جلسے کا جواب جلسہ کیوں نہیں؟ : تحریر محمود شام


تمنّا تو یہ ہوتی ہے کہ لہلہاتی فصلیں دکھائی دیں، کارخانے مصنوعات تیار کرتے ملیں۔ زیر زمین ٹرینیں سینکڑوں ہم وطنوں کو گھر سے کارخانے لے جاتی نظر آئیں۔ پیلی اسکول بسیں بچے بچیوں کو اسکول لے جارہی ہوں۔ بڑی بڑی ایئر کنڈیشنڈ بسیں سڑکوں کے ایک گوشے میں آرام سے مسافروں کو چڑھاتی اترتیں دکھیں۔ بازار صبح سویرے گاہکوں کا خوشدلی سے استقبال کررہے ہوں۔ مگر دیکھنے کو ملتے ہیں۔ پولیس کے جوان قومی اسمبلی کے ارکان کو گرفتاری کے لیے گھیرتے، پارلیمنٹ ہاؤس جو ملک میں روشنی کے سر چشمے ہوتے ہیں، وہاں بتیاں بجھائی جارہی ہوتی ہیں، جلسوں میں شرکت کیلئے جاتے ہم وطنوں پر آنسو گیس کے شیل برسائے جاتے ہیں۔ اعلیٰ مناصب پر اونچی مسندوں پر فائز حاکم ایسے مناظر کی قیادت کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ معزز ارکانِ اسمبلی بلوں میں کیوں گھس رہے ہیں۔ چھپ کیوں رہے ہیں،گرفتاری کیوں نہیں دیتے۔

۔۔۔۔۔

1977 کے کچھ مناظر یاد آتے ہیں۔ شہید ذوالفقار علی بھٹو جسٹس صمدانی کی طرف سے ضمانت دیے جانے کے بعد 70کلفٹن میں نوڈیرو جانے سے پہلے پریس کانفرنس کرنے والے ہیں۔ ان کے رفقا انقلاب فرانس کا حوالہ دے رہے ہیں کہ پاکستان اب انقلاب فرانس کے کس مرحلے میں ہے۔؟

اب قریباً نصف صدی بعد ڈرائنگ روموں میں بات ہورہی ہے۔ بنگلہ دیش کے حالیہ انقلاب کے حوالے سے جس کے بارے میں کچھ تعین نہیں ہے کہ یہ انقلاب بھی ہے یا نہیں۔ یا سفر میں وفاداریاں تبدیل ہوگئی ہیں۔ حسینہ واجد شیخ کے پہلے برسوں میں تو عوامی لیگ، بیورو کریسی، پولیس، فوج سب ایک ساتھ تھے۔ جب خصوصی جنگی عدالتیں بناکر پاکستان کے حامی بزرگوں کو پھانسیاں تک دی گئیں۔ یہ سب ایک صفحے پر تھے۔ سفاکی قانون وقت بن گئی تھی۔ معزز جج صاحبان، چھوٹی بڑی عدالتوں کے، سخت سے سخت سزائیں دے رہے تھے۔ عالمی ادارے ان دنوں بنگلہ دیش کے اقتصادی اشاریے بہت اچھے بتارہے تھے۔ ہم جیسے سطحی علم اور ریٹنگ ایجنسیوں کے اعداد و شُمار پر یقین رکھنے والے بھی فخریہ کہتے تھے۔ دیکھو بنگالی ہم سے الگ ہو کر کتنی ترقی کر رہے ہیں، کتنے جمہوری ہوگئے ہیں۔ تین سال کی ٹیکنو کریٹ حکومت میں عوامی لیگ سمیت تمام سیاسی جماعتوں نےکرپشن کے خاتمے پر سمجھوتہ کر لیا ہے۔ کسی خبر رساں ایجنسی نے، کسی تحقیقی ادارے نے اس بے چینی کا اظہار نہیں کیا تھا۔ جو وہاں اندر ہی اندر پک رہی تھی۔ پھر ڈھاکہ کی سڑکوں پر وہ مناظر دیکھنے میں آئے جنہوں نے بالآخر حسینہ واجد شیخ کو ملک چھوڑنے پر مجبور کیا۔ اس آخری لمحے کے پس منظر میں کتنے برسوں کے جوڑ توڑ تھے۔ ججوں کا کیا کردار تھا۔ بنگلہ دیش آرمی کی کیا سرگرمیاں تھیں۔ اس کا نہ کسی نے انکشاف کیا اور نہ ہی ہم لکھنے والوں نے جاننے کی کوشش کی۔ ایسی کوئی رپورٹ پڑھنے میں نہیں آئی۔ جو یہ منکشف کرتی کہ آخر کیا ہوا کہ بہت طاقت ور سخت گیر وزیر اعظم بے بس، یکہ و تنہا کیوں ہو گئی۔ اکثریتی حکمراں پارٹی کا طنطنہ کہاں چلا گیا۔

