آج کچھ درد مرے دل میں سِوا ہوتا ہے : تحریر کشور ناہید


میرے منہ میں خاک، مگر پاکستان میں زوال کے آثار تو اُس دن شروع ہوگئے تھے جب اس ملک کو بنانے والے کو ایئرپورٹ سے لانے والی گاڑی کا پیٹرول، ذرا آگے چلتے ہی ختم ہوگیا تھا اور ڈیڑھ گھنٹے تک محترمہ فاطمہ جناح قائد کے منہ پر مکھیوں کو اپنے دوپٹے سے جھلتی رہیں ۔ قائد نے ایسے ہی تو نہیں کہا تھا کہ میری جیب میں کھوٹے سکے ہیں۔ ان ہی کھوٹے سکوں کی نسل پاکستان کو پہلے 25سال ہی میں برباد کر چکی تھی۔ پاکستانی فوجی سربراہ جو بنگال میں ہتھیار ڈالتے ہوئے بھی لطیفے سنا رہا تھا وہ فوج جو حمیت کیلئے بے مثل تھی۔ وہ دو سال تک دشمنوں کے کیمپوں میں قیدی بنی رہی۔

پاکستان بننے کے فوراً بعد، تمام ہندو اور سکھ گھروں والے اپنے ہمسایوں کو چابیاں یہ کہہ کر دے گئے تھے کہ یہ قتل عام رک جائے گا اور ہم جلد ہی واپس اپنے گھروں میں آجائیں گے۔ مگر ایک طرف فسادیوں نے وہ خون کی ہولی کھیلی کہ میرے جن بچوں نے نہیں پڑھا وہ شاہد احمد دہلوی کا لکھا ’’دلی کی بپتا‘‘ پڑھ لیں۔ اور جن لوگوں کو یہ معلوم نہیں کہ گھروں سے اجڑ کے اور قتلِ عام سے بچ کے جو لوگ لاہور تک پہنچے تو اندرون شہر کن کونوں کھدروں میں سر چھپانے کی کوشش کرتے رہے۔ اے حمید کا لکھا ہوا ’’ڈربے‘‘ پڑھ لیں اور عبرت حاصل کرنے کے علاوہ یہ بھی یاد رکھیں کہ جو مکین یہاں سے اجڑ کے انڈیا گئے اور وہاں کے اجڑ کے یہاں منہ پہ خون کے چھینٹے لئے گرتے پڑتے آئے تھے ان کی بے گھری والٹن کیمپ میں دو سال تک جاری رہی۔ یہ احوال پڑھنا ہو تو بیپی سدھوا کا ناول پڑھ لیں۔ اگر یہ بھی میسر نہیں تو کراچی میں اور سندھ میں کیا ہورہا تھا وہ پڑھنے کے لئے شوکت صدیقی کا ناول ’’خدا کی بستی‘‘ پڑھ لیں، اگر پھر بھی کچھ سمجھ میں نہ آئے تو خوشونت سنگھ کا ناول ’’ٹرین ٹو پاکستان‘‘ پڑھ لیں۔ اگر انگریزی ہی سمجھ میں آتی ہے تو والپرٹ کی قائد کہانی پڑھ لیں۔ اگر ادب پڑھنا ہے تو منٹو کا افسانہ ٹوبہ ٹیک سنگھ پڑھ لیں۔ کرشن چند اور امرتہ پریتم کی ملالی تحریریں پڑھ لیں اور پھر کسی بچے کچھے بوڑھے سے یہ بھی پوچھیں کہ جو فیکٹریاں، کوٹھیاں اور گھر ہمسایوں کو چابیاں دیکر گئے تھے انہوں نے نہ صرف قبضہ کیا، بلکہ خود کو محمود غزنوی سمجھتے ہوئے مورتیوں سے ہیرے جواہرات نکالے اور خود کو پاکستان بنانے والوں میں شمار کرتے ہوئے مسندیں سنبھالیں۔ اس زمانے کے خواجہ ناظم الدین کو باقاعدہ کرسی سے اتار کر بچوں کی طرح سیاسی میوزک کرسی کھیلی۔ اس کھیل میں نہ بزنس پھیلا اور نہ بجٹ، امریکہ کو اور کیا چاہئے تھا ۔ زوال کی اگلی منزل سے لے کر آج تک امریکی سفیر تک کہہ رہا ہے کہ ہم پاکستان کو بچائیں گے۔ اُدھر چین نے بہت بھگتا، بہت سیاستدانوں اور بیوروکریسی نے مل کر لوٹا، بہت منتوں کے بعد شاید ڈوبتے کو تنکے کا سہارا بن جائے کہ اس وقت شدید گرمی اور حبس میں سوٹ پہنے سارے سرکاری دانشور کہہ رہے ہیں عوام سے کہ یہ ٹیکس نہیں دیا تو تم نہیں۔ اگر یہ مہنگائی برداشت نہیں کی تو تم نہیں۔ یہ سارے باگ کھینچنے والے، روز پارلیمنٹرین کے لئے رعایتیں، صرف حاضری لگا کے پیسے لینے کو ترقیاتی فنڈز بھی دیئے جارہے ہیں اور ملک سے باہر جانے کے بہانے، کانفرنس کے نام پر کس کس نے داغ نہیں لگائے۔ آج پتہ نہیں کس کے کہنے اور اجازت سے حافظ نعیم نوجوانوں کو لے کر نکلے ہیں اور حکومت کے پیشوا، اب کہنے لگے ہیں کہ ممبران پارلیمنٹ کو بھی بجلی اور گیس کا بل دینا پڑیں گے۔ اپنی پٹاری میں رکھے بونوں میں ہر روز ایک نہ ایک ٹیکنوکریٹ کے نام سے شامل ہو رہا ہے میں ماضی میں رہنا نہیں چاہتی کہ اب میں خود ماضی ہوچکی ہوں۔ مجھے جب بھی14اگست آنیوالی ہو، وہ ساری کالے برقعے والی اپنی مائیں یاد آتی ہیں جو 1946ء میں نعرے لگاتی تھیں ’’بن کے رہے گا پاکستان‘‘۔ ہم ان کی طرف سے روز آٹا اکٹھا کرکے مسلم لیگ کے دفتر دیکر آتے تھے۔ قائداعظم نےتو چند ماہ میں ہی اسٹیٹ بینک کا افتتاح کردیاتھاپھرآخری دم تک مایوسی اوڑھ کر خاموش رہنے لگے تھے۔ ہم نے تو ان کی بہن محترمہ فاطمہ جناح کو بھی عزت نہیں دی۔ ایوب کے حامی الیکشن کے دنوں میںاس طرح مغلظات بکتے تھے جیسا کہ بیگم بھٹو اور بی بی نظیر کے لئے کہنابہادری ہے۔ کوئی آج کے حکمرانوں کو بتائے کہ اختلاف اور دشمنی میں فرق ہوتاہے۔ ہمیں فیصلہ کرنا ہے کہ زمینی اور سیاسی حقیقتوں کو سامنے رکھ کر آگے بڑھنا ہے کہ ماضی کی طرف لوٹنا ہے۔ حال ہی میں دیکھیں پیرس اولمپکس میں صرف 7کھلاڑی اور 11افسران گئے ۔ پہلے کرکٹ میں بادشاہ تھے۔ ہاکی اور ٹینس میں اول نمبر تھے۔اب داعش کی بڑھی ہوئی یلغار ہمیں روز ڈراتی ہے۔ چند جوانوں کے تابوت سامنے رکھ جاتی ہے۔ اب تو زبانیں اتنی کھل گئی ہیں کہ ایک دوسرے کیلئے غدار کے بینر لگا رہے ہیں۔ عمران خان اگر اچھا کھلاڑی ہوتا تو 9مئی کا اقرار نامہ دے رہا تھا تو صاف صاف بتا دیتا کہ کن کن جادوگروں کی پڑھائی پٹی پر عمل کر رہا تھا۔ ہم نے زمانے میں اصل دشمنوں پر پردہ ڈالنے کی بزدلی کو حکمت سمجھا ہے۔ فوج کے نصاب میں دشمن سے لڑنا سکھایا جاتا ہے۔ ہم نے حکومت اور معیشت دونوں کو بھی ان سے پوچھ کر چلانے کی حکمت کو خود کو کرسی پر بیٹھے رہنے کے لئے، سیاست سمجھا ہوا ہے۔ بائیڈن جاتا ہے تو سیاسی شخصیت کو بھی سامنے لاتا ہے۔ ہمیں ہر روز خبر نامہ سنا کر یہ کہا جاتاہے عوام کو روٹی کا وعدہ تو خدا نے کیا ہے ہم تو سرحدوں پر چوکس ہیں۔

بشکریہ روزنامہ جنگ