اسلام آباد(صباح نیوز)چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ جو پولیس والے لوگوں کو غیرقانونی طور پر حراست میں رکھتے ہیں ایسے لوگوں کوپولیس میں نہیں رہنا چاہیئے، ایسے لوگ پولیس، حکومت اور ملک کوبدنام کرتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں دودھ کے دھلے ہوئے لوگ ہی پولیس میں آئیں۔ کیا پولیس والے کسی کو گرفتارکرکے اپنے گھر رکھ سکتے ہیں، یہ قانون کی عدالت ہے، ہرکوئی آکر جذباتی ہوجاتا ہے، جیسے اس کااپنا کیس ہے یا اس کے بھائی کاکیس ہے، اگر بھائی کاکیس ہے تووکالت نہ کریں۔گرفتاری کرنا ضروری تھا اورچھٹی پر جانا اس سے بھی زیادہ ضروری تھا ، ہمارے پاس حبس بے جاکے کیس بھرے پڑے ہیں، قانون پر عمل کریں، وردی پہن لی توکیاآپ قانون کے تابع نہیں۔ پنشن کے پیسے سرکارکے نہیں بلکہ عوام کے ہوتے ہیں، ایسے پولیس والے کے حوالہ سے سروے کروالیں دیکھیں لوگ کیا کہتے ہیں ،کوئی بھی نہیں کہے گااس کو نوکری پرہونا چاہیئے۔ میری ذاتی رائے ہے کہ اس کونوکری سے برخاست کریں ، آئی جی پولیس نے چونکہ سخاوت دکھائی ہے اس لئے ہم اس فیصلے کوتبدیل نہیں کرسکتے۔ ویسے بھی بیروزگاری بڑا مسئلہ ہے ایسے لوگوں کونکالیں گے تواچھے لوگ آئیں گے۔ پولیس امن وامان کوبرقراررکھنے کے حوالہ سے ایک ڈسپلنڈ فورس ہے ، کسی کوغیر قانونی حراست میں نہیں رکھ سکتی۔ وکلاء کی بدتمیزی ماتحت عدالتوں میں چلتی ہوگی، یہاں نہیں چلے گی بلکہ کہیں بھی نہیں چلے گی۔
جبکہ جسٹس نعیم اخترافغان نے ریمارکس دیئے ہیں کہ 24گھنٹے کے بعد گرفتار شخص کو مجسٹریٹ کے سامنے پیش کرنا ہوتا ہے ۔جبکہ عدالت نے پنجاب سروس ٹربیونل کی جانب سے مدعا علیہ سب انسپیکٹرسید غلام مرتضیٰ شاہ کو ملازمت پر بحال کرنے کافیصلہ کالعدم قراردیتے ہوئے آئی جی پنجاب پولیس کاملازمت سے کمپلسری ریٹائرمنٹ کا فیصلہ بحال کردیا۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس عرفان سعادت خان، جسٹس نعیم اخترافغان اورجسٹس شاہد بلال حسن پر مشتمل 4رکنی لارجر بینچ نے انسپیکٹر جنرل آف پولیس پنجاب کی جانب سے پولیس سب انسپیکٹر کوبحال کرنے کے پنجاب سروس ٹربیونل کے حکم کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کی۔ پنجاب حکومت کی جانب سے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب بیرسٹر محمد ممتاز علی پیش ہوئے جبکہ مدعا علیہ کے وکیل پیش ہوئے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ رینک کم کردیا۔
بیرسٹرمحمد ممتاز علی کا کہنا تھا کہ مدعا علیہ نے ریاست علی نامی شخص کو گرفتارکیااور10روز تک حبس بے جامیں رکھا اور تشددبھی کیا۔ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کاکہنا تھا کہ انکوائری کمیٹی اورایپلٹ ٹریونل نے ملازمت سے نکلانے کی سفارش کی تھی تاہم نوکری زیادہ ہونے کی وجہ سے آئی جی پنجاب پولیس نے ہمدردی کے طور پر مدعا علیہ کوملازمت سے کمپلسری ریٹائرڈ کرنے کی سزادی جسے مدعا علیہ نے پنجاب سروس ٹربیونل میں چیلنج کیا جبکہ سروس ٹربیونل نے ایک رینک کم کے نوکری پربحال کرنے کاحکم دیا۔ جسٹس نعیم اخترافغان کاکہنا تھا کہ محکمے نے نکالا تھا۔ سرکاری وکیل کاکہنا تھا کہ مدعا علیہ 1988میں بھرتی ہوا اوراس نے 2027میں ریٹائرڈ ہونا تھا۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ کیوں بندے کواٹھایا۔
