اسلام آباد(صباح نیوز)سپریم کورٹ آف پاکستان نے قومی اسمبلی کے تین اور پنجاب اسمبلی کے ایک حلقہ میں دوبارہ گنتی کے حوالے سے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلوں کے خلاف دائر درخواستوں پر فریقین کے وکلاء کے دلائل مکمل ہونے پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔جبکہ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے ہیں کہ کیا دوبارہ گنتی کے لئے 5فیصد سے کم ووٹوں کا مارجن، 8ہزار سے کم ووٹوں کا فرق ہی کافی ہے یا کچھ اوربھی کہناچاہیئے۔ کیا یہ ریٹرننگ آفیسر کی صوابدید ہے کہ وہ دوبارہ گنتی کی درخواست مسترد کردے۔
جبکہ جسٹس عقیل احمد عباسی نے ریمارکس دیئے ہیں کہ اگر کوئی امیدوار پورے حلقہ میں دوبارہ گنتی کی درخواست دے دے، کیا یہ درخواست مبہم نہیں ہے۔ ہم الیکشن ٹربیونل کے فیصلہ کے خلاف اپیل نہیں سن رہے وگرنہ ہم سب کچھ سن سکتے تھے۔ انتخابات سے قبل الیکشن کمیشن کے پاس بہت زیادہ اختیارات ہیں اور عدالتوں کے دائرہ اختیار میں انتخابات سے قبل کے معاملات نہیں آتے،انتخابات سے قبل 100کے قریب درخواستیں سندھ ہائی کورٹ میں دائر ہوئیں اور ہم نے قانون دیکھنے کے بعد ان درخواستوں کو خارج کردیا۔چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس نعیم اخترافغان اور جسٹس عقیل احمد عباسی پر مشتمل 3رکنی بینچ نے جمعہ کے روز پاکستا ن مسلم لیگ (ن)کے رہنمائوں عبدالرحمان خان کانجو، چوہدری ذولفقاراحمد بھنڈر، چوہدری اظہر قیوم ناہرا اوررانا محمدارشد کی جانب سے قومی اسمبلی اور پنجاب اسمبلی کے حلقوں این اے 154لودھراں، این اے 81اوراین اے 79گوجرانوالہ اور پی پی 133ننکانہ صاحب میںدوبارہ گنتی کے معاملہ پر لاہور ہائی کورٹ کے فیصلوں کے خلاف دائر درخواستوں پر سماعت کی۔ درخواستوں میں الیکشن کمیشن آف پاکستان، رانا محمد فراز خان نون، چوہدری بلال اعجاز ،میاں محمد عاطف اوردیگر کوفریق بنایا گیا ہے۔پی پی 133ننکانہ صاحب سے انتخابات میں حصہ لینے والے (ن)لیگی امیدوار رانا محمد ارشد کے وکیل تیمور اسلم خان ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ19اپریل کو لاہور ہائی کورٹ میں دوبارہ گنتی کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر ہوئی۔
چیف جسٹس کاکہناتھا کہ کیا سارے آرڈرز ایک ہی جج نے کئے۔ اس پر وکیل کاکہناتھا کہ سارے آرڈرز ایک ہی جج نے کئے۔ جسٹس عقیل احمد عباسی کاکہنا تھا کہ کیاجس وقت الیکشن کمیشن نے آرڈر پاس کیا تواُس وقت الیکشن ٹربیونل بن گئے تھے۔ اس پر وکیل کاکہناتھاکہ 20فروری2024کو ٹربیونل بن گئے تھے۔ جسٹس عقیل احمد عباسی کاکہنا تھا کہ انتخابات سے قبل الیکشن کمیشن کے پاس بہت زیادہ اختیارات ہیں اور عدالتوں کے دائرہ اختیار میں انتخابات سے قبل کے معاملات نہیں آتے، انتخابات سے قبل100کے قریب درخواستیں سندھ ہائی کورٹ میں دائر ہوئیں اور ہم نے قانون دیکھنے کے بعد ان درخواستوں کو خارج کردیا۔ جسٹس عقیل احمد عباسی کاکہناتھا کہ الیکشن کے بعد معاملات الیکشن ٹربیونلز میں جاتے ہیں، ہم دوبارہ گنتی تک محدود ہیں، فورم کیا ہونا چاہیئے اورکیا دوبارہ گنتی کے حوالہ سے شرائط پوری کررہے تھے۔