دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت : تحریر الطاف حسن قریشی


آپ ملکی حالات سے جس قدر بھی لاتعلق رہنا چاہیں، وہ آپ کے دل و دِماغ پر اثرانداز ہوتے رہتے ہیں۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ کو بنوں چھاؤنی پر حملے کی خبر ملے اور آپ بےچَین اور مضطرب نہ ہوں۔ ہم دل کو کتنا ہی سنبھالا دینا چاہیں، مگر انتشار اَور بگاڑ کی ہولناک صورتِ حال آپ کے اعصاب پر ضرور اَثرانداز ہوتی ہے۔ درجنوں لوگ جو آج قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں، اُن میں ایسے افراد بھی ہیں جن کے ساتھ آپ کا محبت اور دوستی کا گہرا تعلق رہا ہے۔ ہزاروں ارب روپے کے قرضوں کی جب تفصیلات سامنے آتی ہیں، تو سانس رکنے لگتا ہے، جبکہ آئی پی پیز کا معمہ خون منجمد کر دیتا ہے۔ بجلی کے بِلوں میں جو گھپلے ہو رہے ہیں، وہ ایک بڑی ہی روح فرسا کہانی ہے۔ حضرت غالبؔ اپنے زمانے میں بہت بڑے عذاب سے گزرے تھے۔ جب ہر شے فنا کی جا رہی تھی، تب اُنہوں نے دکھ میں ڈوبا ہوا یہ شعر کہا تھا ؎

دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت درد سے بھر نہ آئے کیوں

روئیں گے ہم ہزار بار کوئی ہمیں ستائے کیوں

اب ہر سُو ستائے جانے کا عمل جاری ہے۔ مخصوص نشستوں کے حوالے سے آٹھ معزز جج صاحبان نے جو فیصلہ صادر کیا ہے، اُس نے ایک دنیا کو حیران اور عدالتی نظام کو بری طرح متزلزل کر دیا ہے، کیونکہ اِس کی نظیر پہلے کہیں نہیں ملتی۔ قانون اور آئین کے بیشتر ماہرین اور بعض حاضر اور رِیٹائر جج صاحبان کی یہ رائے ہے کہ آئین میں اپنی طرف سے الفاظ کا اضافہ کر دیا گیا ہے اور اِنصاف چھٹی پر چلا گیا ہے۔ کچھ سیاسی حلقے اِسے جمہوریت اور اِنصاف کی فتح قرار دَیتے ہوئے آپے سے باہر ہو گئے۔ اُنہوں نے دوسرے ریاستی اداروں کا گھیراؤ شروع کر دیا ہے۔ اِس طرح معاشرے میں داخلی کشمکش گہری اور تیز ہوتی جا رہی ہے جس سے ریاست کے پورے نظام کے تلپٹ ہونے کا خطرہ پیدا ہو چلا ہے۔ اِس وقت فساد کی جڑ غلط خبروں کی ترسیل اور معاشرے کے اندر بڑھتی ہوئی تقسیم نظر آتی ہے۔ ہر خاندان اور ہر گھر تقسیم ہو گیا ہے۔ یہ تاثر بھی پھیلایا جا رہا ہے کہ ریاستی ادارے بھی اندر سے تقسیم ہو چکے ہیں اور چَین آف کمانڈ کمزور پڑ گئی ہے۔ ڈیجیٹل انفارمیشن ٹیکنالوجی میں حیرت انگیز ترقی سے کنٹرول کے تمام ذرائع غیرمؤثر ہو گئے ہیں۔ اب کوئی بھی شخص یا گروہ اَمریکہ، برطانیہ، فرانس میں بیٹھ کر پاکستان کے خلاف زہریلا پروپیگنڈا کر سکتا اور نفرتوں کا ایک طوفان اُٹھا سکتا ہے۔ یہ سب کچھ ہمارے سامنے ہو رہا ہے اور ہم اِس کی ذرا بھی روک تھام نہیں کر سکتے۔ یوں اِس ڈیجیٹل انفارمیشن ٹیکنالوجی نے ڈیجیٹل دہشت گردی کی صورت اختیار کر لی ہے جس سے پریشان ہو کر فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری نے دو گھنٹے کی دھواں دار پریس کانفرنس کی ہے جس نے عوام کی نفسیات کے اندر مزید خوف پیدا کر دیا ہے، کیونکہ آہنی ہاتھ اپنے اہداف حاصل کرنے میں اب تک ناکام رہا ہے۔

