کسی بھی جج کو پتہ ہونا چاہیئے کہ آئین کاآرٹیکل 189کہتا ہے کہ پاکستان کی تمام عدالتوں پر سپریم کورٹ کاحکم ماننا لازم ہے ،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

اسلام آباد(صباح نیوز) چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ کسی بھی جج کو پتہ ہونا چاہیئے کہ آئین کاآرٹیکل 189کہتا ہے کہ پاکستان کی تمام عدالتوں پر سپریم کورٹ کاحکم ماننا لازم ہے جبکہ آئین کاآرٹیکل 190کہتا ہے کہ تمام انتظامی اور عدالتی حکام پاکستان بھر میں سپریم کورٹ کے احکامات پر عملدرآمد کروانے میں معاونت کریں گے۔ آزاد سوشل میڈیا کرائے پر ججز کوگالیاں دینے کے لئے ہے۔ جلسہ جلوس ہویہ پاکستان کے مسئلے ہیں۔کیا پارلیمنٹ، عدلیہ اور میڈیا میں گینگسٹر ازم سے فیصلے ہونگے؟ وجوہات نہیں دیں گے، سوشل میڈیا لائیکس اور ڈسلائیکس کیلئے اداروں سے کھیلا جا رہا ہے،ہٹس نہیں ملیں گی، ہماری باتیں توکوئی نہیں سنے گا، ایک لائن کوسیاق وسباق سے ہٹ کر تھمبنیل بنیں گے۔ کمال بات ہے کہ سول جج سپریم کورٹ کے آرڈر کوروک رہے ہیں، کیا سول جج نے توہین عدالت کی ہے، کیا اس قسم کے ججز کیخلاف کارروائی ہونی چاہیے۔
اپنا بچہ ہے یہ، پاکستان میں یہ جملہ استعمال ہوتا ہے، ہم کہہ رہے ہیں کہ عدالت کی معاونت کریں۔ کیا پاکستان میں کسی جج کے خلاف توہین عدالت کی کاروائی ہوئی ہے، کیا ہم مثال قائم کریں۔کیا رینا سعید خان دہشت گرد ہیں، ان کو منشیات کیس میں گرفتار نہیں کیا، ریاست اس طرح چلتی ہے کسی پر منشیات ڈال دیں۔ شریف آدمی پاکستان میں نہیں چل سکتا اس کے لئے توزندگی عذاب ہے۔ جبکہ عدالت نے غیر مشروط معافی مانگنے پر گرائے گئے مونال ریسٹورنٹ کے مالک لقمان علی افضل کے خلاف توہین عدالت نوٹس واپس لے لیا۔ جبکہ عدالت نے لقمان علی افضل کی خیبرپختونخوا کے ضلع ہری پورکی تحصیل خان پور میں نیشنل مارگلہ ہلز پارک میں واقع ملکیت ڈائنوویلی کے معاملہ پر ڈی جی گلیات ڈیویلمنٹ اتھارٹی کونوٹس جاری کرتے ہوئے آئندہ سماعت پر طلب کر لیا۔
عدالت نے مارگلہ ہلز میں غیر قانونی عمارتیں گرانے کے خلاف حکم امتناع دینے والے سینئر سول جج ویسٹ اسلام آباد محمد انعام اللہ کا معاملہ اسلام آباد ہائی کورٹ کو بھجواتے ہوئے ہدایت کی ہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ دیکھے کیا اس معاملہ پر کوئی ایکشن لینے کی ضرورت ہے یا نہیں۔ جبکہ عدالت نے مبینہ طور پرمارگلہ نیشنل پارک اسلام آباد کے ساتھ سیکٹر سی 12میں واقع سابق ڈی جی آئی ایس آئی فیض حمید سے قریبی تعلق رکھنے والے افراد کی ملکیت نارتھ ریج ہائوسنگ سوسائٹی کے حوالہ سے چیف کمشنراسلام آباد سے ریکارڈ طلب کرلیا۔
سپریم کورٹ میں مارگلہ ہلز نیشنل پارک ایریا میں رہائشی سرگرمیوں اورگرائے گئے مونال ریسٹورانٹ کے مالک لقمان علی افضل کے خلاف سپریم کورٹ اورججز کے خلاف مبینہ طور پر سوشل میڈیا پر مہم چلانے پرجاری توہین عدالت نوٹس پر سماعت ہوئی۔دوران سماعت لقمان علی افضل کی جانب سے سابق صدرسپریم کورٹ بار ایسویسی ایشن چوہدری محمد احسن بھون، سابق وائس چیئرمین پاکستان بارکونسل حفیظ الرحمان چوہدری،وفاقی حکومت کی جانب سے ایڈیشنل اٹارنی جنرل ملک جاوید اقبال وینس، سی ڈی اے کی جانب سے حافظ عرفات احمد چوہدری، ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل خیبرپختونخوا شاہ فیصل الیاس، گلیات ڈویلپمنٹ اتھارٹی(جی ڈی اے) کے وکیل رشید الحق قاضی جبکہ درخواست گزار اسلام آباد وائلڈ لائف مینجمنٹ بورڈ کے وکیل محمد عمر اعجاز گیلانی پیش ہوئے۔ جبکہ لقمان علی افضل بھی عدالت کے طلب کرنے پرپیش ہوئے۔ احسن بھون کاکہناتھاکہ سی ڈی اے سی ڈی اے نے رپورٹ جمع کروادی ہے مونال ریسٹورانٹ، ؛لامنٹانہ اورگلوریاجینزریسٹورانٹس کو گرادیا گیا ہے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ کیا ملبہ ہٹادیا گیا ہے۔ محمد عمر اعجازگیلانی کاکہناتھا کہ ہٹایا جارہا ہے۔ احسن بھون کاکہنا تھا کہ ہم نے توکہنا تھا کہ عمارت کو گرانے کی بجائے استعمال کرلیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ جانورکیا کریں گے کیا وہ بیٹھ کر چائے پیئں گے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ سول جج کافیصلہ کدھر ہے، یہ عجب گل کون ہیں۔ عمرمحمد اعجاز گیلانی کاکہناتھا کہ درخواست واپس لے لی گئی ہے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ کمال بات ہے کہ سول جج سپریم کورٹ کے آرڈر کوروک رہے ہیں، کیا سول جج نے توہین عدالت کی ہے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ سول جج نے کچھ پردہ تورکھا ہے یہ تونہیں کہے گا کہ میں سپریم کورٹ حکم نہیں مانتا، 21کو کیس دائر ہوتا ہے اسی روز سن لیتے ہیں اس کو کہتے ہیں چست۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا جج صاحب کہہ رہے ہیں کہ درخواست گزار اے کلاس کنٹریکٹر ہیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ جج صاحب کانام کیا ہے۔ عمر اعجاز گیلانی کاکہنا تھا کہ جج کانام محمد انعام اللہ ہے اور میں ان کے سامنے کئی مرتبہ پیش ہواہوں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کیاایسے ججز کے خلاف کاروائی کرنی چاہیئے۔محمد عمر اعجاز گیلانی کاکہنا تھا کہ ریسٹورانٹس کو گرانے کے معاملہ پر کیسے حکم امتناع جاری ہوسکتا ہے۔چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ کیا جج کی جانب سے توہین عدالت کی گئی ہے، احسن بھون سینئر ہیں جبکہ عمراعجاز گیلانی نوجوان ہیں انہوں نے توجج صاحب کے سامنے پیش ہونا ہوگا۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ کیا جج کے خلاف توہین عدالت ہوسکتی ہے، اپنا بچہ ہے یہ، پاکستان میں یہ جملہ استعمال ہوتا ہے، ہم کہہ رہے ہیں کہ عدالت کی معاونت کریں۔ جسٹس شاہد بلال حسن کاکہناتھا کہ ایک لاکھ روپے عدالتی فیس جمع نہیں ہوئی، کس طرح جج نے درخواست پر کاروائی چلائی۔ جسٹس نعیم اخترافغان کاکہنا تھا کہ مدعاعلیہان کو آئندہ سماعت کانوٹس کدھر ہے۔ چیف جسٹس کاگلیات ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ خیبرپختونخوا سرکارکدھر ہے، گلیات  ڈویلپمنٹ اتھارٹی کوبھی سنیں گے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ اچھے اچھے ٹرینڈز پاکستان میں چل رہے ہیں، اتنی جلدی انصاف دیا انہوںنے، کورٹ فیس بھی نہیں دی اوراپنی طرف سے آرڈر میں چیزیں لکھ دیں، کتنی کلاسز کنٹریکٹرز کی ہوتی ہیں۔ جسٹس شاہد بلال حسن کاکہنا تھا کہ پورے پنجاب کی عدلیہ بھی یہی کرتی ہے، وکلاء درخواست نہیں دکھاتے اور حکم امتناع لے لیتے ہیں، یہ میں 35سال سے زائد عرصہ سے دیکھ رہا ہوں۔