سرکاری وکیل کاکہنا تھا کہ مدعا علیہ نے ملزم ریاست علی کو چوری کے الزام میں گرفتارکیا اور1400روپے کی برآمدگی کی، 10روز غیر قانونی حراست میں رکھا اورجبکہ ملزم کے ریاست نے حبس بے جامیں رکھنے کے خلاف عدالت سے رجوع کیا توپھر گرفتاری ڈال دی۔جسٹس عرفان سعادت خان کاکہناتھاکہ درخواست گزار نے بعد میں پولیس سب انسپیکٹر سید غلام مرتضیٰ شاہ کے خلاف درخواست واپس لے لی تھی، شریک پولیس اہلکار ریاض کو بری کردیا گیا تھا۔ سرکاری وکیل کاکہنا تھا کہ ایک سب انسپیکٹر اوردوسراہیڈکانسٹیبل تھا، ریاست علی کو 12دسمبر2013کو گرفتارکیا گیا جس کے خلاف اس کے والد نے سیشن جج لاہور کو 14دسمبر2012کو درخواست دی جس کے بعد ریاست علی کے خلاف 17دسمبر2012کو مقدمہ درج کرلیااور والد کی درخواست کے بعد گرفتاری ڈال دی۔
چیف جسٹس کامدعاعلیہ کے وکیل کے ساتھ مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ پاکستان کاقانون پڑھا ہے، گرفتاری، گرفتاری کون ساقانون ہے پڑھیں، کیا گرفتارکرکے اپنے گھر رکھ سکتے ہیں، یہ قانون کی عدالت ہے، ہرکوئی آکر جذباتی ہوجاتا ہے، جیسے اس کااپنا کیس ہے یا اس کے بھائی کاکیس ہے، اگر بھائی کاکیس ہے تووکالت نہ کریں۔چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ہروکیل نے ساتھ کتاب لانا چھوڑ دیا ہے، ہماری کتابیں ہی استعمال کرتے ہیں۔ وکیل کاکہنا تھاکہ گرفتاری سی آرپی سی کے سیکشن 54کے تحت ہوتی ہے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ گرفتاری کرنا ضروری تھا اورچھٹی پر جانا اس سے بھی زیادہ ضروری تھا، ہمارے پاس حبس بے جاکے کیس بھرے پڑے ہیں، قانون پر عمل کریں، وردی پہن لی توکیاآپ قانون کے تابع نہیں۔
چیف جسٹس کامدعا علیہ کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہناتھاکہ ابھی تک توآپ کونوکری سے برخاست کردینا چاہیئے تھا، اٹھا کر لے جائوں یہ غیر قانونی حراست ہے اوراگر جاکرریکارڈ کردیں تویہ گرفتاری ہے۔ جسٹس نعیم اخترافغان کاکہنا تھا کہ 12دن کی چھٹی کاثبوت دکھایں، ایمرجنسی کی چھٹی تو2گھنٹے کی ہوتی ہے، چھٹی دکھادیں، 24گھنٹے کے بعد گرفتار شخص کو مجسٹریٹ کے سامنے پیش کرنا ہوتا ہے، مجسٹریٹ کے سامنے پیش کرنے کی رپورٹ دکھائیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ کس نے چھٹی کی منظوری دی، آپ کی چھٹی کس نے منظورکی۔ چیف جسٹس کہنا تھا کہ ہم درخواست خارج کردیتے ہیں، درخواست میں یہ بھی نہیں لکھا کہ ایمرجنسی کیا ہے، والد یا والدہ کون بیمار ہے یاکچھ اورہوا ہے۔
چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ایسے لوگوں کوپولیس میں نہیں رہنا چاہیئے، ایسے لوگ پولیس، حکومت اور ملک کوبدنام کرتے ہیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ چھٹی کی درخواست دینے اور مانگنے میں فرق ہے، یاتوکہیں کہ مجھ پرقانون لاگو نہیں ہوتا جب میری مرضی ڈیوٹی پر آئوں اورجب چاہوں چھٹی کروں۔ مدعاعلیہ کے وکیل کاکہنا تھا کہ دستاویزات لگانے کے لئے مجھے تاریخ دے دیں۔ اس پر چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ یہاں آئندہ تاریخ نہیں ہوتی ایک ہی تاریخ ہوتی ہے، 2017سے کیس سپریم کورٹ میں زیر التواہے۔
چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ملزم سے 1400روپے برآمد کیئے جیسے 14لاکھ برآمد کئے ہیں یقینا اس وقت وکیل صاحب کی جیب میں اس سے زیادہ پیسے ہوں گے اگراتنے پیسے جیب میں رکھنا جر م ہے توپھر سارے پاکستان کوگرفتار کرلیں۔ وکیل کاکہنا تھا کہ میں یہ نہیں کہتا کہ میرا مئوکل دودھ سے دھلا ہے۔ اس پر چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ہم چاہتے ہیں دودھ کے دھلے ہوئے لوگ ہی پولیس میں آئیں۔ چیف جسٹس کاایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب سے مکالمہ کرتے ہوئے کہناتھا کہ آپ کااپنا کمپلسری ریٹائر کرنے کافیصلہ آپ کو نقصان پہنچارہا ہے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھاکہ پنشن کے پیسے سرکارکے نہیں بلکہ عوام کے ہوتے ہیں، ایسے پولیس والے کے حوالہ سے سروے کروالیں دیکھیں لوگ کیا کہتے ہیں ،کوئی بھی نہیں کہے گااس کو نوکری پرہونا چاہیئے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ شکایت کندہ سرکار کو کسی پولیس اہلکار کے خلاف فوجداری جرم واپس لینے پر مجبور نہیں کرسکتا۔
چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ میری ذاتی رائے ہے کہ اس کونوکری سے برخاست کریں ، آئی جی پولیس نے چونکہ سخاوت دکھائی ہے اس لئے ہم اس فیصلے کوتبدیل نہیں کرسکتے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ویسے بھی بیروزگاری بڑا مسئلہ ہے ایسے لوگوں کونکالیں گے تواچھے لوگ آئیں گے۔ چیف جسٹس کا حکم لکھواتے ہوئے کہنا تھاکہ انکوائری کمیٹی نے نوکری سے برخاست کرنے کی سفارش کی جیسے ایپلٹ ٹربیونل نے بھی برقراررکھا تاہم آئی پولیس نے نظرثانی کادائرہ اختیار استعمال کرتے ہوئے مدعا علیہ کو کمپلسری ریٹائرڈکرنے کافیصلہ کیا جس کے خلاف مدعا علیہ نے پنجاب سروس ٹربیونل میں درخواست دائر کی۔ پنجاب سروس ٹربیونل نے ایک گریڈکم کرتے ہوئے سب انسپیکٹر سے اسسٹنٹ سب انسپیکٹر کردیا اورملازمت پر بحال کردیا۔ دونوں فریقین اس حکم کے خلاف سپریم کورٹ آئے۔ اس دوران وکیل نے کچھ کہنا چاہاتوچیف جسٹس نے شدی برہمی کااظہارکرتے ہوئے کہا کہ ہم آپ کونوٹس دیں گے ہم آرڈر لکھوارہے اورآپ بیچ میں بول رہے ہیں، وکلاء کی بدتمیزی ماتحت عدالتوں میں چلتی ہوگی، یہاں نہیں چلے گی بلکہ کہیں بھی نہیں چلے گی، آپ وکیل ہیں جذباتی کیوں ہورہے ہیں۔
عدالت نے مدعا علیہ کی سب انسپیکٹر سے اسسٹنٹ سب انسپیکٹر کرنے کے فیصلے خلاف دائر زائد المعیاد ہونے کی بنیاد پر خارج کردی۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ پنجاب سروس ٹربیونل آئی جی پنجاب پولیس کے فیصلے کے برخلاف سزاکم نہیں کرسکتا تھا، محکمے نے قانون کے مطابق انکوائری کی اور جواب دینے کاپوراموقع فراہم کیا گیا، ملزم اور پولیس اہلکار کے درمیان کمپرومائز ہونے کاکوئی فرق نہیں پڑے گا۔چیف جسٹس کاحکم لکھواتے ہوئے کہنا تھا کہ غیر قانونی حراست سنجیدہ معاملہ ہے آئی جی نے گریس دکھائی، ٹربیونل اس فیصلے میں مداخلت نہیں کرسکتا تھا۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ پولیس امن وامان کوبرقراررکھنے کے حوالہ سے ایک ڈسپلنڈ فورس ہے ، کسی کوغیر قانونی حراست میں نہیں رکھ سکتی۔ عدالت نے پنجاب سروس ٹربیونل کافیصلہ کالعدم قراردیتے ہوئے آئی جی پنجاب پولیس کاملازمت سے کمپلسری ریٹائرمنٹ کا فیصلہ بحال کردیا۔