے طلبا کا حصہ ہو۔ تاریخ پر فخر کرنا سکھائیں ۔قرآن کے نظام عمل کے مشن پر لگانا ہمار اکام ہے۔اللہ کی محبت کا طریقہ ،محسوس کرنا سکھائیں ،اس کی ناراضگی سے بچنا سکھائیں ۔ان کے اندر عقابی روح بیدار کریں ۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا ہدف زندگی کے ہر شعبے کا ماہر بنانا یے جو اپنا فلسفہ تخلیق کر سکتے ہوں۔جو اپنا نصاب خود تیار کریں ۔پاکستان اور آئین پاکستان کی وفاداری کرنی ہے۔دین کے وفادار سپاہی بننا ہے بڑا وژن دینا ہے۔ملک پاکستان کو ہم نے ظالمانہ نظام سے بچانا اور نظام عدل قائم کرنا ہے، کنونشن سے ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی  اور دیگر مقررین نے بھی  خطاب کیا۔