سندھ کے وزیراعلیٰ مراد علی شاہ کو یہ کریڈٹ ضرور جاتا ہے کہ وہ کوئی تقریر یا گفتگو مکمل تیاری کے ساتھ کرتے ہیں۔ یہ بات میں نہیں خود سب سے بڑے اپوزیشن لیڈر اور سابق وزیراعظم عمران خان نے ایک بار یہ کہتے ہوئے بتائی تھی کہ میں پنجاب اور کے پی کے وزرائے اعلیٰ سے کہتا ہوں کہ ’تیاری شاہ صاحب ‘ جیسی کیا کرو۔ البتہ ان سے اختلاف کی گنجائش موجود رہتی ہے۔ حال ہی میں انہوں نے اپنے صوبے کی 15 سالہ کارکردگی کی ایک رپورٹ کوئی ڈیڑھ گھنٹے کی تفصیلی بریفنگ میں پیش کی۔ جس کارکردگی کا نقشہ شاہ صاحب نے پیش کیا وہ سب کا سب یا 60-70 فیصد بھی درست ہے تو اس کے معنی یہ ہوئے کہ اب صوبہ پسماندہ نہیں رہا تعلیم، صحت، امن وامان، پانی اور ٹرانسپورٹ، سڑکوں کے معاملات خاصی حد تک حل ہوچکے ہیں۔ توکیا یہ امید کی جاسکتی ہے کہ اب ہماری حکمران اشرافیہ اپنے بچوں کو یہاں کے تعلیمی اداروں میں تعلیم دلوائے گی اور علاج کیلئے بیرون ملک جانے کی ضرورت نہیں رہےگی۔
شاہ صاحب نے سندھ کی ایک بہت خوبصورت تصویر پیش کی ہے۔ میں کوشش کروں گا کہ دیہی سندھ میں جاکر اس پر تفصیلی گفتگو کروں لیکن ہمارے جو صحافی ان علاقوں میں رہتے اور رپورٹنگ کرتے ہیں وہ بہتر طور پر تصدیق یا تردید کرسکتے ہیں…میں سکھر، حیدرآباد اور کراچی کی حد تک تو بات کرسکتا ہوں دیگر شہروں کے بارے میں پھر کبھی، البتہ تھر کے بارے میں وہاں کے مقامی لوگوں سے ضرور سنا ہے کہ ماضی کے مقابلے میں کم از کم سڑکیں بہت بہتر ہوئی ہیں تاہم پچھلے سال تک کراچی سے سکھر کی سڑکوں کی صورتحال بہت بہتر نہیں تھی۔ سچ پوچھیں تو مجھے سکھر کے نوجوان میر ارسلان شیخ نے یقین دلایا کہ آئندہ اس شہر کا نقشہ بہت بدلا ہوا ملے گا۔ ویسے حقیقت تو یہ ہے، اگر صوبہ کے بلدیاتی ادارے اور مقامی حکومتوں کا قیام مکمل انتظامی، مالی اور سیاسی اختیارات کےساتھ خود18ویں ترمیم کے مطابق ہو اور وہ بھی پورے ملک میں توہمارے وزرائے اعلیٰ کواپنے اپنے صوبےکا نہ وژن پیش کرنے کی ضرورت ہو اور نہ ہی آئے دن سڑکوں پر گھومنے کی۔ یہ بنیادی ذمہ داری ہوتی ہی مئیر کی ہے ۔اب اسکا کوئی کیا کرے پاکستان کے سب سے بڑے شہر کےمئیر خود صوبائی حکومت کےترجمان بھی ہیں۔
شاہ صاحب کی بریفنگ کا زیادہ زور ’پبلک۔ پرائیویٹ پارٹنر شپ‘پررہا۔ سوال یہ ہے کہ ان تین ادوار میں صوبہ میں کتنی نئی انڈسٹری لگی جو ظاہر ہے مستقل روزگار کا ایک ذریعہ بنتی ۔اسی طرح نئی جامعات کا ذکر کیا جو ایک مثبت پہلو ہے مگر شاہ صاحب جن اسکولوں اور کالجوں میں ہم نے اور آپ نے تعلیم حاصل کی کبھی اس طرف بھی کوئی توجہ دیجئے۔ اگر تعلیم کے میدان میں ہم آگے بڑھے ہیں تو پورے ملک میں ڈھائی کروڑ میں سے صوبہ میں50لاکھ سے زائد بچے جو اسکول جانے کی عمر کو پہنچ گئے ہیں وہ اسکول کیوں نہیں جارہے۔
البتہ صحت کے معاملے میں یقینی طور پر بہت سے قابل تحسین اقدامات ہوئے ہیں جن میںSIUT، انڈس اسپتال کی مالی معاونت، بچوں کا اسپتال، دل کے مریضوں کیلئے نہ صرفNIVCDبلکہ تمام اضلاع میں موبائل سروس کے علاوہ ایک اعلیٰ معیار کا ٹراما سینٹر مگر چاروں بڑے سرکاری اسپتالوں کی حالت اچھی خاصی خراب ہے خاص طور پر عباسی شہید، لیاری جنرل اسپتال اور خود سول اور جناح کے پرائیویٹ اور جنرل وارڈ… اس میں کوئی شک نہیں کہ گمبٹ اسپتال ایک مثالی اسپتال ہے مگر کیاحیدرآباد اور لاڑکانہ میں کوئی معیاری اسپتال ہے۔ اگر ایسا ہوتاتو حال ہی میں حیدرآباد کے علاقہ پریٹ آباد میں27افراد جن میں19بچے شامل تھے زندہ نہ جل مرتے جن میں بیشتر اچھا برنس وارڈ یا برنس اسپتال نہ ہونے کی وجہ سے زندگی کی بازی ہارگئے۔
