جتنا لوگ جھوٹ بولتے ہیں ایک دوکوسیدھا جیل بھیجنا چاہیئے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

اسلام آباد(صباح نیوز)چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ جتنا لوگ جھوٹ بولتے ہیں ایک دوکوسیدھا جیل بھیجنا چاہیئے۔ سپریم کورٹ نے بار، بار کہا ہے کہ کمزورطبقوں خصوصی طور پر خواتین کے وراثت کے حقوق کاتحفظ یقینی بنایا جائے ۔جبکہ عدالت نے ورثاء کو وراثت سے محروم رکھنے والے درخواست گزارپر 3لاکھ روپے جرمانہ عائد کرتے ہوئے کہا کہ یہ رقم ان لواحقین میں تقسیم کیا جائے جنہیں وراثت سے محروم رکھا گیا۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس نعیم اخترافغان اورجسٹس شاہد بلال حسن پر مشتمل 3رکنی بینچ نے راولپنڈی میں 12مرلے سے زائد کے مکان کی وراثت کے حوالہ سے تنویر سرفرازخان کی جانب سے وفاق پاکستان بوساطت ڈائریکٹر لیگل اسلام آباد اوردیگر کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کی۔

درخواست گزارکی جانب سے آغا محمد علی بطور وکیل پیش ہوئے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کادرخواست گزارکے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ مدعا علیہان کو پیسے دے دیں یا مکان بیچ دیں، آپ کسی کی ملکیت پر قبضہ نہیں کرسکتے، سب ورثاء کابرابر حق ہے آپ کے سرپر سرخاب کے پر نہیں لگے، خریدارلے آئیں عدالت کافیصلہ برقراررکھتے ہیں۔ وکیل کاکہناتھا کہ ان کے مئوکل نے 2014میں بڑی مشکل سے پیسے اکٹھے کرکے اپنے بہن بھائیوں کودیئے تھے۔ چیف جسٹس کادرخواست گزارسے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ کرتے کیاہو، کیا وائس چانسلر ہیں۔ اس پر درخواست گزار کاکہنا تھا کہ محکمہ تعلیم میں اسسٹنٹ تھا میری عمر 61سال ہے اور 60سالہ سروس مکمل کرنے پر ریٹائرڈ ہو چکا ہوں، میری ریٹائرمنٹ کے وقت ایک لاکھ، 40یا45ہزارتنخواہ تھی۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ جو پیسے وصول کرنے کامانتا ہے مانتا ہے جو نہیں مانتا ہم کیا کریں، اوپر آخرت میںجائیں گے تواِ ن کو گناہ ملے گا۔درخواست گزار کاکہنا تھا کہ گھر والد سرفراز احمدخان کی ملکیت تھا جو کہ 2010میں انتقال کرگئے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ آج 2024ہے والد کی وفات کو14سال گزرگئے۔

وکیل کاکہنا تھا کہ 2021میں دعویٰ دائر ہوا۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ کیا درخواست گزار جاہل ہیں پڑھنا لکھنا نہیں جانتے ، یہ محکمہ تعلیم میں کام کرتے تھے، یہ پردہ نشین لیڈی نہیں ۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ بطور وکیل کام نہیں کررہے، یا توکہیں میرے دستخط نہیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ درخواست گزارکے خلاف غلط بیانی کاکیس کرتے ہیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ کیوں درخوست گزارپر غیر معمولی جرمانہ عائد نہ کریں، جگہ خالی کریں اس کو بیچیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ جتنا لوگ جھوٹ بولتے ہیں ایک دوکوسیدھا جیل بھیجنا چاہیئے۔ تنویر سرفرازخان کاکہنا تھا کہ میں عدالت کے باہر تھا اورمیری طبیعت خراب تھی وکیل نے کہا دستخط کردومیں دستخط کردیئے۔ جسٹس شاہد بلال حسن کاکہنا تھا کہ یہ بہنیں اوربیٹیاں کبھی اپنا حصہ نہیں لے سکیں گی، 20سال بھی یہ کیس ختم نہیں ہوگا، یہ کیس کبھی ختم ہوگاہی نہیں میرا35سالہ تجربہ ہے ہم وکیلوں اور مئوکلین کے چہرے پڑھ لیتے ہیں،یہاں تک کہ بھائی بھی حصہ نہیں لے سکیں گے،

مدعاعلیہان کو توماہانہ منافع بھی ملنا چاہیئے۔ جسٹس نعیم اخترافغان کاکہناتھا کہ کیس چلتا رہے گااوردرخواست گزارقبضہ برقراررکھیں گے۔ چیف جسٹس کاحکم لکھواتے ہوئے کہنا تھا کہ درخواست گزار اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ معاملہ طے نہیں کرسکا۔درخواست گزار خواتین محتسب کے حکم کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ گئے ۔اسلام آباد ہائی کورٹ فریقین کے اتفاق رائے سے حکم جاری کیا۔ درخواست گزارنے کہا کہ اسے پتا نہیں تھا کس چیز پردستخط کررہے ہیں، درخواست محکمہ تعلیم میں اسسٹنٹ تھا اور 60سال مکمل کرنے پر ریٹائرڈ ہوچکا ہے۔ 11اکتوبر 2021کوبیٹیوں کی درخواست پر خواتین محتسب نے فیصلہ کیا۔ 15دسمبر2021کو درخواست گزارنے ملکیت اورقبضہ کادعویٰ دائر کیا جس کامقصد سرفرازاحمد خان ک لواحقین کو وراثت سے محروم کرنا تھا اورپاکستان اور شریعت کے قوانین کی خلاف ورزی کرنا تھا۔ کسی بھی مرحوم مسلمان کی وراثت فوری طور پر منتقل ہوجاتی ہے۔

سپریم کورٹ نے بار، بار کہا ہے کہ کمزورطبقوں خصوصی طور پر خواتین کے وراثت کے حقوق کاتحفظ یقینی بنایا جائے۔ عدالت نے درخواست گزارپر 3لاکھ روپے جرمانہ عائد کرتے ہوئے کہا کہ یہ رقم ان لواحقین میں تقسیم کیا جائے جنہیں وراثت سے محروم رکھا گیا۔ عدالت نے درخواست خارج کردی۔ حکم لکھوانے کے بعدایک بہن نے بات کرنے کی کوشش کی توچیف جسٹس کاکہنا تھا کہ آپ نے بھائی کواپنا حصہ دینا ہے تودے دیں ہمارا اس سے کوئی تعلق نہیں۔ جبکہ درخواست گزارنے بات کرنے کی کوشش کی توجسٹس نعیم اخترافغان کاکہنا تھا کہ بات کرنے کی اجازت نہیں کیس ختم ہوگیا ہے۔