ممتاز اقبال ملک سینئر صحافی، نظریاتی، جمہوری، قلمی جہاد کے محاذ کے مزاحمت کار، باکردار اور بااصول شخص تھے۔ 11ستمبر2024ء کو فیڈرل یونین آف جرنلسٹس(دستور) کے سربراہ اور راولپنڈی اسلام آباد پریس کلب کے بانی ا ور سینئر صحافی حاجی نواز رضا صاحب نے نیشنل پریس کلب، اسلام آباد میں ممتاز اقبال ملک مرحوم کی یاد میں تعزیتی ریفرنس کا اہتمام کیا۔سینئر اورنوجوان صحافیوں کے علاوہ آئی ایس پی آر کے سابق عسکری افسران بھی ممتاز اقبال ملک کی محبت میں کھنچے آئے اور مرحوم کی یاد میں بہت ہی شاندار، باوقار نشست ہوئی، حاجی نواز رضا کی اِس کاوش کو سب نے سراہا کہ یادرفتگان کے لئے محبت اور پوری ذمہ داری سے تعزیتی نشستوں کا اہتمام کرتے ہیں، صحافتی میدان کے شہسواروں کے دنیا سے رخصت ہو جانے کے بعد یہ روایت موجود قلم کاروں کے لئے بھی طمانیت اور تربیت کا باعث ہے۔
ممتاز اقبال ملک سے گزشتہ 50 سال سے تعلق دوستی تحریکی، نظریاتی بنیاد پرتھا، میں خودبھی پنجاب یونیورسٹی صحافت شعبہ میں تھا اس وجہ سے اور بھی گہرا تعلق استوار ہوتا گیا۔ یہ پہلو بھی بہت اہم تھا کہ میرے بڑے بھائی تایا زاد کرنل محمد صابر خان کے بہت عزیز دوست کرنل عصمت ملک کی وجہ سے ممتاز اقبال ملک سے تعلق بنا پھرجماعت اسلامی ضلع خوشاب کے سابق امیر کرنل محمد اقبال مرحوم، ڈاکٹر محمد ادریس اور مرحوم کے بھائی جو پنجاب سول سیکرٹریٹ میں صوبائی سیکرٹری تھے وہ بھی بہت باوقار اور دیانتدار آفیسر تھے۔یوں کئی زاویوں سے یہ تعلق مضبوط تر ہوتا گیا۔اعتماد محبت اور تعلقات کی گہرائی پیدا کرتا چلا گیا۔
ممتاز اقبال ملک درویش،خدامست، انتہائی خلیق ہنس مکھ، مرنجامرنج، عاجزی، ا نکساری کا پیکر تھے، بااصول، باکردار، محنت امانت ودیانت کی بنیاد پر قابل فخر صحافی تھے۔ وسیع مطالعہ،تحقیقی مزاج اور تحریر کی پختگی ان کی طاقت تھی۔ الطاف حسن قریشی، مجیب الرحمن شامی، عبدالقادر حسن، سجاد میر، مجید نظامی، ظفر اللہ خان ملک، ڈاکٹر مسکین حجازی، رفیق غوری، آغا شورش کاشمیری، ضیاء شاہد، نذیر ناجی، ارشاد حقانی، عباس اطہر، صفدر چوہدری، چوہدری غلام جیلانی، مظفر بیگ، ڈاکٹر مغیث الدین شیخ،شعیب بن عزیز جیسے قدآور صحافی شخصیات سے ان کا بہت دوستانہ اور گہرا تعلق تھا۔ اپنی محنت، پیشہ وارانہ مہارت اور مسلسل محنت اور سکہ بند مستند تحریر کی وجہ سے صحافتی حلقہ میں عزت واحترام، معروف اور ہردلعزیزی کے صاف ستھرے مقام پر تھے۔ اُن کی شخصیت کا یہ خاصا کہ رسول اللہ ۖ کا عشق، درودپاک کا ورد، ذکر واذکار اور خیرکو عام کرنے کا جنون رہتا تھا۔
لاہور کے حلقہ صحافت کے لئے میں جماعت اسلامی کی طرف سے ذمہ دار رہا اُس میں بھی بھرپور معاونت رہی۔اس حوالہ سے وہ صفدر چوہدری مرحوم کے بہت بااعتماد ساتھی تھے۔ اسلامی تحریک، مولانا سیّد ابو الاعلیٰ مودودی اور دینی جمہوری سیاسی محاذ پر اُن کی دلچسپی اور صحافتی سرگرمی بہت خوب تھی، لاہور، اسلام آباد میں ہوتے ہوئے یہ اُن کی ہمیشہ عادت حسنہ رہی کہ فون کرنا، حال احوال اور ملک کے اسلامی نظریاتی رُخ میں تبدیلی، قادیانی فتنہ کی سرگرمیوں اور لادین مادرپدرآزاد سرگرمیوں پر اپنا زوردار موقف دیتے اور کچھ نہ کچھ کرنے پرخوب زور دیتے۔ جماعت اسلامی کی اچھی سرگرمی کے معتقد، کمی کمزوری پر ”دلیرانہ” محاکمہ کرتے۔ حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا۔
