پہلے بینچ دیکھ کر ہی بتا دیا جاتا تھا کہ کیس کا فیصلہ کیا ہو گا،اب ایسا نہیں ہوتا،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

اسلام آباد(صباح نیوز) چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا ہے کہ جمہوریت کے ساتھ انتخابات منسلک ہیں، ملک، پارٹی اور بارایسوسی ایشنز میں انتخابات ضروری ہیں۔ کیسز کے فیصلے اسی صورت ہوں گے اگرججزعدالت میں بیٹھے ہوں گے، منصوبہ بنانے سے کیسز کم نہیں ہوں گے، ججز کوبھی کام کرنا ہے، مجوراً ہی کسی کیس میں تاریخ دی جائے جس دن کیس لگے اسی دن چلے۔پرانے صحافی کہتے ہیں چیف جسٹس نے مقدمہ نہیں لگایا ، چیف جسٹس اب مقدمہ نہیں لگاتا بلکہ کمیٹی فیصلہ کرتی ہے، تبصرے حقیقت کی بنیاد پر کریں مفروضوں کی بنیاد پر نہیں، یہ صحافیوں کی بھی ذمہ داری ہے کہ آپ سچ بولیں۔

آزادی اظہار رائے پر ہم نے کبھی قدغن نہیں لگائی ، پارلیمان قانون بناتی ہے اور ہماراکام تشریح کرنا ہے، اگر قانون کسی آئینی شق کے خلاف ہوتوہم اُس قانون کو کالعدم قراردے سکتے ہیں۔ ہم نے دیکھنا ہے کہ سپریم کورٹ میں شفافیت کم ہوئی یا زیادہ ہوئی ہے، پہلے مقدمات لگنے پر پتا چل جاتا تھا کہ کیا فیصلہ ہو گااب مجھے خود پتا نہیں ہوتاکہ میرے دائیں ، بائیں بیٹھے ساتھی ججز کیا فیصلہ کریں گے، یہ ماننا پڑے گا سپریم کورٹ میں شفافیت آئی ہے۔ صحافیوں کو ذرائع سے خبریں بتانے کی ضرورت نہیں خط لکھ کر معلومات لے لیں ، مفروضوں پر نہ جائیں یہ بتایا وہ بتایا وہ اکثر غلط ہوتا ہے۔ میں نے سپریم کورٹ کی پروسیڈینگ کو براہ راست نشر کرنے کا آغاز بھی کیا، پہلا مقدمہ جو براہ  راست دکھایا گیاوہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر2023کاتھا،اب بینچز بنانے کا اختیار صرف چیف جسٹس کا نہیں بلکہ 3رکنی کمیٹی کاہے، پہلے کاز لسٹ منظوری کے لئے چیف جسٹس کے پاس جاتی رہی، اب ایسا نہیں ہوتا اورکازلسٹ رجسٹرار سپریم کورٹ کی جانب سے بنائی جاتی ہے اور وہی بینچوں کے سامنے کیسز لگانے کافیصلہ کرتی ہیں۔ چیف جسٹس کے گھر میں موررکھے گئے تھے،

ان کی رہائی کروائی گئی، میں نے کہا چیف جسٹس کے گھر میں موروں کاکیا کام ہے، موروں کو کلر کہار کے جنگل میں چھوڑاگیا، جنگل میں مورناچاکس نے دیکھا،جنگل میںہی مورکوناچنے دیں تو بہتر ہے۔ ان خیالات کااظہار چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے نئے عدالتی سال کے آغاز پر منعقدہ فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔فل کورٹ ریفرنس کی کاروائی سپریم کورٹ کے یوٹیوب چینل پر براہ راست دکھائی گئی۔ فل کورٹ ریفرنس میں سپریم کورٹ کے ایڈہاک ججز سمیت کل 19ججز میں 16ججز نے شرکت کی جبکہ دوشریعت ایپلٹ بینچ کے ددعالم ججزڈاکٹر محمد خالد مسعود اورڈاکٹر قبلہ ایاز نے شرکت کی۔

سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج سید منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر اورایڈہاک جج مظہر عالم خان میاں خیل شرکت نہ کرسکے۔ فل کورٹ ریفرنس کی کاروائی رجسٹرار سپریم کورٹ مس جزیلہ اسلم نے چلائی۔فل کورٹ ریفرنس کے آغاز پر قاری محسن نے تلاوت کی اور اُردو ترجمہ سنایا۔ فل کورٹ ریفرنس سے اٹارنی جنرل منصورعثمان اعوان، پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین سینیٹر فاروق حمید نائیک اور سپریم کرٹ بارایسوسی ایشن کے صدر بیرسٹر محمد شہزادشوکت نے بھی فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کیا۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اڑدو میں تقریر کی جو کہ ایک گھنٹے پر محیط تھی۔

فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ اس طرح کے مواقع پر اس بات پر نظر ڈالی جاتی ہے کہ ادارے کی کارگردگی کیسی رہی، اٹارنی جنرل اور بار کے نمائندوں نے بتایا کہ کس طرح کارگردگی بہتر کی جا سکتی ہے، مجھے 9 دن بعد بطور چیف جسٹس ایک سال مکمل ہو جائے گا، میں جب چیف جسٹس بنا تو 4 سال میں پہلی مرتبہ فل کورٹ بلایا۔ انہوں نے کہا کہ میں نے پہلا کام یہ کیا کہ عوامی نوعیت کے اہم مقدمات کو براہ راست نشر کرنے کافیصلہ کیا کیونکہ عوام کی رسائی عدالتی کاروائی تک نہیں تھی، اس سے پہلے یا کسی ٹی وی چینل یا یوٹیوبر نے بات کردی، ہم نے کہ عوام خودہماری کارکردگی دیکھیں اورفیصلہ کریں،2015سیلے کر 18ستمبر2023تک کوئی فل کورٹ میٹنگ نہیں ہوئی تھی،

پہلا مقدمہ جو براہ  راست دکھایا گیا وہ پریکٹس ایند پروسیجر ایکٹ 2023کا تھا جو فل کورٹ نے ہی سنا، ہم نے بہتر سمجھا کہ فل کورٹ ہی کیس کوسنے،5کے مقابلہ میں 10ججوں نے اس قانون کوسراہا صرف ماضی سے اطلاق والی شق کو منظور نہیں کیا گیا، مقننہ نے بہترسمجھا کہ ایک چیف جسٹس کے پاس اختیارات نہ ہوں بلکہ تین سینئر ججز کی کمیٹی کے پاس اختیارات ہوں،میں بھی قانون کوسراہنے والوں میں سے تھا،اس فیصلہ کے بعد اختیار چیف جسٹس سے لے کر 3 ججز کو سونپے گئے۔چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ جو لوگ چلے گئے ان کی کارکردگی پر تبصرہ کیا جاسکتا ہے، ہم نے دیکھنا ہے کہ شفافیت کم ہوئی یا زیادہ ہوئی ہے، پہلے مقدمات لگنے پر پتا چل جاتا تھا کہ کیا فیصلہ ہو گااب مجھے خود پتا نہیں ہوتاکہ میرے دائیں ، بائیں بیٹھے ساتھی ججز کیا فیصلہ کریں گے، یہ ماننا پڑے گا سپریم کورٹ میں شفافیت آئی ہے۔

چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ پہلے کاز لسٹ منظوری کے لئے چیف جسٹس کے پاس جاتی رہی، اب ایسا نہیں ہوتا،ہم نے کاز لسٹ کی شکل بھی نہیں دیکھی، رجسٹرارصاحبہ سامنے بیٹھی ہیں وہ بتاسکتی ہیں، کاز لسٹ رجسٹرارصاحبہ بناتی ہیں اور کون سے کیسز کس بینچ کے سامنے لگنے ہیں وہی اس حوالہ سے فیصلہ کرتی ہیں، پہلے ایک دم سے کیس لگ جاتا تھا اب ہم نے ماہانہ کازلسٹ جاری کرنا شروع کی ہے، صدر سپریم کورٹ بارایسوسی ایشن نے کہا ہے کہ 2ہفتے کی بھی کازلسٹ جاری کی جائے اورایک ماہ کی کازلسٹ بھی جاری کی جائے، میں رجسٹرار کودوہفتے کی کاز لسٹ جاری کرنے کی بھی ہدایت کررہا ہوں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ مقننہ نے فیصلہ کیا ہے کہ کچھ مقدمات کی جلد سماعت کی جائے گی جن میں ضمانت اور بچوں کی سرپرستی کے مقدمات شامل ہیں، پرانے صحافی کہتے ہیں چیف جسٹس نے مقدمہ نہیں لگایا ،

