احمقوں کی جنت! : تحریر سہیل وڑائچ


آج کی دنیا کی ترقی و تہذیب ہر دور کے عقل مند انسانوں کی دین ہے، تاریخ دان ٹائن بی کے بقول ہر دور کے چیلنجوں سے نمٹنے کیلئے انسانوں کی تخلیقی اقلیت سامنے آتی رہی ہے، انکے نئے اور تخلیقی راستوں سے معاشرے مشکلات سے نکلتے اور ترقی کی طرف سفر کرتے رہے ہیں، جب یہ تخلیقی اقلیت (CREATIVE MINORITY)کوئی حل نکالتی ہے تو پھر معاشرے کی اکثریتی آبادی اس حل کو نقل کر کے بحرانوں سے نکل جاتی ہے۔ افسوس یہ ہے کہ دنیا کو آگے لے جانے والے عقل مند لوگ تضادستان کے تخت و تاج اور قیادت میں دور دور تک نظر نہیں آتے۔ سیاست کے فیصلوں کو دیکھیں تو یوں لگتا ہے جیسے ہم احمقوں کی جنت میں آ گئے ہیں، ایسے ایسے بے وقوفانہ فیصلے کئے جاتے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ تحریک انصاف کی سیاست احمقانہ فیصلوں کی بہترین مثال ہے لیڈر سے لے کر کارکن تک چاہتا ہے کہ مقتدرہ اور تحریک انصاف کے درمیان صلح ہو جائے تاکہ پارٹی اور عمران خان کو کچھ ریلیف ملے مگر 8ستمبر کے جلسے میں جو حکمت عملی اختیار کی گئی اس سے تو مقتدرہ سے تلخی بڑھی، راستے بند ہوئے۔ اگر تحریک انصاف کی عینک سے دیکھا جائے اور ان کا سیاسی مفاد مدنظر رکھا جائے تو حالیہ مہینوں میں تحریک انصاف نے اپنی حریف نون لیگ کو سب سے زیادہ پریشان اس وقت کیا جب انہوں نے 22 اگست کا جلسہ ملتوی کیا، نونیوں کے طوطے اڑ گئے کہ جیل کے دروازے کس طرح کھل گئے، مقتدرہ کے ساتھ خفیہ نامہ و پیام کیسے ہوا؟ اگر عقل سے کام لیتے تو انصافیے اسی بیانیے کو بڑھاتے اور اپنے مخالفوں کو کارنر کرتے مگر جلسے میں جو جارحانہ زبان مقتدرہ کے بارے میں اختیار کی گئی اس سے انہوں نے 22اگست کو جو سیاسی برتری حاصل کی تھی وہ پھر سے صفر ہو گئی بلکہ منفی درجوں میں چلی گئی۔

دوسری طرف ریاست چلانے والے فیصلہ ساز بھی احمقوں کی جنت میں نہلے پر دہلا ہیں، تحریک انصاف کے جلسے کی زبان پر ہر طرف سے تنقید ہوئی مگر دوسرے ہی دن فیصلہ سازوں نے پارلیمان پر چھاپہ مار کر گرفتاریوں کا جوسلسلہ شروع کیا وہ تحریک انصاف سے بھی بڑا حماقت کا فیصلہ تھا۔ اس فیصلے کے بعد ہر توپ کا رخ فیصلہ سازوں کی طرف ہو گیا اور گنڈا پور مظلوم لگنے لگے۔ دونوں طرف کے ان اقدامات سے صاف پتہ چلتا ہے کہ عقل کے اندھے بحران کو حل ہی نہیں ہونے دے رہے۔ دونوں طرف کے احمق فیصلے ہی ایسے کر رہے ہیں جس سے کوئی حل نکل ہی نہیں پا رہا۔ احمقوں کی جنت میں ہی ایسا ممکن ہے کہ 9مئی سے پہلے ایک ریٹائرڈ جرنیل آج کے قیدی نمبر 804 کو 603 پیغامات بھیجتا ہےاور بے وقوفوں کی دنیا میں ہی ایسا ہو سکتا ہے، یہی ریٹائرڈ جرنیل اپنے ذاتی مفاد کیلئے ملک کی سب سے پاپولر جماعت کو فوج سے لڑا رہا تھا اس مقصد کیلئے اس کے تحریک انصاف کے 38لیڈرز سے رابطے تھے جن کو وہ براہ راست پیغامات کے ذریعے ہدایات دیتا تھا۔ اسی دنیا میں یہ بھی ہوا ہے کہ جنرل باجوہ کو بھی جنرل فیض بے وقوف بناتے رہے ہیں جنرل باجوہ کے ایک قریبی سیاستدان نے انکشاف کیا ہے کہ جنرل فیض کی وہ ساری سازش بے نقاب ہو گئی ہے کہ کس طرح سے وہ جنرل عاصم منیر کے خلاف جھوٹا پراپیگنڈا اور الزامات جنرل باجوہ تک پہنچاتے رہے ہیں، جنرل باجوہ کو وہ سارا مواد دکھا دیا گیا ہے اور جنرل باجوہ بھی اب جنرل فیض کے مدد گار نہیں رہے۔ جب اہل سیاست کی ڈوریاں کوئی مفاد پرست ہلائے تو ملک کیا خاک آگےبڑھے گا ترقی اور مفاہمت کا راستہ کیسے اپنایا جائے گا؟

