قائمہ کمیٹی قانون وانصاف نے بلدیاتی اداروں میں منصفانہ مالیاتی وسائل کی تقسیم کے لئے آئینی ترمیم پر صوبوں سے رائے مانگ لی

اسلام آباد(صباح نیوز)سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قانون وانصاف نے بلدیاتی اداروں میں منصفانہ مالیاتی وسائل کی تقسیم کے لئے آئینی ترمیم سے متعلق صوبوں سے رائے مانگ لی،محرکین کا کہنا ہے وزاراعلی اپنی مرضی منشا سے سیاسی بنیادوں پرفنڈز تقسیم کررہے ہیں، کمیٹی نے ایوان بالا کو نجی آئینی ترامیمی بلز کی پارلیمانی پارٹی  سے پیشگی منظوری  کے لئے آئین میں ترمیم تجویزکردی جب کہ نئے صوبوں کے معاملے پرمسلم لیگ(ن) اور پی ٹی آئی کے ارکان میں نوک جھونک ہوگئی، اپوزیشن نے پنجاب کے ساڑھے پانچ سوارب روپے کے بجٹ سے جنوبی پنجاب کو صرف  80،ارب روپے فراہم کرنے کی دستاویزات پیش کردیں۔سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قانون وانصاف نے نئے صوبوں کی ترامیم اور قراردادوں کا تمام ریکارڈ مانگ لیا بعض  ارکان نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ نئے صوبے سے پنجاب کی سینیٹ میں دگنی نشستیں ہوجائیں گی اس کا اختیاراثر ورسوخ  بڑھ جائے گا ۔سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کا اجلاس  چیئرمین فاروق ایچ نائیک کی زیر صدارت  منعقد ہوا۔ اجلاس میں آرٹیکل 63 اے زیر بحث آگیا۔

وفاقی وزیرقانون  اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ جب تک پارلیمانی پارٹی اجازت نہیں دیتی ہم ووٹ بھی نہیں کرتے، نجی بل کے حوالے سے بھی یہ طریقہ کار اختیار کیا جائے کیونکہ اگر پارٹی ہی متفق نہ ہو تو  نجی بل کی کیا حثیت رہ جائے گی بل واپس لینا پڑجاتا ہے ۔ یہ تضاد نہیں کہ آئینی ترمیم کا بل پارلیمانی پارٹی کی اجازت کے بغیر لے آتے ہیں، اعظم نذیر تارڑ سپریم کورٹ نے کہا کہ ووٹ ڈالو گے بھی تو گنا نہیں جائے گا،پرائیویٹ ممبر بل پارلیمانی لیڈر کی اجازت کے بغیر نہیں پیش کیا جانا چاہئے۔سینیٹر دنیش کمار کے قومی اسمبلی میں ہر صوبے سے ایک نشست  غیر مسلم رکن  کے لئے مختص کرنے کے بل کا جائزہ لیا گیا بلوچستان اس بار کوئی اقلیتی رکن قومی اسمبلی میں نہیں ہے، کم سے کم ایک سیٹ ہر صوبے کے لئے رکھی جائے، دنیش کمارکمیٹی نے بل مزید غور کے لئے موخر کردیا۔وزیرقانون نے کہا کہ بلوچستان سے پارٹیوں نے کہا کہ وہاں حلقے بہت بڑے ہیں،چاروں صوبائی حکومتوں کو بیٹھنا ہوگا۔چیئرمین کمیٹی نے اسمبلیوں کی نشستیں بڑھانے سے متعلق معاملے پر ذیلی کمیٹی تشکیل دے دی۔اعظم نذیر تارڑنے کہا کہ  ہماری طرف سے سینیٹر سعدیہ عباسی ذیلی کمیٹی میں بیٹھ جاتی ہیں،

سینیٹر سعدیہ عباسی نے ذیلی کمیٹی کا رکن بننے سے انکار کردیا، اپنے بل سے بھی دستبردار ہوگئیں ۔سینیٹر خالدہ اطیب کے لوکل گورنمنٹ سے متعلق  آئینی ترمیم کے بل کا جائزہ لیا گیا جس کے تحت  بلدیاتی اداروں میں مالی وسائل کی منصفانہ تقسیم کی تجویز دی  گئی ۔ وفاقی حکومت ایسے انتظامات کرے کہ پورے ملک میں بلدیات کا مالیاتی یکساں  نظام قائم کیا جائے،کچھ فنڈز غربت اور پسماندگی کے حوالے سے مختص کئے جائیں،فنڈز کی تقسیم اس طرح کرنا چاہئے کہ نچلی سطح پر لوگوں کو بااختیار بنائیں، حامد خان نے کہا کہ  جس دن سے  پارلیمنٹیرینز کو ترقیاتی فنڈز دینے شروع کئے گئے اس دن سے مسئلہ بہت بڑھ گیا، ترقیاتی فنڈز قانون بنانے والوں کو نہیں دینے چاہئیں، سینیٹر حامد خانکسی اسمبلی کے ممبر یا سینیٹر کو فنڈز نہیں دینے چاہئیں ،فنڈ ان کو نہیں جائیں گے تو لوکل باڈیز کو جائیں گے،  وفاقی وزیر قانون نے کہا کہ ارکان سینیٹ کو ترقیاتی فنڈز نہیں ملتے۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ سینیٹ کو بالکل کچھ نہیں ملتا۔ سینیٹر ضمیر حسین نے بل کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ بل کو مسترد کیا جائے،صوبے اپنی بلدیاتی قانون سازی کے خود مجاز ہیں۔

