اس میں دو رائے نہیں کہ گزشتہ کی طرح موجودہ پارلیمنٹ بھی جینوئن نہیں۔ یہ بات بھی شک و شبے سے بالاتر ہے کہ انتخابات میں دھاندلی ہوئی۔ یہ بات بھی اظہر من الشمس ہے کہ اس پارلیمنٹ کی کارکردگی ناقص ہے اور ابھی تک اپنی حیثیت پوری طرح نہیں منوا سکی۔ یہ ڈی جیرو نہیں بلکہ ڈی فیکٹو انتظام ہے اور گزشتہ کی طرح ڈی فیکٹو سمجھ کر اسے ہم نے بہ امر مجبوری قبول کیا ہے۔ لیکن تین روز قبل اس حکومت نے خود اس پارلیمنٹ کو مزید بے وقعت کیا۔ موجودہ ماحول میں یہ بڑی بات تھی کہ پی ٹی آئی اسلام آباد سے باہر سنگجانی میں جلسے پر رضا مند ہو گئی تھی۔ اس میں اگر تجاوز کیا تو صرف علی امین گنڈاپور نے کیا بلکہ انہوں نے اپنی تقریر کے ذریعے پورے جلسے کے فائدے کو نقصان میں بدل دیا اور حکومت کوپی ٹی آئی کے خلاف کہنے اور کرنے کو بہت کچھ مواد دے دیا لیکن حکومت نے سوچا کہ وہ کیوں پیچھے رہے۔ چنانچہ ممبران اسمبلی کو گرفتار کرنے کا ایک احمقانہ اقدام اٹھایا گیا۔ توجیہ یہ پیش کی گئی کہ پی ٹی آئی نے اپنا جلسہ مقررہ وقت میں ختم نہیں کیا حالانکہ آج تک میں نے کوئی ایسا جلسہ نہیں دیکھا جو مقررہ وقت میں ختم ہوا ہو۔
حکومت کو بھی چاہئے تھا کہ وہ اس کو نظر انداز کرتی لیکن اگلے روز پی ٹی آئی کے بعض ممبران پارلیمنٹ کو گرفتار کر لیا گیا۔ یہ بات بھی سمجھ سے بالاتر ہے کہ بعض پارلیمنٹرین کو گرفتار کیا جا رہا تھا لیکن بعض کو ٹچ نہیں کیا جا رہا تھا۔ پتہ نہیں یہ تقسیم کس بنیاد پر کی گئی تھی؟ نہلے پہ دہلہ یہ کہ کچھ پارلیمنٹیرین کو گرفتار کرنے کیلئے پولیس پارلیمنٹ کے اندر گھسی۔ بجلی بند کرائی اور پارلیمنٹیرین کو وہاں سے گرفتار کیا۔ گویا پارلیمنٹ کی رہی سہی عزت بھی خاک میں ملا دی۔
اس اقدام سے پہلے علی امین گنڈاپور کٹہرے میں کھڑے تھے لیکن اس احمقانہ اقدام سے حکومت کٹہرے میں کھڑی ہو گئی۔ خود حکومت کے بعض اتحادیوں نے بھی اس اقدام کو غلط قرار دیا۔ چنانچہ اسپیکر نے سارجنٹ ایٹ آرمز اور چند اہلکاروں کو معطل کیا اور تحقیقات کے لئے کمیٹی بنانے کا اعلان کیا۔ جس سے ماحول کسی قدر ٹھنڈا ہو گیا۔
اگلے روز بلاول بھٹو زرداری نے میثاق پارلیمنٹ پر اتفاق کے لئے کمیٹی بنانے کی تجویز پیش کی جسے حکومت اور اپوزیشن دونوں نے قبول کیا۔ بظاہر یہ ایک چھوٹا اور معمولی اقدام ہے اور کمیٹیاں بننا ہمارے ہاں روز کا کام ہے لیکن اگر اس کمیٹی نے خوش اسلوبی سے اپنا کام کیا تو اس مفاہمت کے سلسلے کو آگے بھی بڑھایا جا سکتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پی ٹی آئی کے ممبران کے پاس ایک خاص حد سے زیادہ اختیار نہیں اور ویٹو پاور عمران خان کے پاس ہے جبکہ مسلم لیگ (ن) کا بھی ویٹو پاور نواز شریف کے پاس ہے لیکن اگر یہ لوگ میثاق پارلیمنٹ کرانے میں کامیاب ہوگئے تو وہ دونوں بھی اسے ماننے پر مجبور ہوں گے۔
یہ کام ہوگیا تو اس سلسلے کو پارلیمنٹ سے باہر لے جاکر گرینڈ ڈائیلاگ کی طرف لایا جا سکتا ہے جس میں پارلیمنٹ سے باہر کے لوگ بھی شامل ہوں۔ عمران خان اور نواز شریف کو یہ بات مدنظر رکھنی چاہئے کہ معاملات روز بروز ہاتھ سے نکل رہے ہیں اور اگر یہ تلخیاں جاری رہیں تو سسٹم کا بوریا بستر گول کیا جا سکتا ہے۔ ایسا ہوا تو سب ہاتھ ملتے رہ جائیں گے۔
آخر میں ایک واقعہ:
جنرل پرویز مشرف کے دور سے پہلے جب کوئی بات ہوتی تو مسلم لیگی وزرا کہتے کہ مارشل لاؤں کا دور ہمیشہ کے لئے گزر چکا ہے حالانکہ اس وقت ہمارا چین کی بجائے امریکہ پر انحصار زیادہ تھا۔ اس کے باوجود جنرل مشرف نے مارشل لا لگا دیا۔ ایک دن میں نے جنرل مشرف کے ایک قریبی ساتھی سے پوچھا کہ جب آپ لوگ مارشل لا لگا رہے تھے تو آپ لوگوں نے امریکہ، عدلیہ اور معیشت وغیرہ کو نہیں دیکھا۔ انہوں نے جواب دیا کہ معمول کے حالات میں ہم ان سب چیزوں کو مدنظر رکھتے ہیں۔ ہم بھی ہر روز یہ حساب کتاب کرتے ہیں لیکن جب معاملہ سر پہ آجائے تو پھر ہم اورکچھ نہیں سوچتے۔ انہوں نے کہا کہ جب فیصلہ ہوا کہ اب جنرل مشرف کو بچانا ہے تو ہم نے نہ یہ سوچا کہ امریکہ کیا کرے گا، یورپ کیا کرے گا، عدلیہ کے ساتھ کیا ہو گا۔ وغیرہ وغیرہ۔ تین چار روز تک ہم ایک چیز سوچ رہے تھے کہ ملک کنٹرول کریں اور مخالفین کو قابو کر لیں۔ جب یہ سارے کام ہم نے کرلئے تو پھر یہ سوچنے بیٹھ گئے کہ اب امریکہ کا کیا کریں گے اور عدلیہ کے ساتھ کیسے آگے بڑھیں گے وغیرہ وغیرہ۔ غرض ان کا کہنا تھا کہ جب فوج کی اپنی جان پر آجاتی ہے تو پھر وہ کسی اگر مگر کو ذہن میں نہیں لاتی۔
بشکریہ روزنامہ جنگ