تضادستان کے احمقوں کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ وہ خود کو سب سے عقل مند سمجھتے ہیں انگریزی کے فلاسفر ڈرامہ نگار ولیم شیکسپیئر نے AS YOU LIKE IT میں لکھا ـ”THE FOOL DOTH THINK HE IS WISE BUT THE WISE MAN KNOWS HIMSELF TO BE A FOOL” (احمق سمجھتا ہے کہ وہ عقل مند ہے لیکن عقل مند شخص اپنے آپ کو بے وقوف سمجھنا چاہتا ہے)۔ اصل کے شاہی دربار تھے یا پھر شاعروں اور ادیبوں کے تخلیق کردہ دربار، ان سب میں احمق (FOOL)اور مسخرے (CLOWN) لازمی جزو ہوا کرتے تھے۔ ولیم شیکسپیئر نے جتنے بھی FOOL تخلیق کئے وہ عقل و دانش سے بھرپور

باتیں کرتے ہیں۔ اگر آج کے دور میں شیکسپیئر کا عقل مند فول آ جاتا تو وہ تحریک انصاف سے ضرور پوچھتا کہ کس احمق فول نے آپ کو جلسے یا جلسی میں انتہا پسندانہ رویہ اختیار کرنے کا مشورہ دیا تھا؟ کیا اس کا عمران خان کو فائدہ ہوا ہے یا نقصان؟ کیا اس سے ان کی سیاست میں بہتری آئی ہے یا بدتری؟ مگر تضادستان احمقوں کی اصل جنت ہے اس لئے پارٹی کے اندر کوئی بھی سیاسی نفع یا نقصان کا تجزیہ پیش نہیں کرے گا اور نہ ہی پارٹی اپنی غلطیوں سے سیکھ کر اپنی اصلاح کرے گی۔ وہی اہم بات، احمقوں کی سب سے بڑی خرابی یہ ہوتی ہے کہ وہ خود کو عقل مند اور دوسروں کو بے وقوف سمجھتے ہیں۔ اب دوسری طرف ریاست اور حکومت چلانے والوں کا لیول چیک کریں کہ تحریک انصاف کی طرف جاتے تیر کو انہوں نے خود اپنے لئے چن لیا۔ پارلیمان سے ایم این ایز کی گرفتاری نے گنڈا پور کی غلطیوں کو بھلا دیا اور حکومتی کار پردازان کی احمقانہ اور منتقمانہ کارروائیوں کو ہائی لائٹ کر دیا اس بے وقوفی کی حرکت نے پارلیمان کی سب جماعتوں کو اکٹھا کر دیا۔ پی ٹی آئی کے ساتھ روا رکھے گئے ظلم پر پیپلز پارٹی اور نون دونوں کو نہ چاہتے ہوئے بھی فریق بننا پڑا۔ سپیکر قومی اسمبلی کو کریز سے باہر نکل کر خصوصی کمیٹی بنانا پڑی۔ اب ہمارے ہاں جو سلسلہ چل رہا ہے اس میں میرےجیسے بلڈی فول سویلین کو بھی علم ہے کہ یہ سوال اٹھایا نہیں جا سکتا کہ وہ کون عظیم عقل مند اور دانش ور ہے جس نے پارلیمان پر چھاپہ مارنے کا حکم دیا اور کیا کسی نے سوچا تھا کہ اس کا کوئی ردعمل بھی ہو سکتا ہے؟ حکومت چلانے والے تو سب سے عقل مند اور بالاتر مخلوق ہیں انہیں دلیل و دانش سے کیا واسطہ، ان کا یقین ہے کہ زور زبردستی ہی سب سے بڑے ہتھیار ہیں جن سے ہر کسی کو زیر کیا جا سکتا ہے۔ حالانکہ چانکیہ، میکاولی اور سن زو سے لے کر افلاطون، ارسطو اور سسرو تک سب متفق ہیں کہ جو کام عقل کرسکتی ہے وہ زور زبردستی نہیں۔

آج کی دنیا عقل کی دنیا ہے عقل نے ٹیکنالوجی کو جنم دیا ہے۔ پہلے وحشی جنگیں جیت کر تہذیبوں کو پامال کر دیتے تھے اب مہذب دنیا کی عقل و حشیوں کو ایک بٹن دبانے سے تباہ کر دیتی ہے۔ کاش پاکستان کا حکمران طبقہ اور سارے اہل سیاست حماقتوں سے نکلیں، عقل و دانش کا سہارا لیں اندھی عقیدتوں کی بجائے منطق سے لیس ہوں ،حکمران طاقت کے نشے سے نکل کر عقل کو بروئے کار لائیں…اے کاش!!!

بشکریہ روزنامہ جنگ