احسن بھون کاکہنا تھا کہ یہ ہرطرف جاری ہے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ یہ جج کی ذمہ داری ہے کہ دیکھے کہ ریلیف بنتا ہے کہ نہیں، میں وکلاء سے زیادہ ججز کوذمہ دارسمجھتا ہوں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ کیا پاکستان میں کسی جج کے خلاف توہین عدالت کی کاروائی ہوئی ہے، کیا ہم مثال قائم کریں۔ احسن بھون کاکہنا تھا کہ سندھ میں یہی ہوتا ہے ، 12بجے درخواست آتی ہے اور3بجے حکم امتناع آجاتا ہے،اسلام آباد میں بھی یہی ٹرینڈ ہے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ جج نے ٹرینڈ پر نہیں قانون پر چلنا ہے، کیوں کورٹ فیس جمع نہیں ہوئی، کیوں نوٹس نہیں دیا، کیسے پتا چلا اے کلاس کنٹریکٹر ہے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ عجب گل کہاں ہوتے ہیں ان کونوٹس دے دیتے ہیں۔ چیف جسٹس کاعمر اعجاز گیلانی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ رائے مراتب علی خان کیس میں وکیل تھے کیاان کوجانتے ہیں۔ اس پر عمراعجاز گیلانی کاکہنا تھا کہ وہ نہیں جانتے ۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ اسلام آباد میں ہزاروں ٹھیکے دیئے جارہے ہیں پتا نہیں پیپرارولز پر عملدرآمد ہوررہا ہے کہ نہیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ جب عجب گل کوبلائیں گے اور توہین عدالت کی کاروائی کاکہیں گے تووہ سب کچھ بتادے گا۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ توہین عدالت کاآرٹیکل 204پڑھتے ہیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ کیاہم سخت ایکشن لیں یامعاملہ رفع دفع کردیں۔ احسن بھون کاکہنا تھا کہ جج کوکوئی حکم جاری نہیں کرنا چاہیئے تھا۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ہم توسپریم کورٹ کے ججز کے خلاف بھی چلتے ہیں۔ احسن بھون کاکہنا تھا کہ جج کے خلاف متعلقہ ہائی کورٹ کے جج کو لکھیں۔ جسٹس شاہد بلال حسن کاکہنا تھا کہ ایک دن کانوٹس بھی نہیں کیا۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ یہ تشویشناک بات ہے ، ہوسکتا ہے درخواست گزارجج کارشتہ دار ہو جس کو پتا ہوکہ وہ اے کلاس کنٹریکٹر ہے۔ احسن بھون کاکہنا تھا کہ ایسے بھی کیسز ہیں کہ جو سپریم کورٹ تک آئے ہیں اور جرمانے بھی ہوئے ہیں تاہم ان فیصلوں پر 20سال گزرنے کے بعد بھی عملدرآمد نہیں ہوا۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ مظلوم بیچارے تومارے جاتے ہیں، کیا جج کے خلاف کاروائی کی سفارش کریں۔
چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ یہ جوسوشل میڈیا پر پراپیگنڈا شروع کرتے ہیں، بھائی میر کابینہ سیکرٹری ہے، کس نے سوشل میڈیا پرپراپیگنڈا شروع کردیا۔ احسن بھون کاکہنا تھا کہ میرا مئوکل پراپیگنڈا کاسوچ بھی نہیں سکتا، لوگ اپنے ایجنڈا کے لئے دوسروں کے خلاف چلتے ہیں۔ چیف جسٹس کا جج کی جانب سے ریسٹورانٹس گرانے کے معاملہ پر حکم امتناع جاری کرنے کے حوالہ سے فیصلہ لکھواتے ہوئے کہنا تھا کہ 21ستمبر2024کو عجب گل نامی شخص نے درخواست دائر کی، جج نے ریسٹورانٹس کو گرانے کاعمل روکا، رائے مراتب علی کھرل کے توسط سے درخواست دائر کی گئی اور ایک لاکھ روپے عدالتی فیس بھی جمع نہیں کروائی گئی۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ آج کل توکمپیوٹر خود بخود انگریزی ٹھیک کردیتا ہے۔ احسن بھون کاکہنا تھا کہ ہم لوگ کمپیوٹر نہیں جانتے۔ چیف جسٹس کاحکم میں کہنا تھاوکیل احسان کررہے ہیںکہ اگرعدالت حکم دے تومیں فیس دیتا ہوں۔ عمراعجاز گیلانی کاکہنا تھا کہ کیس دائر کرنے کی فیس جمع نہیں کروائی گئی۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ 38لاکھ کے حساب سے فیس وصول کرنی چاہیئے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ کیا جج کے ساتھ معزز لکھنا ضروری ہے، اگر جج معزز نہ ہو۔ جسٹس شاہد بلال حسن کاکہنا تھا کہ جج نے عبوری حکم امتناع جاری کیا۔ عمراعجاز گیلانی کاکہنا تھا کہ یک اکتوبرکو سپریم کورٹ نے حکم کی کاپی مانگی اور2اکتوبر کو کیس واپس لے لیا گیا۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ شاید احسن بھون جرمانہ اداکردیں۔ چیف جسٹس کااحسن بھون سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ شاید آج آپ کے تعاون سے نئی چیز کریں ، آپ کبھی کبھی آتے ہیں اتنی جلدی نہیں جانے دیں گے۔ اس کے بعد عدالتی وقفہ کردیا گیا ۔ وقفہ کے بعد فیصلہ لکھواتے ہوئے چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ سول جج نے سپریم کورٹ کے فیصلہ کو غیر مئوثربنایا۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ کسی بھی جج کو پتا ہونا چاہیئے کہ آئین کاآرٹیکل 189کہتا ہے کہ پاکستان کی تمام عدالتوں پر سپریم کورٹ کاحکم ماننا لازم ہے جبکہ آئین کاآرٹیکل 190کہتا ہے کہ تمام انتظامی اور عدالتی حکام پاکستان بھر میں سپریم کورٹ کے احکامات پر عملدرآمد کروانے میں معاونت کریں گے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ دعویٰ دائر ہونے اور پریزائڈنگ جج کی جانب سے کیس سننے سے سنجیدہ سوالات اٹھتے ہیں کہ کیا سپریم کورٹ کی توہیں ہوئی کہ نہیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 203کے تحت ہائی کورٹ اپنے ماتحت عدالتوں کو ریگولیٹ کرتی ہے، ہم یہ معاملہ اسلام آباد ہائی کورٹ کو معاملہ بھجوارہے ہیں وہ دیکھے کہ جج کے خلاف کوئی کاروائی کرنی چاہیئے یا نہیں، آفس حکم کی کاپی اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کوبھجوائے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ 2اکتوبر کوکیس واپس لے لیاگیا ، بادی النظر میں معاملات کومینی پولیٹ کیا گیا تاکہ سپریم کورٹ کے فیصلہ کی نفی کی جاسکے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ہرجج آزادانہ طورپر کام کرے کیونکہ وہ قانون کے پابند ہیں، پراسیس کو غلط استعمال کرنے میں فریق نہ بنیں۔ جبکہ چیف جسٹس کااحسن بھون سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ کس آرڈر کے تحت آپ کے مئوکل کو توہین عدالت کا نوٹس دیاگیا، آپ کاجواب کدھر ہے۔ احسن بھون کاکہنا تھا کہ 15اگست2024کو لقمان علی افضل کوتوہین عدالت کانوٹس جاری کیا گیا۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ جواب کدھر ہے، جوہم نے آپ پرظلم ڈھائے تھے، نہ کرایہ دے رہے ہیں ، عوام کی زمین پرقابض ہیں۔ احسن بھون کاکہنا تھا کہ میں نے جگہ خالی کردی ہے ، توہین عدالت کاسوچ بھی نہیں سکتا۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ بھائی صاحب کو ہوا میں خیال آگیا کہ شاید ہمیں سزادے سکتے ہیں، شاید وہاں تک بھی باتیں چلی گئی ہیں، آہستہ ، آہستہ نظام کوختم کررہے ہیں، جنگل میں بھی بہترقانون چلتا ہے، چیئرپرسن اسلام آباد وائلڈ لائف میجنمنٹ بورڈ کوہٹادو، وزارت داخلہ فارغ بیٹھی ہے، شاید وہاں پہنچ ہوجائے، اپنے ملک کوکب درست کریں گے، ایسے معاملہ پر کسی بھی مہذب ملک میں شورمچ جانا چاہیئے تھا، آزاد سوشل میڈیا کرائے پر ججز کوگالیاں دینے کے لئے ہے۔چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ جلسہ جلوس ہویہ پاکستان کے مسئلے ہیں،ان کی نوکریاں ختم ہوگئیں پھرساراجنگل کاٹ دو ، لکڑی والوں کو نوکری مل جائے گی۔چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ لقمان علی افضل کدھر ہیں ان کوبلائیں، سارا مکالمہ ان کوسننا چاہیئے تھا، پاکستان کے قانون کی اہمیت ہی نہیں، ان کے بھائی کابینہ سیکرٹری ہیں۔اس پر کمرہ عدالت کے باہر موجود لقمان علی افضل کمرہ عدالت میں ججز کے سامنے پیش ہوگئے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ کیا کامران علی افضل ابھی بھی کابینہ سکرٹری ہیں، وہ قیمتی اثاثہ ہیں۔اس موقع پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل جاوید اقبال وینس کاکہنا تھا کہ وہ اب بھی کابینہ سکرٹری ہیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ کیا پاکستان میں اس طرح کاریلیف کسی اورشخص کو دیا گیا۔چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ڈاکٹر امجد،پرویز مشرف کے وزیر تھے ایسے ہی لوگ آگے بڑھتے ہیں، کوئی شرمندگی نہیں کہ میں آمر کاوزیر بنا۔چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ کیا یہ معاملہ پارلیمنٹ کے سامنے آیا، کسی تاک شو میں اٹھایا گیا، یہاں توپوں کارخ آرڈر پر نہیں ہوتا بلکہ ججز پرہوتا ہے، ہمارا حکم غلط ہے تو اس پر اٹیک کریں، مگر یہاں آرڈر پر اٹیک کی بجائے اداروں پر حملہ آور ہوجاتے ہیں۔چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ وزیر اعظم کے سامنے فائل کون پیش کرتا ہے، ہزاروں فائلیں جاتی ہیں،اسلام آباد وائلڈ لائف میجنمنٹ بورٹ کی چیئرپرسن رینا سعید خان کا اتنا بڑا گناہ ہے ، کیا رینا سعید خان دہشت گرد ہیں، ان کو منشیات کیس میں گرفتار نہیں کیا، ریاست اس طرح چلتی ہے کسی پر منشیات ڈال دیں، آپ چوری کررہے ہیں آپ کی زمین نہیں ہے، صدر مملکت نے انٹرپرینیورشپ کاایوارڈ لقمان علی افضل کودیا جوان کااختیار نہیں ، مونال گروپ آف کمپنیز کیوں لکھ رہے ہیں، ایک مالک ہے، شریف آدمی پاکستان میں نہیں چل سکتا اس کے لئے توزندگی عذاب ہے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ آرڈر پر حملہ کریں ، آرڈر نہیں بیٹھ کر لمبی لمبی تقریریں کرتے ہیں ، بیٹھ کرکیوں حکم جاری کیا، کھڑے ہوکرکیوں نہیں کیا، میں نے کسی کو توہین عدالت کانوٹس نہیں دیا توکیا اداروں پر حملہ شروع کردیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ یہ بتادیا کریں کہ کس وقت سماعت کے لئے مقررہواورکیاحکم جاری کری،کتنے کیسز میں اِس جج نے پہلی سماعت پر حکم امتناع جاری کیا، آپ یاڈاکٹر امجد درخواست گزارہوں گے۔اس پر احسن بھون کاکہنا تھا کہ درخواست گزارکے ساتھ ان کے مئوکل کاکسی قسم کاگٹھ جوڑہوتووہ ذمہ دارہوں گے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ کبھی کبھی ہماری بھی وکالت کردیا کریں، حال ہی میں ہم نے بھٹو ریفرنس سنا جو کہ زیر التواتھا، ریفرنسز کی قطار چھوٹی سی ہے، چارپانچ ہوں گے، ایک ،ایک کرکے سن لیتے، اب شریف آدمی چپ رہیں گے، مجھے کسی نے الیکشن کروانے پر گالی نہیں دی، پہلے سے درخواستیں پڑی وہاں کوئی فکر نہیں۔ احسن بھون کاکہناتھا کہ عدالت کاکام وقت پرہونا چاہیئے نہ کہ التوامیں کیسز چھوڑ جائیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ وجوہات نہیں دے گے، سوشل میڈیا لائیکس اور ڈسلائیکس کیلئے اداروں سے کھیلا جا رہا ہے،ہٹس نہیں ملیں گی، ہماری باتیں توکوئی نہیں سنے گا، ایک لائن کوسیاق وسباق سے ہٹ کر تھمبنیل بنیں گے۔ احسن بھون کاکہنا تھا کہ میں عدالت کے رحم وکرم پرہوں۔چیف جسٹس کاحکم لکھواتے ہوئے کہنا تھا کہ لقمان علی افضل کے وکیل نے بتایا کہ ان کے مئوکل نے سپریم کورٹ یا ججز کوسیکنڈلائز کرنے کے لئے کوئی کام نہیں کیا، سیکرٹری کابینہ کامران علی افضل کو چیئرپرسن اسلام آباد وائلڈ لائف مینجمنٹ بورڈ رینا سعید خان کو ہٹانے اور بورڈ کووزارت داخلہ کے ماتحت کروانے کا نوٹیفکیشن جاری نہیں کروایا۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ دونوں نوٹیفکیشن واپس ہوچکے ہیں۔ عدالت نے غیر مشروط معافی قبول کرتے ہوئے لقمان علی افضل کوجاری توہین عدالت کانوٹس واپس لے لیا۔ جبکہ گلیات ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے وکیل نے بتایا کہ مارگلہ نیشنل پارک میں ڈئنو ویلی کے حوالہ سے جی ایم ایڈمنسٹریشن مونال گروپ آف کمپنیز کرنل (ر)سید احمد بخاری نے خط لکھا۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ کیا کرنل (ر)لکھنا بہت ضروری ہے، کون ہوتے ہیں خط لکھنے والے، کیسے ایک فرد خط لکھ سکتا ہے، آپ نے انہیں سیلوٹ کیا۔ گلیات ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے وکیل کاکہنا تھا کہ میں ایئرفورس میں فلائٹ لیفٹیننٹ تھا جو کہ کرنل سے چھوٹا عہدہ ہے۔ چیف جسٹس کاجی ڈی اے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ لوگوں کی خدمت کے لئے حاضر ہیں، آپ کو پتا چل گیا کہ پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنی ہے۔چیف جسٹس کاکہنا تھاکہنا تھا کہ ہم سپریم کورٹ میں زبانی باتیں نہیں سنتے، آپ کوپتا کیسے چلاکہ یہ کون ہیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ جس نے حج کیا ہے کیااس کے نام کے ساتھ حاجی لکھنا ضروری ہوتا ہے۔ جی ڈی اے وکیل کاکہنا تھا کہ ہم نے مالک کونوٹس دیا۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ حاجی لقمان علی افضل کونوٹس دیا۔ چیف جسٹس کاوکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ کو بنیادی وکالت نہیں آتی تو یہ کہیں کہ میں عدالت کی معاونت کررہا ہوں، آپ عدالت کے کام میں خلل ڈال رہے ہیں، پہلے معاونت کالفظ توسمجھ لیں، کیا ہماراکام یہ رہ گیا ہے وکیلوں کوان کے کام سکھائیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ کیا یہ قانونی کام کررہے ہیں یا غیر قانونی۔ وکیل کاکہنا تھا کہ یہ نیشنل پارک کاحصہ نہیں، لقمان علی افضل نے 2018میں جگہ خریدی اورتعمیرات شروع کردی تھیں اور2020سے قبل تعمیرات مکمل ہوگئیں۔ اس موقع پر ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل خیبرپختواہ شاہ فیصل الیا س نے بتایاکہ گزارہ فارسٹ کی زمین پر تعمیرات نہیں ہوسکتیں، ڈائنو ویلی کی ملکیت بھی لقمان علی افضل کی ہے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ملکیت رکھیں لیکن گزارہ فارسٹ کی جگہ پر تعمیرات نہیں کرسکتے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ یہ ایسے ہی ہے کہ کوئی شاہراہ دستوپر درمیان میں آکر کوئی عمارت بنالے اور سی ڈی اے کہے کہ پیسے دے کرعمارت ریگولرائز کروالیں۔ جسٹس نعیم اخترافغان کاکہنا تھا کہ پارک کااین اوسی لیا ہے ہم تووہاںکبھی نہیں گئے۔ شاہ فیصل الیاس کاکہنا تھا کہ پائن سٹی اور ڈائنوویلی کی حدتک معاملہ نہیں رہنا چاہیئے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ باہر سے لوگ آکر اورزمین خرید کرعلاقہ کاپورا نقشہ ہی تبدیل کررہے ہیں۔
چیف جسٹس کاکہناتھا کہ لگژری ریزورٹ بنارہے ہیں، ایک نہیں بلکہ 10منزلہ عمارتیں بنارہے ہیں، اسے کمرشل استحصال کہتے ہیں۔ جی ڈی اے کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر نے پیش ہوکربتایا کہ ان کے کل 150ملازمیں ہیں ہم بلڈنگ کنٹرول کرتے ہیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ میراخیال ہے پھر ڈائریکٹر جنرل جی ڈی اے کو بلالیتے ہیں۔ چیف جسٹس کاکہناتھا کہ پائن سٹی تومیجر (ر)صدیق انورکی تھی وہ معاملہ توختم ہوگیاانہوں نے کہا میں نہیں بنائوں گا۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ جی ڈی اے قانون کے برخلاف تعمیرات کی اجازت دے رہی ہے، جی ڈی اے کواپنے ہی قانون کی سمجھ نہیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ڈی جی جی ڈی آے آئندہ سماعت پر حاضر ہوں اور ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل کے پی کی جانب سے اٹھائے گئے نکات کاجواب دیں۔ عدالت نے ڈائنو ویلی کے مالک لقمان علی افضل کو بھی نوٹس جاری کرتے ہوئے انہیں تحریری جواب جمع کروانے کی ہدایت کی اورکہا کہ تعمیرات کی توجیح پیش کریں۔ اس کے بعد اسلام آباد کے سیکٹر سی 12میں مبینہ طور پر غیر قانونی نارتھ ریج ہائوسنگ سوسائٹی کامعاملہ سناگیا۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ جو کچھ ہوگیااب توچیزوں کوروک لیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ اسٹیٹس کودونوں جانب سے ہوتا ہے۔
جسٹس نعیم اخترافغان کاکہنا تھا کہ اگر غیر قانونی تعمیرات ہیں توسی ڈی اے اتنا بے بس کیوں ہے۔ عمر اعجاز گیلانی کاکہنا تھا کہ نارتھ ریج ہائوسنگ سوسائٹی بہت طاقتور شخصیت کے ساتھ منسلک لوگوں کی مشترکہ ملکیت ہے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ڈر کیوں رہے ہیں۔ محمدعمر اعجاز گیلانی کاکہنا تھا کہ کہا جاتا ہے کہ نارتھ اریج ہاسنگ سوسائٹی کے مالک کا تعلق سابق ڈی جی آئی ایس آئی فیض حمید سے تھا۔چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ زمین کاریکارڈ کس کے پاس ہے۔ اس پر سی ڈی اے وکیل کاکہناتھا کہ ریونیو حکام کے پاس ریکارڈہے اورچیف کمشنر اسلام آباد کے پاس ریکارڈہے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ سی ڈی اے وکیل آئندہ سماعت پر ان سوالوں کاجواب دیں کہ نارتھ ریج ہائوسنگ سوسائٹی کاکون مالک ہے، کیا بلڈنگ پلان مانگا گیا اورکس سے مانگاگیا، سروے جنرل آفس سے بھی رابطہ کیا جائے اور پوچھا جائے کہ کیا یہ جگہ مارگلہ ہلز تحفظ زدہ علاقہ میں آتی ہے کہ نہیں، گوگل میپ بھی لگائیں۔ عدالت نے کیس کی مزید سماعت آئندہ ہفتے تک کیلئے ملتوی کردی۔