عافیہ صدیقی کی وطن واپسی کی درخواست: عدالت کا وزارت دفاع کے جواب پر اظہار برہمی،سیکریٹری خارجہ پیرکو ذاتی حیثیت میں طلب

اسلا م آباد(صباح نیوز)اسلام آباد ہائی کورٹ نے امریکی جیل میں قید ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی صحت اور وطن واپسی سے متعلق درخواست پر وزارت دفاع کے جواب پر اظہار برہمی کرتے ہوئے سیکریٹری خارجہ کو ذاتی حیثیت میں طلب کرلیا۔اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس سردار اعجاز اسحق خان نے فوزیہ صدیقی کی درخواست پر سماعت کی، درخواست گزار کے وکیل عمران شفیق عدالت میں پیش ہوئے، ایڈیشنل اٹارنی جنرل اور وزارت دفاع کے نمائندے بھی عدالت میں پیش ہوئے۔

درخواست گزار ڈاکٹر فوزیہ صدیقی اور وکیل اسمتھ ویڈیو لنک کے ذریعے عدالت میں حاضر ہوئے، عدالتی معاون وکیل زینب جنجوعہ بھی عدالت میں پیش ہوئیں۔سماعت کے آغاز پر عافیہ صدیقی کی امریکا حوالگی سے متعلق وزارت دفاع نے جواب عدالت میں پیش کردیا، ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ وزارت دفاع کی جانب سے کہا گیا ہے کہ ایجنسیوں کا اس میں کوئی رول نہیں ہے، نمائندہ وزارت دفاع نے بتایا کہ جو بھی الزامات لگائے گئے ہیں اس میں آئی ایس آئی ملوث نہیں۔ڈاکٹر عافیہ کو امریکا کے حوالے کرنے سے متعلق جواب پر عدالت نے وزارت دفاع کے جواب پر عدم اطمینان کرتے ہوئے سیکریٹری خارجہ کو پیر کو ذاتی حیثیت میں طلب کر لیا۔عدالت نے ریمارکس دیے کہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل بھی اگلی سماعت پر مضبوط وجوہات کے ساتھ عدالت کے سامنے پیش ہوں، ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں آپ سے وقت مانگ رہا ہوں کیونکہ اس کو وقت لگے گا، اس پر جسٹس سردار اعجاز اسحق نے ریمارکس دیے کہ میں آپ کو پیر تک کا وقت دے رہا ہوں ورنہ 10 روپے جرمانہ ہو گا۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل کا مزید کہنا تھا کہ انہوں نے امریکا میں عافیہ صدیقی کی رہائی کی درخواست کرنی ہے، اس میں کیا ایشو اٹھایا گیا ہے کوئی سمجھ نہیں آ رہی، اس لیے اس ان کی درخواست کو حکومت کے سامنے رکھا جائے، یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ موشن کو متعلقہ وزارت کو بھیجے۔اس پر عدالت نے کہا کہ ان کی کوئی ذمہ داری نہیں کہ وہ موشن موو کریں، یہ کام تو حکومت کا ہے، مگر نہیں آپ کہہ رہے ہیں چار وزارتیں بیٹھیں گی فیصلہ کریں گی، جو ڈاکومنٹ آپ نے جمع کروایا ہے اس میں درخواست کا ذکر کہاں ہے؟ یہ ڈاکومنٹ کہاں درخواست کو سپورٹ کرتا ہے؟ آپ کو ڈائریکٹشنز کس نے دی ہیں؟ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ڈائریکشنز وزارت خارجہ میں موجود ڈائریکٹر امریکا کی جانب سے دی گئی ہیں ، جسٹس سردار اعجاز اسحاق نے کہا کہ میں ڈائریکٹر امریکا کو بلا کر پوچھوں؟ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ وہ اس وقت ملک میں موجود نہیں، عدالت کا مزید کہنا تھا کہ آپ معاملے پر ابھی کلیئر کریں ورنہ میں سخت آرڈر جاری کروں گا، ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ہم نے پہلے یہ دیکھنا ہے موشن درست ہے یا نہیں، وزارت خارجہ فوزیہ صدیقی اور دیگر لوگوں کو ویزہ اور ہر طرح کی سپورٹ کر رہی ہے۔

بعد ازاں عدالت نے ریمارکس دیے کہ بہت شکریہ آپ نے ڈاکٹر عافیہ اور ڈاکٹر فوزیہ کی ملاقات کروائی، قوم آپ کو سلام پیش کرتی ہے، آپ نے ملاقات کروا کے احسان کیا ہے، حکومت نے عافیہ کو گرفتار کر کے امریکا کے حوالے کر دیا، مزید دریافت کیا کہ پی ٹی اے (پریزنر ٹرانسفر ایگریمنٹ ) ایگریمنٹ کا کیا بنا؟اس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ڈرافٹ تیار کر لیا گیا ہے، اگلے ہفتے تک وزارت قانون کے سامنے رکھ دیا جائے گا، عدالتی معاون زینب جنجوعہ کا کہنا تھا کہ یہ صرف ڈاکٹر عافیہ صدیقی سے متعلق نہیں بلکہ دو طرفہ تعلقات کے لیے بھی ہے۔عدالت نے مزید دریافت کیا کہ انکوائری رپورٹ کا کیا بنا؟ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ مجھے وقت چاہیے کیونکہ حکومت نے فیصلہ کرنا ہے،

اس پر جسٹس سردار اعجاز اسحق خان نے کہا کہ میرے لیے آپ ہی حکومت ہیں، پیر کو مکمل واضح جواب کے ساتھ آئیں۔عدالت نے کیس سماعت پیر 10 بجے تک ملتوی کر دی ،دریں اثناء عافیہ موومنٹ پاکستان کی جانب سے کیس کے حوالے جاری تفصیلات کے مطابق ڈاکٹر عافیہ کی صحت ، رہائی اور وطن واپسی کے لیے ان کی ہمشیرہ ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کی جانب سے دائر آئینی پٹیشن کا مقصد قوم کی بیٹی کی جان بچانا اور انہیں عافیت کے ساتھ وطن واپس لانا ہے ۔ ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے وکلاء کے ذریعے اور عدلیہ کے توسط سے حکومت سے کہا کہ ہمیں کسی قسم کی انکوائری ، تفتیش یا بدلہ لینے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ ہماری کوششوں کا بنیادی مقصد عافیہ کو رہائی دلانا اور وطن واپسی لانا ہے تاکہ اس کا فوری طور پر علاج شروع کیا جاسکے کیونکہ اس کی حالت انتہائی ابتر ہے اور اس کی جان کو خطرہ لاحق ہے۔ جب پاکستانی حکام عافیہ سے ملنے جیل میں جاتے ہیں تو اسے انتہائی خراب حالت میں پاتے ہیں۔ ہماری پٹیشن میں یہی استدعا کی گئی ہے کہ عافیہ کو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر رہا کرایا جائے۔