مہنگائی اور اس کے عوامل کا جائزہ۔۔۔تحریر،ڈاکٹر عشرت حسین


ایک نکتہ جس پر وزیراعظم اور حزب اختلاف کے رہنمائوں سے لے کر عوام تک کا قومی اتفاق رائے ہے ، وہ یہ ہے کہ ملک مہنگائی کے سنگین بحران کی زد میں ہے ۔اس نے شہریوں کی زندگی اجیرن کردی ہے۔ مہنگائی فلاحی افلاس کا باعث بنتی ہے۔

مالیاتی اثاثوں سے محروم غریب اور متوسط خاندان، تنخواہ دار طبقے، پنشنرز، بیوائیں اور محدود آمدنی والوں کےلئے مہنگائی سوہان روح ثابت ہوتی ہے۔ ستم ظریفی یہ کہ صارفین کی ایک بڑی تعداد کا تعلق انہی گروہوں سے ہے۔ یعنی یہ افراد اپنی آمدنی کا ایک بڑا حصہ روز مرہ کی اشیائے ضروریہ، خوراک، کرائے، ٹرانسپورٹ اور لباس جیسی ضروری اشیاء پر خرچ کرتے ہیں ۔

اسی وجہ سے ان طبقات کو مہنگائی سب سے زیادہ محسوس ہوتی ہے۔ چنانچہ افراط زر کی بنیادی وجوہات کا تعین کرنے اور مستقبل میں اس مسئلے سے نمٹنے کے اقدامات کا غیر جانبدارانہ انداز میں جائزہ ضروری ہے۔ بدقسمتی سے ایسی کوئی جادو کی چھڑی نہیں جو راتوں رات اس مسئلے کا حل نکال دے۔ اور جو لوگ فوری طور پر قیمتیں کم کرنے کا وعدہ کرتے ہیں وہ کسی طور سنجیدہ نہیں ہیں۔

ہمارے ارادے جتنے بھی نیک اور پرخلوص ہوں، کساد بازاری اور کمزور سرکاری شعبے ایسا کرنے کی اجازت نہیں دیں گے ۔افراط زر اور قیمتوں میں اضافے کے پیچھے کون سے بنیادی عوامل ہیں ؟ یہ مہنگائی آبادی کی اکثریت میں بڑے پیمانے پر بے چینی پیدا کرتے ہوئے حکومت کی مقبولیت کو زک پہنچا رہی ہے۔

افراط زر کی سادہ اور عام فہم تعریف یہ ہے کہ جب معیشت میں رقم کی بہتات ہوجائے تو اشیا اور سروسزکی قلت واقع ہوجاتی ہے ۔ اس سے ان کی قیمتیں بڑھ جاتی ہیں ۔ اس طرح مہنگائی کی وجہ یا تو اشیا اور سروسز کی طلب میں اضافہ ہوتا ہے یا ان کی رسد یک لخت کم ہوجاتی ہے ۔

آئیے پہلے عالمی رسد میں آنے والے بھونچالوں کی بات کرتے ہیں جو خارجی ہیں یعنی قومی پالیسی سازوں کے کنٹرول سے باہر ہیں۔ عالم گیر وبا، کوویڈ 19نے ترقی یافتہ، ابھرتی ہوئی اور ترقی پذیر معیشتوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ۔ اور یہ سلسلہ دو سال تک جاری رہا۔

کساد بازاری کے نتیجے میں معاشی سرگرمیاں کم ہوئیں اور بے روزگاری میں اضافہ ہوا۔اقتصادی بحران سے نمٹنے کےلئے کچھ حکومتوں کی طرف سے کھلے دل سے مالی وسائل فراہم کئے گئے ، جیسا کہ بے روزگاری الائونس اورنقد رقوم وغیرہ۔ رقم ہاتھ آنے سے خریداری کا بازار گرم ہونے لگا۔

