کبھی کے دن بڑے کبھی کی راتیں : تحریر کشور ناہید


یاد ہے کل رسول اکرم ۖنے منع فرمایا تھا کہ لڑکیوں کو زندہ نہ دفن کرو اور آج سندھ میں ڈیڑھ سال کی بچی کو زندہ دفن کرنے والے با پ نے جواز پیش کیا کہ اس کی دوائی کے پیسے نہیں تھے۔

یاد ہے کل جب سعودی شہزادے کو عمران خان خود گاڑی چلا کر ائیر پورٹ سے پی ایم ہاؤس لائے تھے۔اور آج وزیر اعظم شہباز کو گورنر سندھ جو کل تک ایم ۔کیو ۔ایم کے ساتھ کھڑے تھے۔ وہ سارا دن وزیر اعظم کے ساتھ خوش گپیاں کرتے رہے ۔

یادہے کل ایران میں مہسہ ا مینی ،جو 17 سال کی تھی، کو سر نہ ڈھکنے کی بنا پر اتنا مارا کہ وہ جانبر نہ ہو سکی۔اور آج ایران میں رجعت پسندی کو پیچھے چھوڑ کر اصلاح پسند مسعود پیزشکیان جو کہ ٹول میکر کا بیٹا اور خود ہارٹ سرجن ہے ایران کا صدر منتخب ہوا ہے اور وہ پہلا ایرانی صدر ہے جو بیگم کے ساتھ تصویر اتروا رہا ہے اور لوگ بہتر انسانی ماحول کی امید رکھتے ہیں۔

یاد ہے 15برس تک برطانیہ کی حکومت کنزریٹو چلاتے رہے اور یورپین یونین سے الگ ہو گئے۔ ملک کے معاشی حالات بگڑتے رہے ۔ نفرتیں بڑھتی رہیں اور آج لیبر پارٹی بھاری اکثریت نے منتخب ہو کر ایک ہی دن میں بادشاہ سے اجازت لے کر پہلے عوام سے خطاب کیا اور اسی دن کابینہ بنائی، اس کا اجلاس کیا۔آج تک پاکستان میں کابینہ میں ہر روز ایک دو افراد شامل ہوتے رہتیہیں۔ جب کہ کئی محکمے سادگی کا کہہ کر بند کیے جا رہے ہیں۔

یادہے کل سے آج تک برطانیہ کی حکومت میں کل 215گاڑیاں ہیں۔ پاکستان میںآج سادگی سادگی کا کہہ کر ڈیڑھ لاکھ گاڑیاں ہیں جو سرکاری ہیں۔

یاد ہے 76برس سے اعلان ہو رہا ہے کہ ہم ملک سے اندھیرے مٹا ئیں گے اور یہ بھی ہر حکومت کہتی چلی آئی ہے کہ ہم بہت مشکل دور سے گزر رہے ہیں۔ اور آج ٹیکنو کریٹ وزیر خزانہ قوم کو ڈرا رہے ہیں کہ بجلی کے بلوں پر شور مت مچاؤ ورنہ آئی۔ ایم ۔ ایف ناراض ہو کر اگلی قسط نہیں دے گا۔ آج بھی مریم بی بی کہے جا رہی ہیں کہ دو سو یونٹ بجلی خرچ کرنے والوںکوہم مفت سولر سسٹم دینگے۔ شاید کبھی یہ بھی سچ ہو جائے مگر ابھی تک محض اعلان پہ ہی کامیابی کے اشتہار اخباروں میں مل جاتے ہیں۔

یاد ہے کل جب نواز شریف کی حکومت تھی تو بہت سے نئے محکمے بنائے اور لوگ رکھے گئے تھے۔ وزیر خزانہ کہتے ہیں۔ اپنا ٹیکس دے کر اپنا ملک چلائیں اور آج بہت سے محکمے ختم کئے جا رہے ہیں۔ وزیر اعظم سول سروس سے بہت ناراض ہیں اور ان کی تعداد کم کر کے احد چیمہ کی پلاننگ کو آگیبڑھا رہے ہیں۔ اور کل یہی صاحب ڈھائی سال جیل میں بلا کسی جرم (بظاہر) قید رہے ہیں۔

