مقبوضہ کشمیر میں10 سال بعد نمائشی انتخابات، اضافی بھارتی فورسز تعینات


 سری نگر— مقبوضہ جموں و کشمیر اسمبلی کے انتخابات کا پہلا مرحلہ بدھ کو شروع ہوگا، انتخابات کے سلسلے میں جموں وکشمیر میں اضافی بھارتی فورسز تعینات کر دی گئی ہیں جبکہ  امن و امان  کے قیام کے نام پر محاصرے چھاپے اور تلاشی کارروائیاں جاری ہیں بڑی تعداد میں نوجوانوں کو گرفتار کر لیا گیا ہے  ۔ 5 اگست 2019 کومقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کیے جانے کے بعد یہ پہلے انتخابات ہوں گے۔مقبوضہ جموں و کشمیر اسمبلی کے لیے ووٹنگ 18 ستمبر سے یکم اکتوبر تک 3 مراحل میں ہوگی جبکہ ووٹوں کی گنتی 4 اکتوبر کو ہوگی۔ انتخابات میں 87 لاکھ ووٹرز ووٹ ڈالنے کے اہل ہوں گے۔
حریت پسند کشمیری رہنماؤں کے مطابق  کشمیری عوام  18 ستمبر کو نام نہاد انتخابی عمل سے لاتعلق رہیں گے ناقدین کے مطابق 90 نشستوں پر مشتمل ریاستی اسمبلی کے پاس تعلیم و ثقافت جیسے محکموں کا کنٹرول ہی ہوگا جبکہ اہم معاملات پر فیصلوں کا اختیار اب بھی  بھارتی حکومت کے پاس رہے گا۔2019 کے اس اقدام کے بعد سے کشمیر کا انتظام بھارتی  حکومت کے مقرر کردہ گورنر کے ذریعے چلایا جارہا ہے۔

بھارتی حکومت نے  مقبوضہ کشمیر کے گورنر کے اختیارات میں بھی غیر معمولی اضافہ کر دیا ہے  جس کے باعث  انتخابات کے نتیجے میں بننے والی حکومت  کی حیثیت محض نمائشی ہوگی ۔اس سے قبل جون کے مہینے میں جموں وکشمیر  میں بھارتی لوک سبھا کی 5 نشستوں کے لیے ووٹنگ ہوئی تھی، مقبوضہ جموں و کشمیر میں آخری مرتبہ ریاستی انتخابات 2014 میں ہوئے تھے جس میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی جماعت بی جے پی نے پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے ساتھ مل کر حکومت بنائی تھی۔تاہم 2018 میں یہ اتحاد ٹوٹ گیا جس کے بعد اسمبلی کو تحلیل کردیا گیا۔

پانچ اگست2019 میں مودی حکومت نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرکے اسے مرکز کے زیرانتظام یونین ٹیریٹری بنادیا جس کے بعد یہاں طے شدہ انتخابات بھی نہ ہوسکے۔ 5 اگست 2019 کو مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد ریاست کو تقسیم کر کے  چین کے ساتھ  سرحد پر موجود لداخ کے علاقے کو بھی علیحدہ کرکے اسے براہ راست مرکز کے زیر انتظام کردیا تھا۔بھارتی حکومت نے خاطر خواہ ہندو آبادی رکھنے والے جنوبی جموں اور مسلم اکثریتی وادی کشمیر کو ایک خطہ بنادیا جس کی علیحدہ اسمبلی ہوگی، اسی اسمبلی کے انتخابات کا پہلا مرحلہ  بدھ کو شروع ہوگا