قرارداد مقاصد اور مولانا شبیر احمد عثمانی : تحریر وجاہت مسعود


(گزشتہ سے پیوستہ)

اس اظہاریے میں جماعت اسلامی اور سید ابوالاعلیٰ مودودی اسلئے زیر بحث آئے کہ قرارداد مقاصد منظور ہونے کے بعد جماعت اسلامی کی مجلس شوریٰ نے 15مارچ 1949 ء کو ریاست پاکستان کی حمایت کا اعلان کیا تھا۔ جماعت اسلامی کی مجلس شوریٰ کے مطابق ’پاکستان کی دستور ساز اسمبلی نے یہ قرارداد (قرارداد مقاصد) منظور کرکے جماعت اسلامی کے مطالبہ کی روح کو قبول کر لیا ہے۔ اگر اس قرارداد کے الفاظ اور انکے مضمرات و متقضیات کی روح و منشا کے عین مطابق دستور مرتب کیا جائے تو ریاست کے قانون کا ماخذ کتاب و سنت کے سوا کسی اور شے کو قرار نہیں دیا جا سکتا‘۔ واضح رہے کہ مارچ 1949 ء میں مولانا مودودی ملتان جیل میں نظربند تھے ۔ مجلس شوریٰ کی قرارداد کا مطلب یہ تھا کہ آئندہ جماعت اسلامی حکومت پاکستان کو کافرانہ حکومت نہیں کہے گی۔ اپنے ارکان کو ملکی دستور سے وفاداری کا حلف لینے یا افواج پاکستان میں بھرتی ہونے سے منع نہیں کرے گی۔ مولانا مودودی اور ان کے ساتھیوں کی نظربندی اپریل میں ختم ہو رہی تھی۔ تاہم اسی قرارداد میں یہ بھی واضح کیا گیا کہ وزیراعظم لیاقت علی خان نے قرارداد مقاصد پر تقریر کرتے ہوئے اسلام کی جو جمہوری تعبیر کی ہے وہ جماعت اسلامی کے لیے قابل قبول نہیں بلکہ جماعت اسلامی کو قرارداد مقاصد کی اس غیر جمہوری تعبیر ہی پر اصرار تھا جس کا حزب اختلاف کے قائد سرس چندر چٹوپاڈھیانے خدشہ ظاہر کیا تھا۔ جماعت اسلامی کی یہ قرارداد 17 مارچ 1949 ء کو روزنامہ امروز میں شائع ہوئی ۔ قریب 36 برس بعد قرارداد مقاصد کو دستور کے دیباچے کی بجائے نافذہ متن کا حصہ بنانے میں جماعت اسلامی نے اہم کردار ادا کیا۔ محترم دوست فاروق عادل اپنی کتاب ’جو صورت نظر آئی‘ میں لکھتے ہیں کہ انہوں نے میاں طفیل محمد سے سوال کیا کہ ’1985 میں جماعت اسلامی نے آٹھویں آئینی ترمیم کی منظوری میں مدد فراہم کر کے مارشل لا کو آئینی جواز فراہم کر دیا‘۔ امیر جماعت اسلامی میاں طفیل محمد کا جواب ملاحظہ کیجئے، ’ہمارے سامنے دو راستے تھے۔ آٹھویں ترمیم کا راستہ روک کر آئینی بحران پیدا کر دیں یا ساتھ دے کر قرار دادِ مقاصد کو آئین کا قابل نفاذ حصہ بنوا دیں۔ ساتھ نہ دیتے تو ممکن ہے قرار داد کو آئین میں شامل کرانے کا موقع پھر کبھی نہ ملتا، ہم نے دوسرا راستہ اختیار کیا‘۔برطانوی ہند کی آزادی کے ہنگام قرارداد مقاصد کی اصطلاح ہندوستان کی دستور ساز اسمبلی میں پہلی بار سنائی دی۔ جولائی 1946 میں ہندوستان کی دستور ساز اسمبلی کیلئے انتخاب ہوا۔ دستور ساز اسمبلی کے کل 389ارکان میں 93 خود مختار ریاستوں کے نمائندے تھے۔ مسلم لیگ کے 73 اور کانگرس کے 208 ارکان کامیاب ہوئے۔ انتخاب کے بعد مسلم لیگ نے دستور ساز اسمبلی کا بائیکاٹ کر کے مسلمانوں کیلئے علیحدہ دستور ساز اسمبلی کا مطالبہ کر دیا۔ 9دسمبر 1946ء کو متحدہ ہندوستان کی منتخب دستور ساز اسمبلی کے افتتاحی اجلاس میں 208 ارکان شریک ہوئے۔ مسلم لیگ اور خود مختار ریاستوں نے بائیکاٹ جاری رکھا۔ معلوم انسانی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک مقبوضہ قوم نے بنیادی انسانی انصاف کے سیاسی اصولوں کی روشنی میں مذاکرات کے ذریعے اپنا حق حکمرانی حاصل کیا تھا۔ یہ پہلا موقع تھا کہ ایک غیر ملکی قابض طاقت جنگ کے بغیر اپنے مقبوضات سے دست بردار ہو رہی تھی۔ نو آزاد ملک کی سیاسی قیادت کیلئے اپنے وسیع اور متنوع ملک میں شہریوں اور ریاست کے مابین عمرانی سمجھوتے کے اصول طے کرنا ایک بہت بڑا امتحان تھا ۔ چنانچہ 13 دسمبر 1946ء کو جواہر لال نہرو نے قرار داد مقاصد پیش کی جس میں آزاد ہندوستان کے بنیادی اصول بیان کیے گئے تھے۔ یہ قرار داد 22 جنوری 1947ء کو منظور ہوئی۔پاکستان میںقرارداد مقاصد کا ذکر کراچی کے پہلے مسلمان میئر حاتم علوی نے 29 جولائی 1947 ء کو قائداعظم کے نام ایک خط میں کیا تھا۔ اس خط کی اصل نقل محفوظ ہے۔ حاتم علوی نے قائداعظم کو پاکستان کی دستور ساز اسمبلی میں افتتاحی تقریر کے حوالے سے دیگر تجاویز کے علاوہ قرارداد مقاصد پیش کرنے کا مشورہ بھی دیا تھا۔ اس خط میں ’انسائیکلو پیڈیا برٹنیکا‘ سے حضرت عمر ؓکے بارے میں ایک اقتباس بھی شامل تھا۔ قائداعظم کے سرکاری سوانح نگار ہیکٹر بولائتھو لکھتے ہیں کہ ’نئی ریاست کی تفصیلات کے جاں گسل فرائض ادا کرتے ہوئے قائداعظم اپنی زندگی کی عظیم ترین تقریر بھی لکھ رہے تھے۔ وہ بار بار اپنے میز کی طرف پلٹتے اور گھنٹوں اس تقریر پر کام کرتے جو انہیں 11 اگست کو پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کے افتتاحی اجلاس میں کرنا تھی‘۔تاریخ بتاتی ہے کہ قائداعظم نے 11اگست 1947 ء کو اپنی تقریر میں حاتم علوی صاحب کی تجاویز کو یکسر نظرانداز کر کے شہری مساوات پر مبنی جمہوری اور روادار معاشرے کا نصب العین بیان کیا۔قائداعظم نے فرمایا کہ ’تم آزاد ہو، تم ریاست پاکستان میں اپنے مندر، مسجد یا کسی عبادت گاہ میں جانے کے لیے آزاد ہو۔ تمہارا تعلق کسی بھی مذہب، ذات یا مسلک سے ہو اس کا اس بنیادی اصول سے کوئی تعلق نہیں کہ ہم سب شہری ہیں اور ایک ریاست کے مساوی شہری ہیں‘۔ اس تقریر میں یہ جملہ کہ ’مذہب کا ریاست کے امور سے کوئی تعلق نہیں ‘ روادار جمہوریت کی بہترین تعریف ہے۔ قائد اعظم نے اس تقریر میں نظریہ پاکستان بھی بیان کر دیا تھا ’ہمیں شہریوں، خصوصاً عوام اور غریبوں کی فلاح و بہبود کے لیے ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے ۔ شہریوں کے معیارِ زندگی میں بہتری ہی جدید اور جمہوری ریاست کا واحد اور قابلِ قبول نصب العین ہے‘۔ قائداعظم نے اپنے خطاب میں کوئی مذہبی حوالہ نہیں دیا ۔البتہ 14اگست 1947 ء کو دستور ساز اسمبلی کے خصوصی اجلاس میں لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے الوداعی تقریر میں مغل شہنشاہ اکبر کی رواداری کا ذکر کیا تو اس کے جواب میں قائداعظم نے حضرت عمر ؓکے طرز حکومت کا ترجیحی ذکر ضرور کیا۔قائداعظم کی یہ تقریر علامہ شبیر احمد عثمانی اور مولانا احتشام الحق تھانوی سمیت بہت سے حلقوں کو سخت ناگوار گزری۔ اس کی تفصیل آئندہ نشست میں۔

بشکریہ روزنامہ جنگ