اسلام آباد کے جلسہ کے بعد سیاسی کشیدگی میں یک دم بہت اضافہ ہو گیا ہے۔ یہ درست ہے کہ تحریک انصاف اور بالخصوص گنڈا پور کی تقریر نا قابل قبول تھی۔ لیکن وہ تو ہمیشہ ایسی ہی زبان میں بات کرتے ہیں۔ ان کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ بد زبانی کرتے ہیں، گالم گلوچ کرتے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ گلگت اور آزاد کشمیر کے انتخابات میں بھی وہ مریم نواز اور اپنے دیگر سیاسی مخالفین کے خلاف اسی قسم کی بدکلامی کرتے تھے۔ لیکن تب وہ ایسی زبان استعمال کرتے تھے تو اسٹبشلمنٹ ان کے ساتھ ہوتی تھی۔ آج نہیں ہے۔پہلے بھی اور آج بھی لیکن فرق یہ ہے کہ وہ اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف تو نازیبا زبان استعمال کرتے آ رہے ہیں۔
تاہم اس جلسہ میں ان کی اسٹبلشمنٹ کے بارے میں زبان نے زیادہ تنازعہ کھڑا کر دیا ہے۔ ان کے سیاسی مخالفین تو ماضی میں ان کی بد زبانی کو نظر انداز کرتے رہے ہیں۔ لیکن اسٹبلشمنٹ نے نظر انداز نہیں کیا۔ جس کی وجہ سے مجھے لگ رہا ہے کہ سیاسی مخالفین نے بھی نظر انداز کرنے کی پالیسی ختم کر دی اور جواب دینا شروع کر دیا ہے۔ شاید علی امین گنڈا پور جس اسٹیبلشمنٹ کی طاقت پر سیاسی مخالفین سے بد تمیزی اور بدزبانی کیا کرتے تھے وہ طاقت ختم ہونے سے اب گنڈا پور کے لیے سیاسی اور دیگر مشکلات میں اضافہ نظر آرہا ہے۔ گنڈا پور کچھ گھنٹے غائب رہے۔ گو کہ اب وہ کہہ رہے ہیں کہ وہ اپنی مرضی سے اسٹیبلشمنٹ کے نمائندوں کو ملنے گئے تھے۔ لیکن وہ کسی کے رابطے میں نہیں تھے۔
اس لیے ان کے ساتھیوں نے ان کے غائب ہونے کے حوالے سے شور مچا دیا۔ تاہم واپس آنے کے بعد انھوں نے ایک معنی خیز خاموشی قائم رکھی ہوئی ہے۔ وہ کوئی بات نہیں کر رہے۔ ان کی بات بالواسطہ سامنے آئی ہے۔لیکن انھوں نے خود کوئی بات نہیں کی ہے۔ ان کی خاموشی بھی بہت سے سوالات جنم دے رہی ہے۔ بالواسطہ بات میں یہ تاثر دینے کی کوشش کی جا رہی ہے انھوں نے جلسہ میں جو بات کی ہے وہ اس پر قائم ہیں۔ کچھ لوگ یہ دعوی کر رہے ہیں کہ ان کی گنڈا پور سے بات ہوئی ہے وہ جلسہ میں کی گئی تمام گفتگو پر مکمل قائم ہیں۔ لیکن واپسی کے بعد گنڈا پور خود یہ بات نہیں کر رہے ہیں۔ وہ خاموش ہیں۔ اس خاموشی نے بہرحال ان کی موجودہ سیاسی پوزیشن کے حوالے سے ابہام پیدا کیا ہے۔
کیونکہ یہ دعوی بھی سامنے آیا ہے کہ انھوں نے اپنی گفتگو پر معافی مانگ لی ہے۔ وہ معافی مانگ کر ہی واپس آئے ہیں۔ اسی لیے خاموش ہیں۔ جلسہ کے بعد تحریک انصاف کے ارکان اسمبلی کے گرفتاریاں بھی دیکھنے میں آئی ہیں۔ چند ارکان کی پارلیمان کے اندر سے گرفتاری نے بہت تنازعہ پیدا کیا ہے۔ حکومت پارلیمان کے اندر سے گرفتاریوں کا دفاع نہیں کر سکی ہے۔ اسی لیے اسپیکر قومی اسمبلی نے پارلیمان کے اندر سے گرفتار ارکان کو رہا کروایا ہے۔ لیکن جہاں تک پارلیمان کے تقدس کی بات ہے تو تحریک انصاف کا اپنا ماضی بھی اس حوالے سے کوئی شاندار نہیں ہے۔ آج تحریک انصاف کے لیے پارلیمان کا تقدس بہت اہم نظر آرہا ہے۔ آج پارلیمان تحریک انصاف کے لیے مقدس نظر آرہی ہے۔ جلسہ کا یہ اعلان بھی کافی اہمیت اختیارکر گیا ہے۔ کہ اگر بانی تحریک انصاف کوپندرہ دن میں رہا نہیں کیا گیا تو تحریک انصاف انھیں خود رہا کروا لے گی۔
