ہمارے بچّے جئیں…تحریر رضا علی عابدی


آج سہ پہر میں چہل قدمی کے لئے نکلا تو راہ میں دیکھا،ایک خاتون جڑواں بچوں کی دوہری گاڑی چلاتی ہوئی آرہی ہیں، وہی جسے اب عرف عام میں پُش چیئر کہا جاتا ہے، گاڑی میں دو بالکل ایک جیسے بچے بیٹھے تھے۔ اور یہی نہیں، دونوں اونچے سروں میں لہک لہک کر گارہے تھے۔

دنیا زمانے سے بے نیاز، تمام فکروں سے آزاد، اپنی دھن میں مگن اور میرے ذہن میں شور مچاتے ہوئے خیالات سے لا پروا……. ابھی چند روز ہی ہوئے کہ ملکہ برطانیہ نے کہا تھا کہ ہم سب مر جائیں گے مگر ہمارے بچے اور ان بچوں کے بچے تو جئیں گے،تو کیا ہم انہیں صاف ستھری،پاک و پاکیزہ اور کثافت اور آلودگی سے پاک دنیا سونپ کر نہیں جائیں گے۔

اگر جائیں گے تو اٹھیں، باتیں بند کریں اور اپنی اس نیلی نیلی ،گول اور سڈول دنیا کی نازک سی باریک اوڑھنی میں اپنی ہی سیاہ کاریوں کی بدولت پڑنے والے چھیدوں میں پاکیزہ ہوا کے پیوند لگانے کے جتن کریں۔ہمیں اس کیلئے کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی ہو گا۔

برطانیہ میں ان ہی دنوں دنیا بھر کے ملکوں کے سربراہ یا حکمراں اور ہزاروں مندوب جمع تھے۔ خدا جانے کون کہاں کہاں سے چل کر اسکاٹ لینڈ پہنچا تھا جہاں ماتم بپا تھا کہ دنیا کا موسم گرم ہوتا جارہا ہے۔

ٹمپریچر اوپر جارہا ہے اور قدرت نے جو نظام آراستہ کر کے ہمیں سونپا ہے اس پر کرب کا عالم ہے اور اس کا کراہنا صاف سنا جارہا ہے اس لئے اے لوگو، اپنے کرہء ارض کو سنبھالو ورنہ اب کے جو طوفان نوح آئے گا اس میں نہ کوئی تنہا بچے گا نہ کسی کی جوڑیاں محفوظ رہیں گی۔

اسکاٹ لینڈ میں ان دور دراز جزیروں کے باشندے بھی آئے تھے جن کی خشک زمین پر بلند ہوتے ہوئے سمندر کی لہریں چڑھی آرہی ہیں اور ان کی بستیوں کو دیکھتے دیکھتے ہڑپ کر رہی ہیں۔ان خوف زدہ لوگوں کی تقریرو ں نے سننے والوں کے دل دہلا دئیے۔

سچ تو یہ ہے کہ ہم یہاں مغرب میں آباد لوگ برسوں سے سن رہے ہیں اور دیکھ رہے ہیں کہ قطب شمالی اور جنوبی میں لاکھوں برسو ں سے جمی ہوئی برف پگھل رہی ہے اور دنیا کے چھوٹے بڑے سمندروں کی سطح اونچی ہوتی نظر آرہی ہے۔

اتنے بڑے عالمی اجتماع کے لئے اسکاٹ لینڈ کا علاقہ ہی کیوں چنا گیا تھا۔شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ یہی وہ سرزمین تھی جہا ں سے مشہور و معروف صنعتی انقلاب کا آغاز ہوا تھا۔ تو کیا اس عالم گیر اجلاس کے بعد اسی سرزمین سے دنیا کے موسم کو کثافت اور آلودگی سے بچانے کی تحریک بھی بیدار ہوگی۔

کیا یہیں سے وہ ٹھوس قدم اٹھیں گے جن کے نتیجے میں میری نسل رہے نہ رہے، آنے والی نسلیں روز صبح آفتاب کی شفاف کرنوں میں نہایا کریں گی اور کیا یہیں پرسکون راتوں کو چاندنی اپنا دامن پھیلا کر میرے بچوں اور ان کے بچوںکو سکھ کی چادر اڑھایا کرے گی۔

میں خبروں میں اس عظیم اجلاس کی کارروائیاں سنتا رہا اور اپنے سر میں شور مچانے والے اس خیال کو برا بھلا کہتا رہا جو مسلسل کہے جارہا تھا کہ زیادہ امیدیں نہ باندھو، بڑی بڑی توقعات نہ باندھو۔

دنیا کے موسم بگڑنے کا اسباب کچھ آج کے تو نہیں، یہ آفت برسہا برس سے جاری ہے اور ڈرو اس دن سے جب اس اجلا س میں بلند ہونے والی صدائیں مدھم پڑتے پڑتے ہو ا میں تحلیل ہوجائیں گی،اُسی ہوا میں جس کا چہرہ ہم اپنے ہی ہاتھوں مسخ کر چکے ہیں۔ہم پٹرول پھونک رہے ہیں، ڈیزل جلا رہے ہیں، کوئلہ اپنی بھٹیوں میں جھونک رہے ہیں۔

وہ سارا ایندھن جسے قدرت نے زمیں دوز کردیا تھا، ہم نے اسے دن کے اجالے میں نکالا اور اس سے توانائی بنانے لگے۔ مگر ہمارے درخت اور ان کی لکڑی تو سطح زمین پر تھی، اسے بے دریغ کاٹا یہ جانتے ہوئے کہ یہی درخت زمین کے پھیپھڑ ے ہیں، یہ سانس لیتے ہیں تو ہماری سانس چلتی ہے۔ ان کا دم گھٹا تو ہمار ا جینا محال ہوجائے گا۔

اتنے دکھڑے رونے کے باوجود لگتا ہے دنیا پر اس کا اثر نہیں ہوا۔ تین بڑے ملکوں روس، چین اور بھارت نے تو معذرت کرلی کہ وہ اجلاس میں طے پانے والے لائحہ عمل کا پابند نہیں ہو سکتے۔

وہ بہت بڑے ہیں اور انہیں زیادہ مہلت درکار ہے۔دنیا کے صرف آٹھ ملک ہیں جو باقی دنیا سے زیادہ زہریلی گیس بناتے ہیں؛بظاہر یہ ہندسہ چھوٹا سا ہے مگر ہے بڑا خطر ناک ہے۔دنیا کو اب پٹرول اور ڈیزل کا استعمال ترک کرنا ہوگا۔زمین کے نیچے سے نکلنے والے ایندھن کے استعمال سے توبہ کرنی ہوگی۔

یہ طے کرنا ہوگا کہ اب کسی درخت پر کلہاڑی نہیں چلے گی۔ اب دنیا پر سبزے کا راج ہوگا،ہریالی ہوگی، چمن ہوں گے ، گل ہوں گے، گلزار ہوں گے اور ہم سرکش سمندروں کے منہ زور تھپیڑوں سے محفوظ ،اپنے گھر کو اپنی جنت کہنے میں حق بجانب ہوں گے۔

لوگ دوسروں کو کہا کرتے ہیں، ہم آج خود سے کہنے پر مجبور ہیں: ہمارے بچّے جئیں۔

بشکریہ: روزنامہ جنگ