بنگلہ دیش ہی نہیں۔ جنوبی ایشیا میں یہ درمیانی فاصلہ، یہ گیپ ہی اصل محرّک ہوتا ہے۔ وقتی تبدیلی کا بھی اور اصل تبدیلی کے نہ آنے کا بھی۔ بنگلہ دیش ہمارا ہی اکثریتی صوبہ تھا۔ وہاں 1971میں کیا ہوا۔ اب کیا ہو رہا ہے۔ اس میں کچھ پردہ نشینوں کے نام بھی نظر آتے ہیں۔ وہ مرکز سے کیوں الگ ہوا۔ اکثریت میں تھا۔ تو خود مرکز کیوں نہیں بنا۔ان مناظر میں سرحدوں سے اس پار ہمسایوں کی پالیسیوں کا بھی دخل ہوتا ہے۔ صرف امریکہ کی یہ خواہش نہیں ہوتی کہ خلفشار، جھڑپیں، جنگیں اس کی حدود سے دور ہی واقع ہوں۔ اس مقصد کی تکمیل کیلئے اس کی خفیہ ایجنسیاں عالمی ادارے بھی اس کا ساتھ دیتے تھے۔ سوچنے کی بات تو یہی ہے کہ یہ عالمی ادارے، اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹر، عالمی بینک، آئی ایم ایف امریکہ کی حدود میں ہی کیوں ہیں۔ دنیا کے کسی مرکزی علاقے میں کیوں نہیں ہیں۔ سوئٹزر لینڈ میں کیوں نہیں جو ہر جنگ میں غیر جانبدار رہا ہے۔ دنیا کے اکثریتی ممالک کو بحر الکاہل اور بحر اوقیانوس عبور کرکے دور دراز امریکہ کیوں جانا پڑتا ہے۔ پھر ہزاروں میل دور امریکہ کو افریقہ، ایشیا میں جمہوریت کے قیام کی فکر کیوں رہتی ہے۔ وہ سول حکمرانی کے حصول کی خاطر افریقہ، ایشیا میں فوجی قیادتوں کی سرپرستی کیوں کرتا ہے۔ یہی خواہش پاکستان کے ازلی دشمن بھارت کی بھی ہوتی ہے۔ وہ بھی ہمسایہ ملکوں میں امریکہ کی طرح سازشوں میں مسلسل مصروف رہتا ہے۔

ہمارے ہاں یو ٹیوب پر نعرے لگ رہے ہیں۔ بنگلہ دیش کی طرح پاکستان میں بھی طلبہ انقلاب کا ہر اول دستہ بن گئے ہیں۔ وہاں کے حالیہ انقلاب میں آرمی چیف کا کردار مرکزی رہا ہے۔ 1979میں افغانستان میں جب روس کے زیر اثر حکومتیں قائم ہوئیں تو ہمارے ہاں بھی افغانستان کی مثال دے کر نوجوانوں کو حرکت میں لایا جاتا تھا۔ اب جب وہاں طالبان پُر امن انقلاب لے آئے ہیں۔ عالمی امداد کے بغیر اقتصادی بحران بھی نہیں ہے۔ تو وہاں کی مثال نہیں دی جاتی۔ وہاں نہیں دیکھا جاتا کہ وہ آئی ایم ایف سے قرض لیے بغیر کیسے آگے بڑھ رہے ہیں۔ اکثر ملکوں نے ان کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا ہے۔ پھر بھی وہ اپنے لوگوں کی جان مال کی حفاظت کر رہے ہیں۔ ڈھاکہ کی سڑکوں کی طرف دیکھنے کی بجائے ہم کابل اور قندھار کی شاہراہوں کی طرف کیوں نہیں دیکھتے۔

اتوار کو سنگ جانی میں ایک پُر امن سیاسی جلسے کے بعد سیاسی زندگی کو آگے بڑھنا چاہئے تھا۔ سیاسی مخالفت کا جواب سیاسی دلائل سے دیا جاتا۔ قومی اسمبلی میں حکمراں جماعتیں، اظہار خیال کرتیں، مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی اپنی سیاسی طاقت دکھانے کیلئے اسلام آباد کے کسی ویرانے میں اپنا عظیم الشان جلسہ کرتیں۔ پی ٹی آئی نے اپنے کارکنوں کو واہگہ سے گوادر تک متحرک کیا، ویگنوں بسوں میں بھر کر لائے۔ حکمراں پارٹیاں بھی ایسا کرتیں تو سیاسی طور پر ایک پختہ جواب ہوتا اس سے جمہوریت مستحکم ہوتی۔ ہمیں ملک کو آگے لے کر چلنا چاہئے۔ پی ٹی آئی کے رہنماؤں کی گرفتاریوں سے پی ٹی آئی کے کارکنوں کی ہی نہیں عام لوگوں کی ہمدردیاں بھی پی ٹی آئی کی قیادت کو میسر آرہی ہیں۔ حکمراں پارٹیوں کا گراف نیچے آرہا ہے۔ جلسے آج تک کبھی وقت پر ختم نہیں ہوئے، ہزاروں لوگوں کی آمدروفت کا معاملہ ہوتا ہے۔ ہماری فکر یہ ہونی چاہئے کہ پاکستان وہاں نہیں ہے جہاں اکیسویں صدی کی تیسری دہائی میں ہونا چاہئے۔ جنوبی ایشیا، مشرق وسطیٰ، یورپ سب انسانی پیش رفت کے حوالے سے اپنے معاشروں کو آگے لے جا رہے ہیں۔ انٹرنیٹ کی آغوش میں پلتی پاکستان کی نئی نسل اپنے ہاں بھی وہی پُر امن، پیشقدمی والا ماحول چاہتی ہے۔ لاٹھی گولی کی سرکار، آنسو گیس، سیاسی مقابلوں سے بیزار ہوکر وہ اپنی توانائیاں، تمنّائیں لے کر دوسرے ملکوں میں جا رہی ہے۔ اونچے ایوانوں میں بیٹھے معزز منصب داروں کو آتے زمانوں کا بھی سوچنا چاہئے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