یہ ججوں کو ہو کیا گیا ہے؟ : تحریر انصار عباسی


سپریم کورٹ کے ججوں کا آپس کا اختلاف ایک ایسی لڑائی میں بدل چکا جو سب کے سامنے عوامی سطح پر لڑی جا رہی ہے۔ ایک دوسرے کے متعلق اس انداز میں عدالتی حکم ناموں اور سپریم کورٹ کی خط و کتابت میں بات کی جا رہی ہے کہ دیکھنے اور سننے والے حیران ہیں کہ یہ سپریم کورٹ کے ججوں کو ہو کیا گیا ہے؟؟ اختلافات ہوتے ہیں لیکن جس انداز میں اب دوسرے کے متعلق بات کی جا رہی ہے یہ پہلے نہ کبھی سنا نہ دیکھا۔ اس سے پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت ایک ایسا تماشہ بن چکی جس پر سب تبصرے کر رہے ہیں۔ آپس کے اختلافات اور رنجشوں کو ساری دنیا کے سامنے کھولنا اور عوامی سطح پر ایک دوسرے کو جواب دینے کی بجائے کیا یہ اچھا نہ ہوتا کہ سپریم کورٹ کے تمام جج حضرات ایک ساتھ بیٹھ کر ان مسئلوں کو بند کمروں میں اس طرح حل کرنے کی کوشش کرتے کہ انصاف کے تقاضے پورے ہوں، عوام پر سپریم کورٹ اور عدلیہ پر اعتماد بحال ہو۔ اب تو جو رہی سہی کسر تھی وہ بھی باتی نہیں رہی۔ جس انداز میں ٹی وی چینلز، سوشل میڈیا اور عوامی سطح پر ججوں کے رویوں پر بات ہو رہی ہے اسے سن کر افسوس ہوتا ہے۔ سپریم کورٹ کے اندر کی موجودہ تقسیم اور ججوں کے آپس میں اس تناؤ اور لڑائی کا عمومی طور پر سیاسی کیسوں سے تعلق ہے۔ یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے ججوں کو اس تاثر کی بنا پر دیکھا جائے کہ کس کا کس سیاسی دھڑے کی طرف جھکاؤ ہے اور کون کس سیاسی جماعت کے حق اور کس سیاسی جماعت کے خلاف فیصلہ کر سکتا ہے۔ محسوس ایسا ہوتا ہے کہ جس سیاسی تقسیم کا پورا معاشرہ شکار ہو چکا ہے اُس کا سپریم کورٹ بھی شکار ہو چکی ہے۔ یہ وہ تاثر ہے جسے ہر حال میں ختم ہونا چاہئے اور جس کے لیے تمام ججوں کو آپس میں مل بیٹھ کر غور و خوض کرنا چاہیے۔سیاسی مقدمات سے متعلق آپس میں ان لڑائیوں کی بجائے کتنا اچھا ہوتا کہ سپریم کورٹ کے جج اس نکتہ پر سر جوڑ کر بیٹھتے کہ کس طرح پاکستان میں انصاف کے نظام میں بہتری لائی جائے تاکہ ہر شخص کو سستا اور فوری انصاف مہیا کیا جا سکے اور جو پاکستان کی عدلیہ کی ریپوٹیشن ہے اُسے بہتر بنایا جائے۔ سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے دور میں سپریم کورٹ کے اندر کی جو تقسیم نظر آتی تھی آج اُس سے بہت بُری حالت ہے۔ اب تو سپریم کورٹ کے جج اپنے فیصلوں میں ایک دوسرے پر طعنہ سازی کرتے ہوتے نظر آ رہے ہیں۔ اگر دو ججوں نے یہ کہا کہ آٹھ ججوں کا فیصلہ یعنی اکثریتی فیصلہ غیر آئینی ہے اور اُس پر آئینی اداروں کو عملدرآمد نہیں کرنا چاہیے تو اکثریت والے ججوں نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ دو ججوں نے جو اپنے فیصلے میں لکھا وہ ججزکے منصب کے منافی ہے ، اس سےسپریم کورٹ کی سالمیت کمزور ہوتی ہے اور یہ انصاف کی راہ میں رکاوٹ پیدا کرنے کی کوشش ہے۔سپریم کورٹ میں چیف جسٹس کو ون مین شو کے طعنے بھی دیے جا رہے ہیں۔ سپریم کورٹ کے اندرونی معاملات کے متعلق خط و کتابت میڈیا کو لیک کی جا رہی ہے۔ اگر ایک طرف چیف جسٹس کی طرف سے رجسٹرار کو آٹھ ججوں کے 14 ستمبر کو جاری کیے گئے آرڈر یا وضاحت کے متعلق سوال میڈیا اور سوشل میڈیا میں وائرل ہو گئے تو دوسری طرف جسٹس منصور علی شاہ نے ججز کمیٹی کے بائیکاٹ کرنے پر جن تحفظات کا اظہار کیا وہ بھی سب کے سامنے آ گئے۔ یعنی جو لڑائی سپریم کورٹ کے اندر ہے اُسے چھپانے کی بھی کوئی کوشش نہیں کی جا رہی بلکہ سب کچھ عوام کے سامنے کھول کر رکھا جا رہا ہے جس سے عدالت عظمی کے ججوں کے بیچ تلخیاں اور تناؤ میں مزید اضافہ ہو رہا ہے ۔ یہ جو سب کچھ ہو رہا ہے اس میں کسی جج کی جیت نہیں بلکہ سب کی ہار ہے اور سب سے اہم بات کہ اس سے سپریم کورٹ کے احترام اور اُس کی حیثیت کو قوم کی نظروں میں سخت نقصان پہنچ رہا ہے۔ اس کا ذمہ دار ججوں کے علاوہ اگر کوئی ہے تو مجھے بتا دیں۔

بشکریہ روزنامہ جنگـ