جسٹس عقیل احمد عباسی کاکہنا تھا کہ ہم الیکشن ٹربیونل کے فیصلہ کے خلاف اپیل نہیں سن رہے وگرنہ ہم سب کچھ سن سکتے تھے۔ وکیل کاکہنا تھا کہ یہ کہنا غلط ہو گا کہ بے ضابطگیوں پر الیکشن کمیشن آف پاکستان اپنی آنکھیں بند کر لے اور ریٹرننگ آفیسر کے نتیجہ کی توسیق کردے۔ وکیل کاکہنا تھا کہ میں تحریری دلائل بھی جمع کروادوں گا۔اس کے بعد مدعا علیہ کے وکیل توفیق آصف ایڈووکیٹ نے پیش ہوکربتایا کہ میں نے تحریری معروضات جمع کروادی ہیں۔ اس پر بینچ کا کہنا تھا کہ ابھی تحریری جواب ہمارے سامنے نہیں آیا۔ توقیق آصف کاکہنا تھا کہ میں دوبارہ جمع کروادوں گا۔ توفیق آصف کاکہناتھا کہ الیکشن کمیشن نے نتیجہ تیار ہونے کے 50روز مخالف امیدوار کی کامیابی کانوٹیفیکیشن جاری ہوا، ہم نے الیکشن کمیشن کاآرڈ چیلنج نہیں کیا بلکہ حتمی حکم چیلنج کیا ہے۔چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ کیا سب وکلاء کے دلائل ختم ہوگئے، الیکشن کمیشن کو کچھ کہنا ہے ، ہم فیصلہ محفوظ کررہے ہیں۔ اس پر کمرہ عدالت میں موجود ڈائریکٹر جنرل لاء الیکشن کمیشن محمد ارشدنے پیش ہوکربتایا کہ وہ الیکشن کمیشن کے فیصلوں کی حمایت کرتے ہیں اور لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کی مخالفت کرتے ہیں۔ جسٹس عقیل احمد عباسی کاکہنا تھا کہ ٹربیونل کے پاس جو اختیارات ہیں وہ الیکشن کمیشن کے پاس بھی رہتے ہیں ، کیا ٹربیونل کے پاس معاملات نہیں جانے چاہیں۔ڈی جی لاء الیکشن کمیشن کاکہنا تھا کہ اگر الیکشن ٹربیونل کے پاس معاملہ چلا جائے توپھر ہمارااختیار نہیں رہتا۔ محمد ارشدکاکہناتھا کہ آئین کے آرٹیکل 218-3کی شرائط کوپورا کرنے کے لئے ہم نے آرڈر جاری کیے، یہ آرڈر کسی کے خلاف نہیں۔چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ دوبارہ گنتی کے لئے 5فیصد سے کم کا مارجن، 8ہزار سے کم ووٹوں کا فرق ہی کافی ہے یا کچھ اوربھی کہناچاہیئے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ کیا یہ ریٹرننگ آفیسر کی صوابدید ہے کہ وہ دوبارہ گنتی کی درخواست مسترد کردے۔ جسٹس عقیل احمد عباسی کاکہناتھا کہ اگر کوئی امیدوار پورے حلقہ میں دوبارہ گنتی کی درخواست دے دے، کیا یہ درخواست مبہم نہیں ہے۔ ڈی جی لاء الیکشن کمیشن کاکہنا تھا دوبارہ گنتی کے بعد 3ہارنے والے امیدواروں کو کامیاب قراردیا گیاہے ، سپریم کورٹ کا فیصلہ ہے کہ اگر دوبارہ گنتی میں مخالف امیدوار جیت جائے تواس کے بعد ہارنے والے امیدوار کو الیکشن ٹربیونل جانا چاہیئے۔ اس دوران رانا فراز خان نون کے وکیل سینیٹر حامد خان ایڈووکیٹ نے پیش ہوکربتایا کہ میں نے درخواست کرنا تھی،میں نے 8جولائی کوتحریری جواب جمع کروایا تھا تاہم اس کے حوالہ سے عدالتی آرڈر میں ذکر نہیںکیا گیا۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ہم اسے دیکھ لیں گے۔ چیف جسٹس کاحکم لکھواتے ہوئے کہنا تھا کہ فریقین کے دلائل مکمل ہونے پر ہم فیصلہ محفوظ کررہے ہیں۔ دوران سماعت تیموراسلم خان، توفیق آصف اور الیکشن کمیشن کے نمائندے نے دلائل دیئے۔ چیف جسٹس نے عدالتی عملے کوہدایت کی کہ جوبھی جواب جمع ہوئے ہیں انہیں نمبر لگادیا جائے۔ ZS