بازار کھلے تو دل کی بھڑاس نکالی گئی۔اس طرح وبائی مرض کے بعد کے دور میں اشیائے ضرورت اور خدمات کی مانگ میں زبردست اضافہ دیکھنے میں آیا۔ 2021 کی پہلی ششماہی میں خوردہ اشیا کی فروخت ایک سال پہلے کے مقابلے میں 22فیصد زیادہ تھی۔ تاہم اسی وقت توانائی کی قیمتوں میں اضافہ ہوا، مزدوراور میٹریل کی قلت واقع ہوئی۔

کنٹینر کی لائنوں اور بندرگاہوں پر بھیڑ ہو گئی اور اندرون ملک مال کی نقل و حرکت رک گئی۔ شپنگ میں طویل تاخیر کی وجہ سے عالمی سپلائی چین میں خلل پڑا۔ برطانیہ میں سامان کی نقل و حمل کے لئے ٹرک ڈرائیور دستیاب نہیں تھے۔

سیمی کنڈکٹر چپس کی کمی کی وجہ سے کاروں اور الیکٹرانک صنعتوں کو سخت نقصان پہنچا۔ فارموں اور پروسیسنگ پلانٹس میں کم پیداوار کی وجہ سے خوراک کی قیمتیں بلند ہوگئیں۔ پیداوار اور سپلائی میں تعطل غیر معمولی انداز میں قیمتوں میں اضافے کا باعث بن رہا ہے ۔

تیل کی قیمتیں چند ماہ کے عرصے میں 40ڈالر فی بیرل سے دگنی ہو کر 80ڈالر تک پہنچ گئیں۔ آر ایل این جی کی قیمت آسمان سے باتیں کررہی ہے۔ چین میں کوئلے کی قلت کے باعث لوڈ شیڈنگ ہوئی اور کارخانے بند ہو گئے۔ دھات کی قیمتوں میں بھی اضافے کا رجحان دیکھنے میں آیا۔

عالمی سطح پر رسد کے جھٹکوں نے پاکستانی معیشت پر اثرات مرتب کئے ۔ پاکستان میں اشیا اور خدمات کی درآمدات جی ڈی پی کے ایک چوتھائی سے زیادہ ہیں اور ملک درآمد شدہ پٹرولیم کی مصنوعات، مشینری، خوراک، صنعتی خام مال، ٹرانسپورٹ استعمال کرتا ہے۔

اس حقیقت کے باوجود کہ حکومت نے بہت سی ضروری اشیا پر سیلز ٹیکس، لیوی اور درآمدی ڈیوٹی کم کر دی اور قیمتوں میں عالمی سطح پر اضافے کے تمام بوجھ کو صارفین پر نہیں ڈالالیکن مہنگائی کے اثرات پھربھی کمر توڑ تھے۔

اگر عالمی سطح پر ہونے والی گرانی کا تمام بوجھ عوام تک منتقل کردیا جاتا تو مہنگائی اس سے کہیں زیادہ ہوتی جتنی دیکھنے میں آرہی ہے۔ پیٹرولیم لیوی اور جی ایس ٹی کو 450 ارب روپے تک کم کرنے سے حکومتی محصولات کوخاطر خواہ نقصان پہنچا لیکن اس سے صارفین کو کچھ جزوی ریلیف ملا ۔

اس ایڈجسٹمنٹ اور مالیاتی توازن پر منفی اثرات کے باوجود(حکومت کو مزید قرض لینا پڑا جس سے مہنگائی کا دباؤ مزید بڑھے گا) پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے نتیجے میں ہونے والا شور و غل قابل فہم ہے کیوں کہ ٹرانسپورٹ کے اخراجات اشیا کی قیمت پر اثر انداز ہوتے ہیں۔

پاکستان میں، ایک پیچیدہ عنصر شرح مبادلہ کی گراوٹ ہے جس نے عوام کو دہری ضرب لگائی ہے۔ مثال کے طور پر، اگرتیل کی قیمتیں دگنی ہو جاتیں لیکن پاکستانی روپے اور ڈالر کی برابری برقرار رہتی اور حکومت ٹیکسوں میں اپنا حصہ کم کر دیتی تو قیمتوں کی ایڈجسٹمنٹ کم تکلیف دہ ہوتی۔

اس طرح پاکستان کے معاملے میں اشیائے صرف کی بلند عالمی قیمتوں سے پیدا ہونے والی درآمدی افراط زر کے محرکات کو بڑھانے میں قدر میں کمی ایک اہم کردار ادا کرتی رہی ہے۔