چیف جسٹس اب مقدمہ نہیں لگاتا بلکہ کمیٹی فیصلہ کرتی ہے، تبصرے حقیقت کی بنیاد پر کریں مفروضوں کی بنیاد پر نہیں، یہ صحافیوں کی بھی ذمہ داری ہے کہ آپ سچ بولیں۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ڈیپوٹیشن پر آنے والے تین سال سے زیادہ کسی جگہ تعینات نہیں رہ سکتے، ایک سال کی انہیں توسیع دی جاسکتی ہے، جن کی مدت مکمل ہوچکی تھی انہیں واپس بھیجا گیا ہے۔ ڈپوٹیشن پر آنے والوں کی وجہ سے سپریم کورٹ ملازمین کی ترقی رک جاتی تھی۔ ڈیپوٹیشن پر آنے والوں کی واپسی سے سپریم کورٹ کے 146 ملازمین کی ترقی ہوئی جبکہ میرٹ پر سپریم کورٹ میں 8 نئی تعیناتیاں کی گئیں۔

چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ عوام چاہتی ہے ان کے مقدمات جلد نمٹائے جائیں اورہمارے پیسے کاضیاع نہ ہو، یہ فضول خرچی بھی روکی گئی، یہ بات کہتے ہوئے شرمندگی بھی ہوتی ہے لیکن بتایا ضروری ہے کہ چیف جسٹس کے لیے 3000 سی سی کی مرسڈیذ بینز کی ضرورت نہیں میرے حساب سے، لاہوررجسٹری میں موجود بلٹ پروف لینڈ کروزر کو بھی لوٹا دیا گیا اور حکومت سے درخواست کی کہ مناسب ہوگا کہ انہیں بیچ کر عوام کے لئے بسیں خریدی جائیں، ہمیں ٹویوٹا اور سوک چلانے میں کوئی مسئلہ نہیں، یہ بھی کروڑوں کی گاڑیاں ہوتی ہے تو یہ چھوٹی باتیں ہیں اور ہم یہی کرسکتے ہیں۔

چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ یہ پیسے عوام کی امانت ہیں اورہم نے دیکھنا ہے کہ ہم یہ پیسے بچاسکتے ہیں کہ نہیں، اٹارنی جنرل نے ذکر کیا مختلف عدالتوں کا، اس میں سول کورٹ، ڈسٹرکٹ کورٹ، ہائی کورٹس ہیں پھر ایک اور عدالتیں ہوتی ہیں وفاق کی جن میں کسٹم اپیلیٹ ٹریبونل، نیب کورٹ، سیلز ٹیکس اپیلٹ ٹریبونل، احتساب کورٹ وغیرہ شامل ہیں، صرف کراچی میں 36 ایسی وفاقی عدالتیں ہیں، نہ کوئی ان کی عمارتیں صحیح ہیں نہ ان کا ریکارڈ محفوظ ہیں، ایک دو ان میں سے سرکاری بلڈنگز میں ہیں لیکن باقی پرائیویٹ بلڈنگز میں موجود ہیں تو عوام پر ان کے کرائے وغیرہ دینے کا بھی بوجھ ہے، سپریم کورٹ کراچی رجسٹری کی عمارت بنانے کے لئے 7ایکڑ زمین دی گئی اور 6ارب روپے کی رقم مختص کی گئی، ہم نے کہا کہ سپریم کورٹ کی رجسٹری پہلے ہی موجود ہے اور اس جگہ پر تمام وفاقی عدالتوں کے لئے ایک ہی عمارت بنانے کاکہا، یہ وفاق کی ذمہ داری ہے کہ جلد ازجلد کام کریں اور ہم جہاں تھے وہیں ٹھیک ہیں۔

چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ کچھ ملازمیں خوش ہیں اور کچھ ناراض ہیں کہ پہلے 3تنخواہیں بطور بونس دی جاتی تھیں پھر ہم نے ایک دی اور رواں برس ہم نے تمام ملازمین کو25ہزار روپے دیئے اور جو بچت ہوئی اس سے 131کمپیوٹر، بسیں، ایک الیکٹر ک بس اوردیگر سامان خریدا۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ آئین میں پارلیمان نے 19-Aکی شق ڈالی، مختاراحمد علی نامی درخواست گزارنے درخواست دی کہ سپریم کورٹ کے ملازمین کی تعداد کے حوالہ سے معلومات دی جائیں تاہم اسلام آباد ہائی کورٹ نے قراردیا کہ سپریم کورٹ کو استثنیٰ حاصل ہے اور معلومات فراہم کرنے کی ضرورت نہیں، ہمارے پاس جب یہ کیس آیا توہم نے درخواست منظور کی اور کہا کہ ہمیں استثنیٰ حاصل نہیں، ہم نے درخواست گزارکو خرچ واپس کرنے کابھی حکم دیا، تنقید کرنے والے بتادیں دنیا میں اس قسم کاکوئی فیصلہ ہوا ہے۔ ہم یہ سمجھے ہیں کہ لوگوں کے بنیادی حقوق اہم نہیں اہم لوگوں کے بنیادی حقوق اہم ہیں۔

چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ صحافیوں کو ذرائع سے خبریں بتانے کی ضرورت نہیں خط لکھ کر معلومات لے لیں ، مفروضوں پر نہ جائیں یہ بتایا وہ بتایا وہ اکثر غلط ہوتا ہے۔چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ نگران حکومت تھی اورانتخابات نہیں ہورہے تھے تین دن سماعت ہوئی اور12روز میں ہم نے فیصلہ کردیا اوراپنے اختیارات سے تجاوز نہیں کیا، صدر مملکت اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کہہ رہے تھے میرااختیارا ہے میرااختیار ہے تاہم دونوں انتخابات کی تاریخ نہیں دے رہے تھے، ہم نے کہا ملیں اورتاریخ لے کرآئیں اور8فروری کی تاریخ مقررہوئی، رکاوٹ ڈالتے والے رکاوٹ ڈالتے ہیں، لاہور ہائی کورٹ نے اسسٹنٹ ریٹرننگ افسران کو کام کرنے سے روک دیا اورکہا کہ عدلیہ سے ریٹرننگ افسران لیے جائیں جبکہ عدلیہ پہلے ہی ریٹرننگ افسران دینے سے انکار کرچکی تھی کہ ہم نے فیصلے کوہٹایا اگر وہ فیصلہ رہتا توانتخابات نہیں ہوسکتے تھے، جمہوریت کے ساتھ انتخابات منسلک ہیں، ملک، پارٹی اور بارایسوسی ایشنز میں انتخابات ضروری ہیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 184-3کے تحت عوامی اہمیت اور بنیادی حقوق کے نفاذ کے حوالہ سے ازخود نوٹس لیا جاسکتا ہے،رکن قومی اسمبلی سید مصطفی کمال اور سینیٹر فیصل واوڈا نے بڑے پن کامظاہرہ کرتے ہوئے عدالت سے معافی مانگی۔

آزادی اظہار رائے پر ہم نے کبھی قدغن نہیں لگائی ، پارلیمان قانون بناتی ہے اور ہماراکام تشریح کرنا ہے، اگر قانون کسی آئینی شق کے خلاف ہوتوہم اُس قانون کو کالعدم قراردے سکتے ہیں۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کاکہنا تھا کہ ہمار ے ایک جج صاحب پر بہت سارے لوگوں نے الزام لگائے، سپریم جوڈیشنل کونسل نے کھلی عدالت میں کیس چلا یا اور جج صاحب کو برطرف کیا، یہ مس کنڈکٹ اور بدانتظامی پر کسی جج کے خلاف پہلی مرتبہ اقدام کیا گیا۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ اِس عدالت سے بھی غلطیاں ہوئیں، جب تک غلطیوں کاادراک نہیں کریں گے تودرست سمت میں نہیں جاسکتے، ذوالفقار علی بھٹو کیس میں صدر مملکت نے ریفرنس بھیجا ہم نے آئین کے آرٹیکل 186کے تحت اپنی رائے دی، 10سال تک یہ کیس نہیں چلا تھا، ہم نے قراردیا کہ ذوالفقار علی بھٹو کاکیس غیرجانبدارانہ اور مصفانہ طریقہ سے نہیں چلا تھا۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ایک اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج کوغلط طریقہ سے برطرف کیا گیا تھا ان کی عمر زیادہ ہوگئی تھی وہ بحال نہیں ہوسکتے تھے ہم نے کہا کہ انہیں ریٹائرڈ جج تصورکیا جائے اورساری مراعات دی جائیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ جنرل پرویز مشرف پر سنگین غداری کامقدمہ چلا اور لاہور ہائی کورٹ نے قراردیا کہ خصوصی عدالت یہ فیصلہ نہیں کرسکتی تھی ہم نے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کالعدم قراردیا۔

چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ہم نے سپریم کورٹ کے سامنے سے ساری رکاوٹیں ہٹادی تھیں اوردوسروں کو بھی حکم دیا کہ وہ اس حکم کے تابع اگررکاوٹیں نہیں ہٹائیں گے تو اُس ادارے کاسربراہ ذمہ دارہو گاجو رکاوٹیں نہیں ہٹائے گا۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ہمارے سامنے مارگلہ پہاڑی کاکیس بھی آیا۔ان کاکہنا تھا کہ چیف جسٹس کے گھر میں موررکھے گئے تھے، ان کی رہائی کروائی گئی، میں نے کہا چیف جسٹس کے گھر میں موروں کاکیا کام ہے، موروں کو کلر کہار کے جنگل میں چھوڑاگیا، جنگل میں مورناچاکس نے دیکھا،جنگل میںہی مورکوناچنے دیں تو بہتر ہے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ کئی سال سے سپریم کورٹ پوری نہیں تھی ، 16ججزاورچیف جسٹس ہونا چاہیئے، ہم نے ججز پورے کئے، کیسز کے فیصلے اسی صورت ہوں گے اگرججزعدالت میں بیٹھے ہوں گے، منصوبہ بنانے سے کیسز کم نہیں ہوں گے، ججز کوبھی کام کرنا ہے، مجوراً ہی کسی کیس میں تاریخ دی جائے جس دن کیس لگے اسی دن چلے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ایڈہاک جج مظہر عالم خان اپنے بھانجے کے انتقال کی وجہ سے فل کورٹ ریفرنس میں شرکت نہیں کرسکے،

ایڈہاک ججز سردار طارق مسعود اور مظہر عالم خان میاں خیل نے موسم گرماکی تعطیلات کے دوران 245کیسز نمٹائے، کوشش ہے کہ ہم زیادہ سے زیادہ کیسز نمٹائیں، اگر ہم کام نہ کریں توہم پرتنقید کریں، ڈاکٹر قبلہ ایاز اسلامی نظریاتی کونسل کے سربراہ رہ چکے ہیں انہوں نے عالم جج کاعہدہ قبول کیا جس پر ان کامشکور ہوں، ہم نے گرمیوں کی تعطیلات کے دوران 40فیصد شرعی اپیلیں نمٹادیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ہماری ذمہ داری اُس وقت بنتی ہے جب کیس ہمارے پاس داخل ہوتاہے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ججز پرروزانہ چھوٹے اور سچے الزامات لگادیئے جاتے ہیں ہم نے کوڈ آف کنڈکٹ میں ترمیم کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر کسی جج کے خلاف ذاتی نوعیت کاالزام لگایا جاتا ہے توہ جج جواب دے سکتا ہے۔ ہماری پریس ایسوسی ایشن سے ملاقات بھی ہوئی ہم نے کہا تنقید کریں ہم اپنی غلطی مان لیتے ہیں، چھوٹی، چھوٹی باتیں ہی انصاف فراہم کرنے کاموقع دیتی ہیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ سپریم کورٹ میں میں نے ایک ماہ چھٹیاں کم کردیں،کوئی دن چھٹیوں میں ایسانہیں تھا جب سپریم کورٹ میں کیسز کی سماعت نہ ہوئی ہو۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ چھٹیوں میں 1940کیسز کافیصلہ ہوا۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ بہت سے اچھے کام کرناابھی باقی ہیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ جہاں سے بھی اچھی تجویز آئے ہم نظام انصاف کو بہتربنائیں گے۔