یاد ہے ایک زمانے میں عالم لوگوں سے فیملی پلاننگ پر کتابیں لکھوائی جاتی تھیں، جب کہ آج پانچ برس میں7ارب آبادی بڑھی ہے۔ ہم 146 بڑی آبادی کے ملکوں میں145نمبر پر ہیں۔یاد ہے 124 ارب ڈالر کے مقروض ملک میں کروڑوں کی گاڑیوں میں کبھی وزیر اعلی کبھی کمشنر ٹماٹر اور پیاز کی قیمت چیک کرنے جاتے ہیں ۔ٹی وی پر شو لگاتے ہیں اور کل اتوار بازار میں دیہات سے آئی عورتیں بہت کم قیمت پر چھیلا ہوا لہسن اور ہاتھ سے کٹی مرچیں بیچتی تھیں۔

یاد ہے جب سیاحت کیلئے اشتہاری مہم نہیں تھی۔ اس وقت لوگ شمالی علاقوں میں ٹینٹ کرائے پر لیکر مزے کرتے تھے۔ اوراب جب بڑے بڑے سیاحت کے محکمے اور بھاری کرائے والے کمرے ہیں ہر روز ایک یا دو بس اور گاڑی گڑھوں میں گر کر، دس بارہ بندوں کے وفات پانے کی اندوہناک خبریں سنتے ہیں۔

یاد ہے میلہ چراغاں ہو کہ بابا خواجہ فرید کا عرس اور بہشتی دروازے کا کھلنا، عورت اور مرد الگ الگ خانوں میں تقسیم نہیں ہوتے تھے۔ ہم سب بلھے شاہ کے مزار سے لے کر ہر عرس اور ہر مزار پر عقیدت سے فاتحہ پڑھنے جاتے تھے۔ میرے ساتھ میرے بیٹے اور شوہر بھی ہوتے تھے اور آج مزاروںمیں عورتوں کا داخلہ ممنوع ۔ داتا صاحب اور بی بی پاک دامن میں بھی عورتوں کیلئے الگ خانے بنا دیئے گئے ہیں مگر یہ صرف پنجاب کی وزارت اوقاف کے کارنامیہیں۔ وزیر اعلی پنجاب یہ حکم بدلیں۔

یاد ہے کل تک چاند دیکھنے کی چھوٹی سی کمیٹی ہوتی تھی۔ جو دوربین سے چاند کی تلاش کرتی تھی،اب ہر صوبے کی کمیٹی میںلا تعداد حضرات ہیں اور لطف کی بات یہ ہے کہ صوبے بدل بدل کرچاند دیکھنے کی میٹنگ کرتے ہیںجس میں سائنس اور موسمیات کے ماہرین کوصرف چہرہ دکھانے کو بلایا جاتا ہے۔ آج کیا پچاس برس سے چاند پر جا رہے ہیں۔ سائنس دان بتاتے ہیں کہ کتنے گھنٹوں کا چاند انسانی آنکھ سے نظر آ سکتا ہے۔ تو پھر ہم یہ محکمہ بھی پی ۔ ڈبلیو۔ ڈی کی طرح بند کر کے سادگی اپنا سکتے ہیں۔

یاد ہے کل تک شاتم رسول کہہ کر لوگ خود ہی گناہ کرنے والے کو بوٹی بوٹی کر کے خود کو زندہ باد کہتے رہے ہیں۔ مگر جڑانوالہ میں تو مسیحیوں کے گھر اور گرجا جلائے گئے او راس کی سزاکیلئیوہ بھی پھانسی دینے کو ایک مسیحی نوجوان کو سزادی گئی ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں شور مچاتی رہیں۔

یاد ہے ہر حکومت تعلیم اور صحت کیلئے خصوصی فنڈ رکھنے کا کہتی ہے اور آج ابھی تک 2کروڑ 60لاکھ بچے اسکولوں میں نہیں ہیں۔4 ملین نوجوان نوکری کیلئے بھٹک رہے ہیں۔ آج اسمبلی ممبران کی مراعات بڑھائی جا رہی ہیں۔ جبکہ 10کروڑ لوگ خط غربت سے نیچے ہیں اور رات ختم نہیں ہورہی ۔

بشکریہ روزنامہ جنگ