جن ممالک میں شرح مبادلہ نسبتاً مستحکم رہی وہ اس افزائش سے محفوظ رہے ہیں۔ اسلئے بھارت اور بنگلہ دیش میں مہنگائی کی شرح پاکستان کے مقابلے میں کم ہے۔ ایکسچینج ریٹ ایڈجسٹمنٹ کا مسئلہ الگ تجزیے کا متقاضی ہے۔

سردست اتنا کہنا ہی کافی ہے کہ اگر مارکیٹ میں بھونچال کی سی کیفیت ہو اور افراتفری پھیل رہی ہو تو اسٹیٹ بنک مداخلت کرسکتا ہے۔ لیکن ایسا کرنے سے اس کے زرمبادلہ کے ذخائر کم ہوتے جائیں گے اور مارکیٹ میں منفی رجحان غالب رہے گا۔ ہمارے سامنے دو دھاری تلوار ہوگی: ایک طر ف زرمبادلہ کے ذخائر کم ہونے لگیں گے ، دوسری طرف ملکی کرنسی تیزی سے قدر کھونے لگے گی ۔

جہاں تک پاکستان میں اشیا کی بڑھتی ہوئی مانگ کا تعلق ہے توا سمارٹ لاک ڈاؤن نے معیشت کے پہیے کو رواں رکھا اور رواں مالی سال جی ڈی پی کی نمو توقع سے زیادہ رہی۔ چین کے ساتھ قریبی تعلقات نے 100ملین لوگوں کو حفاظتی ٹیکے لگوانے میں مدد کی۔

16ملین گھرانوں کے لئے ہنگامی نقد امداد کا مالی پیکج دیا گیا۔مشینری اور آلات کیلئے رعایتی فنانسنگ کی فراہمی، کارکنوں کو ادائیگی اور دیگر ری فنانسنگ اسکیموں کے ذریعے مالیاتی سہولت فراہم کی گئی۔ ان سہولتوں سے آبادی کے تقریباً نصف حصے نے کسی نہ کسی صورت استفادہ کیا۔

صارفین اور سرمایہ کار مجموعی مانگ بڑھارہے ہیں۔ کسانوں کیلئے قیمتوں کی فراخدلی نے دیہی علاقوں (آبادی کا 60 فیصد) میں قوت خرید کو فروغ دیا اور بیرون ملک کارکنوں کی جانب سے ترسیلات زر میں اضافہ نے اس بڑھتی ہوئی طلب میں مزید اضافہ کیا۔ چونکہ ملک کی صنعتی اور زرعی پیداواری صلاحیت اس بڑھتی ہوئی طلب کے مقابلے میں ناکافی تھی۔

اس لئے درآمدات بڑھانا پڑیں۔ یہ نوٹ کرنا دلچسپ ہے کہ فارم سیکٹر میں ایک عجیب رجحان دیکھنے میں آیا۔ وہاں پیداوار کا حجم کم رہا لیکن قیمتیں بڑھنے سے ان کی آمدنی بھی بڑھ گئی۔

گندم، چینی اور کپاس جیسی اجناس بڑی مقدار میں درآمد کرنا پڑیں جس سے کرنٹ اکاؤنٹ پر پچھلے سال کے مقابلے میں مزید دباؤ پڑا۔ کچھ عارضی عوامل جیسا کہ کوویڈ 19 کے لئے ویکسین کی درآمد اور دیگر متعلقہ سپلائی نے بھی رواں سال کے درآمدی بل میں اضافہ کیا ہے۔

کپاس کی فصل کے حجم کا موجودہ تخمینہ ظاہر کرتا ہے کہ ہمیں گزشتہ برس کے مقابلے میں رواں سال کم کپاس درآمد کرنا پڑے گی ۔ گندم کی فصل کی کٹائی اور چینی کے سیزن کے بعد ان دونوں کے ممکنہ درآمدی حجم کا تخمینہ لگایا جاسکے گا۔ (جاری ہے)

بشکریہ: روزنامہ جنگ