ہمیں اِن سنگین چیلنجوں کا خاطرخواہ اِدراک حاصل ہے جو ہماری عسکری قیادت کو درپیش ہیں۔ دراصل ہمارے قومی اور ملکی معاملات میں فوج کا بڑا عمل دخل رہا ہے جس نے اِس تاثر کو جنم دیا کہ فوجی قیادت کی حمایت کے بغیر کوئی اقتدار میں آ سکتا ہے نہ کرسی پر براجمان رہ سکتا ہے۔ بالعموم ایسا ہی ہوتا دکھائی بھی دیا۔ پاکستان کی 77 سالہ تاریخ میں تیس برسوں سے زائد عرصے میں فوج حکومت کرتی رہی ہے، چنانچہ سیاسی عمل اور سول ادارے اپنی معنویت کھو بیٹھے اور ’اُوپر‘ سے اشارے کی عادت پڑ گئی ہے۔ 2018ء اور 2024ء کے اِنتخابات اور سیاسی معاملات میں ریاستی اداروں کی طرف سے بدترین مداخلت ہوئی جس میں فوج اور عدلیہ کا ذکر تسلسل سے آ رہا ہے۔ اِن واقعات میں یہ بدقسمتی دیکھنے میں آئی کہ فوج کے طاقت ور اِدارے نے جس سیاسی شخصیت کو ملکی مفاد میں برسرِاقتدار لانا ضروری سمجھا، اُسے منصبِ جلیلہ عطا بھی کر دیا، لیکن اب وہی شخص فوجی قیادت اور اِدارے کی کردارکشی پر تُلا ہوا ہے اور لابنگ کے ذریعے بطورِ خاص امریکہ اور برطانیہ میں پاکستانی فوج کا امیج ایک بدمعاش (Rogue) فوج کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ اِس کے علاوہ پاکستان کے اندر فوج اور عوام کے درمیان بداعتمادی پیدا کرنے کی بھرپور کوشش کی جا رہی ہے۔ اِس کوشش میں ڈیجیٹل دہشت گردی کلیدی کردار اَدا کر رہی ہے جس پر کسی کو مکمل کنٹرول حاصل نہیں جس کے ملکی سلامتی اور فوجی سالمیت پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔

ڈی جی آئی ایس پی آر نے اِس خطرناک صورتِ حال کا ذمےدار قانونی، عدالتی نظام اور سول حکومت کو قرار دِیا ہے۔ اپنی پریس کانفرنس میں کہا کہ 9 مئی کے مجرموں اور سہولت کاروں کو اگر قانونی گرفت میں نہیں لایا جاتا، تو فسطائیت پھیل جائے گی اور بدامنی اور اَنارکی پر قابو پانا محال ہو جائے گا۔ اسمگلروں اور قانون شکنوں کی روک تھام صوبائی حکومتوں کی ذمےداری ہے۔ اُنہیں اِس طرف پوری توجہ دینا ہو گی۔ اِسی طرح غلط اطلاعات کی روک تھام کے لیے ایک مؤثر نظام قائم کرنا ہو گا۔ اِس کے علاوہ اُنہوں نے اِس امر کی بڑی تفصیل سے وضاحت کی کہ عزمِ استحکام فوجی آپریشن ہرگز نہیں بلکہ دہشت گردی کے خلاف ایک مربوط مہم ہے جس کی تمام سیاسی جماعتوں اور معاشرے کے طاقت ور طبقوں کو حمایت کرنی چاہیے، کیونکہ اِس کی کامیابی پر پورے پاکستان کی کامیابی کا دارومدار ہے۔ اُن کے عزم اور قوتِ ارادی سے وقتی طور پر ایک اچھا تاثر قائم ہوا، مگر اصل ضرورت دانش مندی اور بالغ نظری سے عوام کے اندر اِعتماد کو پختہ کرنا، سول اداروں کے تعاون سے قابلِ عمل لائحہ عمل وضع کرنا اور اُس پر عمل درآمد کو یقینی بنانا ہے۔ باہمی اعتماد کو اِسی صورت فروغ دیا جا سکتا ہے کہ فوج اقتدار کے معاملات سے حقیقی معنوں میں دستبردار ہو جائے اور اَخراجات میں کمی کی نہایت اچھی مثال قائم کی جائے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ عوام بدگمانیوں میں مبتلا ہونے کے بجائے فوج کے ساتھ مثالی تعاون کریں اور قومی یک جہتی کا ثبوت دیں۔

بشکریہ روزنامہ جنگ