اب حکمران اتحاد انھیں چیلنج کر رہا ہے کہ آئیں اور رہا کروا کر دکھائیں۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ چیلنج ان کے لیے سیاسی مشکلات بڑھائے گا ۔ اگر پندرہ دن بعد بانی تحریک انصاف رہا نہیں ہوتے اور تحریک انصاف کچھ نہیں کرتی تو یقینا ان کا مذاق اڑایا جائے گا۔ یہ اعلان ہی مضحکہ خیز ہے۔ سیاسی جماعت کو ایسا اعلان نہیں کرنا چاہیے۔ کیونکہ یہ ممکن نہیں۔ بلکہ سیاسی جماعت اور ان کے لیڈروں کی تخریب پسندانہ ذہن کی عکاس ہے۔ سیاسی جماعت کسی بھی لمحہ پر قانون توڑنے کی بات اور اس کا اعلان نہیں کرتی۔ تحریک انصاف کے لیے ماضی میں بھی ان کی عسکریت تخریب پسندی نے ایسے مسائل پیدا کیے ہیں جن سے باہر نکلنا آج بھی مشکل نظر آرہا ہے۔ اس لیے میں نہیں سمجھتا کہ تحریک انصاف سیاسی طور پر ایسی صورتحال میں نہیں ہے کہ دوبارہ کسی مشکل کو گلے لگا سکے۔ یہ درست ہے کہ تحریک انصاف کا کلچر ایسا ہے کہ وہاں بد زبانی بدتمیزی اور دروغ گوئی کے نمبر بہت زیادہ ہے۔
پارٹی میں یہ زبان اور لہجہ پسند کیاجاتا ہے۔ بانی تحریک انصاف بھی ایسا لہجہ اور گفتگو پسند کرتے ہیں۔ اسی لیے جہاں گنڈا پورکی تقریر نے ان کے لیے مسائل پید اکیے ہیں وہاں بانی تحریک انصاف اس کی توثیق کر رہے ہیں۔ وہ گنڈا پور کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں۔ بلکہ انھوں نے ان سب کو بھی پارٹی چھوڑنے کا کہا ہے جنھیں گنڈا پور کی تقریر پسند نہیں آئی ہے۔ اس طرح ایک طرف تنقید ہے تو دوسری طرف حوصلہ افزائی بھی ہے۔سیاست کے کئی پہلو ہوتے ہیں۔ گنڈا پور کی ایک تقریر نے انھیں تحریک انصاف کا لیڈر بنا دیا ہے۔ وہ عمران خان کے بعد سب سے مقبول بن گئے ہیں۔اس سے پہلے جب جلسہ ملتوی کیا گیا تھا تو گنڈا پور پر بہت تنقید ہوئی تھی۔ انھیں اسٹیبلشمنٹ کا ایجنٹ کہا گیا۔ تحریک انصاف کے سوشل میڈیا پر انھیں ڈبل ایجنٹ کہا گیا۔ لیکن اس تقریر نے تحریک انصاف کے سب ناقدین کو بھی ان کے حق میں کر دیا ہے۔
وہ تحریک انصاف میں اس وقت بانی تحریک انصاف کے بعد سب سے مقبول لیڈر بن گئے ہیں۔ یہ کوشش بہت سے لیڈرز نے کی ہے لیکن ناکام ہوئے ہیں۔ اس لیے گنڈا پور اس ایک تقریر سے اپنی تحریک انصاف میں پوزیشن کلیئر کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ اب انھیں اسٹیبلشمنٹ کا ایجنٹ نہیں سمجھا جا رہا ہے۔ سیاسی جلسوں میں سیاسی مخالفین کے خلاف نازیبا گفتگو کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ماضی میں اس سے بھی گندی بات ہوتی رہی ہے۔ لیکن یہ دلیل کہ ماضی میں بھی ایسی زبان استعمال ہوتی رہی ہے کوئی اچھی دلیل نہیں۔ ہمیں ماضی سے سبق بھی سیکھنا ہے۔ گنڈا پور کو یہ بھی دیکھنا ہے کہ ماضی میں نازیبا گفتگو کرنے والوں کا انجام کوئی اچھا نہیں ہوا۔ سیاست میں آپ کو ایک تو دوسروں سے ملنا بھی ہوتا ہے۔ اس لیے ایسی گفتگو کرنی چاہیے کہ مل کر بھی بیٹھا جا سکے۔
جہاں تک بانی تحریک انصاف کے اس اعلان کا تعلق ہے کہ اب اسٹیبلشمنٹ سے کوئی بات نہیں ہوگی۔ اسٹیبلشمنٹ پہلے بھی بانی تحریک انصاف سے بات نہیں کر رہی۔ بات تحریک انصاف کے مختلف لیڈروں سے انفرادی طور پر ہوتی ہے۔ جو جاری ہے۔ کوئی بھی تحریک انصاف سے انفرادی طور پر بات کرنے سے انکار نہیں کرتا۔ گنڈا پور بھی نہیں۔اس لیے اس اعلان کی کوئی اہمیت نہیں۔ یہ بس ایک اعلان ہی ہے۔
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس