حکومت ہر پندرھواڑے کی بیلنس شیٹ جاری کرے … تحریر : محمود شام


ہر پاکستانی کے ذہن میں یہ بات ہے کہ 37 ماہ یعنی نومبر 2027 تک کیلئے آئی ایم ایف سے 7 ارب ڈالر قرضے لیے گئے ہیں ۔ وہ کہاں کہاں خرچ ہونگے موجودہ حکومت اگر اپنی میعاد پوری کرتی ہے ۔ تو وہ 2029تک ہوگی ۔ اس دوران جب اس قرض کی مدت ختم ہوگی تو ہماری شرح نمو کیا ہوگی ۔ ایک پاکستانی جو اب تقریبا 70 ہزار روپے کا مقروض ہے ۔ اس پر قرض کا بوجھ یہی رہے گا یا کم ہو چکا ہوگا ۔ہم کتنا سود اور اصل زر واپس کر چکے ہونگے۔

سوالات تو اور بھی ہیں کہ پاکستان تحریک انصاف کے بانی قائد کی رہائی کیلئے کب تک تحریکیں چلیں گی۔ 25اکتوبر کو موجودہ چیف جسٹس فارغ ہوجائیں گے یا ان کی مدت ملازمت میں توسیع ہوگی ۔ خیبر پختونخوا کے وزیراعلی علی امین گنڈاپور اسی طرح جلوس لے کر اسلام آباد کا رخ کرتے رہیں گے ۔ افسوس ہے کہ ان دنوں ریاست پر عوام کا اعتماد تقریبا ختم ہوچکا ہے۔ انتہائی خطرناک صورتحال ہے کیونکہ ریاست تو ہوتے ہی عوام ہیں وہ ایک عمر انی معاہدے یعنی آئین کے تحت ریاستی ڈھانچے کو کچھ ذمہ داریاں سونپتے ہیں۔ جب ادارے عوام کو جوابدہی سے بالا تر ہوجائیں ۔ صرف اپنی طاقت کا استعمال کریں ۔ تو عوام بددل ہوجاتے ہیں۔ آج میرے ذہن میں صبح صبح اس خیال نے جنم لیا کہ اگر حکومت کسی بھی فورم کے ذریعے یہ بتانا شروع کردے کہ یہ 37 ماہ میں خرچ ہونے والے 17 ارب ڈالر ہم کہاں کہاں خرچ کر رہے ہیں ۔ اس سے عوام میں ریاست کا اعتبار کافی حد تک بحال ہوسکتا ہے ۔ یہ 7ارب ڈالر تو بہت ہی قابل قدر اور متبرک ہیں۔ وزیراعظم سمیت ہر وزیر کہہ رہا ہے کہ عمران خان نے ملک کو دیوالیہ کر دیا تھا ۔ ہم نے اپنی سیاست قربان کر کے ملک کو ڈیفالٹ سے بچایا ہے ۔ اس کیلئے ہمیں کتنی قربانیاں دینی پڑی ہیں اور کتنی کفایت شعاری کی ہے ۔ کتنے خرچے کم کیے ہیں وزیراعظم نے تو نیو یارک اور لندن میں آرمی چیف کا بہت شکریہ ادا کیا کہ یہ قرض دلوانے میں ان کی محنت بھی شامل ہے ۔

اس قرض پر شرح سود 5.9 فیصد بتائی جارہی ہے جسے میڈیا بلند ترین کہہ رہا ہے اور یہ بھی کہ پاکستان دنیا میں آئی ایم ایف کے 5مقروض ترین ملکوں میں سے ایک ہے ۔ ایشیا میں پاکستان مقروض ملکوں میں پہلے نمبر پر ہے ۔ یہ رتبہ بلند ملا جس کو مل گیا ۔ اس قرضے کے حصول کے لئے آئی ایم ایف نے ہمیں کتنا تنگ کیا ۔ دنیا کتنی ترقی کر گئی کہ اب قرض کیلئے بھی CV اہلیت نامہ بار بار دیکھنا پڑتا ہے ۔ برسوں وزیر خزانہ رہنے والے اسحاق ڈار اپنے گھر کے فرد ہونے کے باوجود قابل اعتبار نہیں رہے ۔ اس لیے اب کے بھی ایک وزیر خزانہ باہر سے لانا پڑا ہے۔

ہم تو نہ ماہر معیشت ہیں ۔ نہ ہی ہماری جمع، تفریق ،ضرب اور خاص طور پر تقسیم قابل بھروسہ ہے ۔ یہ تو مزمل صاحب بتائیں یا سلہری صاحب کہ 7ارب ڈالر میں سود ملا کر ہماری ادائیگی کتنی ہوجائے گی ۔ ہر پاکستانی کو سود اور اصل زر کی واپسی کیلئے کیا کیا جتن کرنا ہوں گیاور یہ جو اقتصادی اصلاحات استعمال کی جاتی ہیں ۔ جو ہم جیسے لاعلموں کے سر سے گزر جاتی ہیں ۔ عوام کی سمجھ کیلئے تو دو وقت کی روٹی اور اپنے بیٹوں کا روز گار ہی کافی ہے ۔ میں کوشش کر رہا ہوں یہ جاننے کی کہ اس قرض کیلئے کیا شرائط تسلیم کی گئی ہیں۔ جن کو پورا کرنے کیلئے سرکار کو کیا کیا کرنا پڑے گا۔ وہ اسے بجلی ، گیس کے بلوں میں اضافہ کرکے ہم سے ہی وصول کرے گی یا اپنی آمدنی کے وسائل میں اضافہ کرے گی۔

میں ایک عام آدمی کی حیثیت سے صرف یہ عرض کر رہا ہوں کہ اگر ہماری حکومت اور خاص طور پر وزیر خزانہ جب پندرہ دن بعد پیٹرول ، ڈیزل ، مٹی کے تیل کی قیمتوں میں کمی یا اضافے کا اعلان کرتے ہیں ۔ ساتھ ہی آکر بتا دیا کریں کہ اس وقت آئی ایم ایف کے انتہائی مشکل سے وصول کردہ 7 ارب ڈالر میں سے ان پندرہ دنوں میں کتنی رقم کس کس مد میں خرچ کی گئی ہے ۔ اور اب کتنی رقم باقی رہ گئی ہے سود کتنا دیا گیا ہے اور کب کب دیا ہے ۔ کیا یہ رقم ایسے منصوبوں پر خرچ ہو رہی ہے ۔ جس سے مملکت کی آمد نی میں اضافہ ہوگا یا ہم مزید مقروض ہوں گے اس قرض کی پہلی قسط ملتے ہی جو،اربوں کی ،قیمتی گاڑیاں خریدنے کی خبریں آرہی ہیں کیا یہ درست ہیں، اس خرچ کو ترجیح کیوں دی گئی ہے ۔ یہ بتایا جارہا ہے کہ اس قرض کے اجرا کے بعد میکرو اکنامک استحکام بحال کیا جائے گا ۔ سرکاری اداروں میں اصلاحات کی جائیں گی ۔ عوامی خدمات کی فراہمی کا دائرہ بڑھایا جائے گا ۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کے مقابلے کیلئے اسکیمیں بنائی جائیں گی ۔ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ کم کرنے کی کوشش ہوگی ۔ شرح نمو بہتر کرنا ، مہنگائی کو ایک حد میں رکھنا ہوگا۔ 400 ارب روپے کا سرپلس رکھنا ہے ۔ توانائی کے شعبے میں ترسیل تقسیم بہتر کی جائیں گی۔ آئی ایم ایف کا بھی یہ کہنا ہے ،ملک میں ماہرین معیشت کا بھی اصرا ر ہے کہ ٹیکس دینے والوں کی تعداد میں اضافہ ہونا چاہئے۔ تنخواہ دار طبقہ ٹیکس باقاعدگی سے ادا کرتا ہے ۔ لاکھوں کروڑوں روزانہ کمانے والے دکاندار ، تاجر، صنعت کار ، ریستورانوں والے ٹیکس حکا م سے مل کر ٹیکس بچاتے ہیں کیا ہمارے جاگیر دار ، سر دار بھی ٹیکس ادا کریں گے ۔

قومی سیاسی جماعتوں میڈیا اور تحقیقی اداروں کو بھی آئی ایم ایف کی شرائط کے تناظر میں سرکاری اقداما ت کی مانیٹرنگ کرنا چاہیے ۔ قومی اسمبلی اور سینٹ کی قائمہ کمیٹیوں کو بھی جائزہ لیتے رہنا چاہئے ۔ اب دنیا نظر یاتی نہیں خالصتا کاروباری ہو گئی ہے۔ اسی لیے پاکستان کے عوام کو جذباتی نہیں، اقتصادی انداز فکر اختیار کرنا چاہیے ۔ سوشل میڈیا پر جملے بازی ، طنز ، میم کی بجائے، اقتصادی سوالات کرنے چاہئیں تاکہ حکمرانوں کو ملک کا خزانہ لوٹنے، اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرنے کی جرات نہ ہو اور ہر پندرہ روز بعد سوشل میڈیا پر سوال ہو کہ اس پندرہ روز کے بعد حکومت اخراجات اور آمدنی کی بیلنس شیٹ جاری کرے۔

ڈاکٹر انعام الحق جاوید کی حق گوئی ملاحظہ ہو ۔

وہ جو ہر روز آتی جاتی ہے

مسئلہ سارا مالیاتی ہے

نام تو اس کا آئی ایم ایف ہے

فول ہم کو مگر بناتی ہے

کلیات ڈاکٹر انعام الحق جاوید (مزاحیہ شاعری ) 600صفحات کے ساتھ اردو کے مزاحیہ ادب میں ایک قابل قدر اضافہ ہے۔ یہ مزاحیہ اشعار پڑھئے اور آئی ایم ایف کی اقساط ادا کرتے رہیں۔

بشکریہ روزنامہ جنگ