لاہور کے صحافتی حلقوں میں اچانک یہ خبر گردش کرنے لگی کہ ایک سینئر، مستند، بااعتماد قلم کار بہت جلد آزاد دُنیا چھوڑ کر عسکری، ریاستی صحافت کا شکار ہورہا ہے۔ کچھ ہی دنوں کے بعد یہ ”حادثہ” رونما ہوا کہ ممتاز اقبال ملک فوجی پرچہ ھلال کے ایڈیٹر ہو گئے ہیں، سول صحافت سے عسکری صحافت میں جانے کا پس منظر کیا تھا اس پر بات کرنا مقصود نہیں اصل معاملہ یہ کہ فوجی پرچہ کو ایک بہت ہی مستند اور خاندان کے حوالہ سے بھی فوجی پس منظر کا محنتی اہل صحافی مل گیا۔ ISPR ہیڈ آفس میں اُن کی موجودگی کی وجہ سے جانا،ملاقات ہونا اور دیگر ISPR افسران سے مِلنا،حالات، پارلیمنٹ، عسکری سرگرمیوں پر تبادلہ خیال کا موقع مِل جاتا۔ ھلال کے ایڈیٹر کی وجہ سے پرچہ نے بھی بہت عروج پایا، اشاعت، لوازمہ، عسکری اہمیت، جانفشانی اور فوجی خاندانوں کی اصلاح وتربیت کے ساتھ ہلال کے معرکة الاراء خصوصی شماروں کی اشاعت میں بھی مرحوم کا بڑا کریڈٹ تھا۔
لاہور میں ممتاز اقبال ملک،مولانا سیّد ابو الاعلیٰ مودودی کی عقیدت اور پیشہ وارانہ ذمہ داری کی وجہ سے مولانا مرحوم کی عصری نشستوں کے مستقل شریک تھے۔کبھی کبھی ذیلدار پارک اچھرہ موڑ پر ہوٹل پر چائے پر خوب نشست رہتی۔ آج کے سینئراور نوجوان صحافیوں کے لئے ممتاز اقبال ملک میدان صحافت کے استاد، مربی اور رول ماڈل کی حیثیت رکھتے ہیں، مرحوم کی رپورٹس، خصوصی اشاعت اور ہفت روزہ زندگی کے لئے الطاف حسن قریشی اور مجیب الرحمن شامی کی قیادت میں عظیم جدوجہد کی صحافت کوضرور پیش نظر رکھیں، پیشہ وارانہ صحافت کے لئے مرحوم عامل اور باعمل رہنما تھے۔ اپنی اصول پسندی، اپنے تجزیئے پر قائم رہنے اور پرچے ادارے کی ضروریات کے پیش نظر اپنی پختہ رائے کی وجہ سے ھلال سے فوجی جنریل میں چلے گئے وہاں بھی انہوں نے اپنا سکہ قائم کیا۔ بہرحال اپنے نظریاتی مضبوط پس منظر کی وجہ سے ایمان،تقویٰ جہاد کے عنوان میں بہت آگے چلے گئے لیکن ایساتو نہیں ہوتا اور انہیں اپنے وژن اور قلبی وارداتوں کومحدود کرنا پڑا۔
عسکری صحافت سے وہ نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میں آ گئے، وہاں بھی یونیورسٹی جنرل اور پبلی کیشنز سے وابستہ تھے، دو تین مرتبہ وہاں بھی ملاقات کے لئے گیا۔ بریگیڈئر صاحب جو انچارج تھے ان کے ساتھ ممتاز اقبال ملک کا بڑا نیاز مندانہ اور ادب واحترام کا تعلق تھا، چائے اُن کے پاس پینے کیلئے کہتے وہیں ایک نشست میں برگیڈئرسے بھی بار بار کہہ رہے تھے کہ بریگیڈئر صاحب گوجرانوالہ کینٹ گاڑی ٹکر کاواقعہ تو سنائیں بریگیڈئر صاحب ٹالتے رہے اصرار پر قصہ سُنایا کہ ایک بریگیڈئر صاحب سٹاف کار میں جارہے تھے ایک گاڑی جسے خاتون ڈرائیو کر رہی تھی نے ان کی گاڑی کو ٹکر مادی۔ فوجی ڈرائیور باہر نکلے، خاتون زور شور سے اپنی غلطی ماننے کی بجائے کہہ رہی تھیں کہ جنرل صاحب کی گاڑی کو ٹکر مار دی ہے، فوجی ڈرائیور نے کہا کہ غلطی آپ کی ہے یہ گاڑی بھی بریگیڈئر صاحب کی ہے۔ خاتون صاحبہ نے فرمایا کہ ایک فوجیوں نے کینٹ میں بڑا گند ڈال دیا ہے۔ یوں خوشگوار باتوں، واقعات کے بیان سے ممتاز اقبال ملک مجلس کو یادگار بنا دیتے۔ جنرل پرویز مشرف مرحوم کے دور کے انتہائی ناقد رہے اور اسلامی نظریاتی، تہذیبی ٹریک سے ہٹتے اقدامات کا کمال خوبی سے محاکمہ کرتے اور نشاندہی کرتے۔ اللہ تعالیٰ ممتاز اقبال ملک مرحوم کی مغفرت فرمائے۔(آمین)