سینیٹر انوشہ رحمان نے کہا کہ ہر صوبے کے معروضی حالات مختلف ہیں، سندھ نے اچھا قانون بنایا ہے پنجاب میں بھی کام جاری ہے ۔وفاقی وزیرقانون نے کہا کہ یہ مسئلہ عوام سے جڑا ہوا ہے،اس کا ادراک ہے،صوبے متفقہ طور پر چاہیں تو وفاق کو کوئی اعتراض نہیں،اس کے لئے سیاسی اتفاق رائے کی ضرورت ہے، شاید آئینی ترمیم کی ضرورت نہ ہو، ہمیں مل بیٹھ کر رویوں میں تبدیلی کی ضرورت ہے،  لوکل گورنمنٹ کے پاس براہ راست جائیں۔محرک نے کہا کہ  وزیر اعلی کے پاس فنڈز جاتے ہیں وہ اس کو  درست تقسیم نہیں کرتے،وفاقی وزیر نے کہا کہ سارے صوبوں کا معاملہ ایک جیسا ہی ہے،آپ اس کو اسٹڈی کرکے رائے دیں اور صوبوں سے رائے لی جائے کیونکہ یہ بل سارے پاکستان کے بارے میں ہے ۔کمیٹی ممبرز کے نجی آئینی ترمیمی بلوں کو پارٹی کی اجازت سے مشروط کرنے پر متفق ہوگئی۔63شق میں ترمیم کی سینیٹ کو تجویز دے دی گئی ۔

اجلاس میں سینیٹر عون عباس کے جنوبی پنجاب صوبے کے قیام سے متعلق بل کا جائزہ لیا گیا کہ  پنجاب میں تین ڈویژنوں مشتمل پر ایک نیا صوبہ بنا دیا جائے چالس فیصد آبادی کو صرف سات فیصد فنڈز ملتے ہیں عارضی سیکرٹریٹ بھی ختم کردیا گیا سارے سیکرٹریز واپس چلے گئے اور ہمارے دور کے اس سیکرٹریٹ کو مضبوط نہیں  ہونے دیا گیا ۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ صوبائی اسمبلی سے  اس کے لئے قرار داد ضروری ہے،2013 میں ایک بل پاس بھی ہوا ہے،جنوبی پنجاب صوبے سے قومی اسمبلی کی 46 جنرل نشستیں ہوں گی، جنوبی پنجاب کے صوبے کی صوبائی اسمبلی  کی نشستیں 96 ہوں گی۔ سینیٹر عون عباس  نے مزید کہا کہ تارڑ صاحب پیر سے نیا میلہ لگا رہے ہیں اور وہ ہمیں ہی لوٹنے کے لئے لگا رہے ہیں، فی الحال میرا بل موخر کردیا  جائے ان کی ترمیم کے بعد اس معاملے کو لیا جائے میں اپنی پارلیمانی پارٹی سے بھی اجازت لے لوں گا ۔ ن لیگ کی سینیٹر انوشہ رحمان نے کہا کہ یہ بل واپس لے لیں، ملک کو جوڑنے کی بات کریں، توڑنے کی باتیں نہ کریں، سینیٹر کامران مرتضی نے ریمارکس دیئے کہ پھر ون یونٹ کردیں، اس جملے پر قہقہے پڑے وزیر قانون نے واضح کیا کہ نئے صوبے کے بل پر حکومت انوشہ کی بات سے متفق نہیں ۔

جبکہ  سینیٹر کامران مرتضی  نے کہا کہ کئی خدشات ہیں ،بلوچستان پہلے ہی احساس محرومی کا شکار ہے،پنجاب میں دوصوبے بننے سے سینیٹ میں اس کی نشستیں دگنی ہوجائیں گی اگر علاقوں  کی تہزیب و تمدن   معاشرت کا معاملہ ہے تو بلوچستان میں تو واضح طور پر بلوچ اور پشتون بلیٹ  ہے۔ وزیرقانون نے کہا کہ اور صوبوں میں بھی معاملات کو دیکھیں  اندرون سندھ کراچی حیدرآباد  کے معاشرت اسی طرح خیبرپختونخوا میں ہزارہ ڈویژن  ڈیرہ اسماعیل خان اور دیگر معاشروں کو دیکھیں ۔  کمیٹی نے نئے صوبوں سے متعلق اب تک بننے والے ورکنگ پیپرز مانگ لئے ہیں۔ ریکارڈ بھی طلب کیا گیا ہے ۔  سپریم کورٹ کے ججز کی تعداد بڑھانے کا بل آئندہ کے لئے موخربل کے محرک سینیٹر عبدالقادر کمیٹی اجلاس میں نہ آسکے۔ جب کہ ٹرانس جینڈر سے  متعلق بل پر اسلامی نظریاتی کونسل سے رائے مانگ لی گئی کمیٹی نے اس بارے میں شریعت کورٹ کا فیصلہ بھی منگوالیا ہے ۔