اگر میں نے کہیں مس کردیا ہو تو معذرت خواہ ہوں مگر سیاحت کے شعبہ میں مالا مال سندھ کی کارکردگی مایوس کن ہے۔تاریخی مقامات تواپنی جگہ آج تک ہم گورکھ ہل، جیسی جگہ جہاں سال کے بیشتر مہینوں میں سردی رہتی ہے،وہاں تک جانے والے راستوں کو ہی بہتر نہ بناپائے۔سندھ میں بمشکل آپ کو اعلیٰ معیار کے3اسٹار یا4اسٹار ہوٹل ملیں گے۔ اچھا ہوتا اگریہ بھی بتایا جائے کہ15سال میں کتنے سیاح ان مقامات پر آئے۔ ہم تو حیدرآباد کے نیاز اسٹیڈیم اور رانی باغ کو بہترنہ کرسکے ۔اب آتے ہیں سب سے اہم موضوع کی طرف اور وہ ہے ’امن وامان‘ جس کا گہرا تعلق کسی بھی شہر اور صوبہ کی ترقی سے جڑا ہے۔ ان تین ادوار میں ہم اپنی پولیس کواس قابل بھی نہ بنا پائے کہ1989سے کراچی میں موجود رینجرز کوواپس بھیجا جاسکے آج بھی لوگ پولیس اسٹیشن شکایت درج کرانےکیلئے خوف زدہ ہوتے ہیں۔ دیہی سندھ میں کچے ڈاکو اور شہری سندھ میں اسٹریٹ کرمنلز کا راج نظر آتا ہے۔ سیف سٹی پروجیکٹ جوشاید اس شہر میں سب سے پہلے لگانا چاہئے تھاآج بھی کئی گنا زیادہ لاگت سے اب تک ابتدائی مرحلے میں ہی ہے۔
صوبہ اور خاص طور پر کراچی جو ملک کی معیشت کا انجن ہے آبادی کے بوجھ تلے دبا ہے جس کی وجہ سے پانی، بجلی ، ٹرانسپورٹ کے مسائل بڑھتےہی چلے جارہےہیںاورامن وامان کی صورتحال مزید ابتر ہونے کا خطرہ ہے۔ حال ہی میں اے سی والی چند سوبسوں کے آنےسےلوگوں کو خاص طور پر مڈل کلاس کو کچھ آرام تو نصیب ہوا ہے مگر ڈرتا ہوں چند سال بعد یہ بند نہ ہوجائیں ماضی کی طرح۔ میں خود90کی دہائی میں ایسی ہی ایک کوچ میں گلشن اقبال سے اخبار کے دفتر جاتا تھا کوچ اب بھی چل رہی ہے مگر بنا اے سی۔
یہ سارا ’سندھ وژن ‘ سمیٹ کر لے آتا سب سے اہم ترین سوال کی طرف اور وہ ہے ’ اچھی گورننس کا فقدان‘ جس کی وجہ سے سندھ میں کسی ایک ڈپارٹمنٹ کی مثال نہیں دی جاسکتی جہاں انتہا کی کرپشن اورکمیشن نہ ہو، مافیا کا راج نہ ہو۔ سندھ میں کسی بھی پروجیکٹ کے وقت پر مکمل نہ ہونے کا تعلق بھی گورننس سے ہے۔ انتہا تویہ ہے کہ خود انسداد کرپشن ڈپارٹمنٹ کی حالت زار بھی بس نہ ہی پوچھیں اس میں اگرہم ناکام ہیں تو سوال بنتا ہے صوبہ کے انتظامی سربراہ سے۔ بلاول بھٹو صاحب نیب کوختم کرنا چاہتے ہیں ضرور کروائیں کیونکہ وہ صرف سیاستدانوں کو نشانہ بناتا ہے مگر کیا ان کی سندھ حکومت نے کرپشن اور کمیشن کی اس بیماری کو ختم کرنےکیلئے کوئی اقدامات کئے ہیں تو مراد علی شاہ ضرور بتائیں۔ نہیں تو آئندہ چار سال کےاہداف ہی طے کرلیں۔ بورڈ آف ریونیو شاید صوبہ کا سب سے کرپٹ ادارہ ہے جہاں برسوں سے وہی افسران بیٹھے ہیں۔
البتہ سندھ میں پچھلے طوفان کی تباہی کے بعد 21ملین مکانات کی تعمیر کامنصوبہ ایک مثبت سمت کی جانب اقدام ہے۔سوباتوں کی ایک بات اگر صوبہ میں ’میرٹ‘ کو ہی قتل کرکے دفن کردیاجائےاور نااہل افسران پر مشتمل ایک فوج ظفر موج کھڑی کردی جائے تو ’وژن سندھ‘ کیسے میرے صوبے کو خوشحال بنا سکتا ہے جس کو قیام پاکستان سے لے کر آج تک ترقی پسند سوچ رکھنے کی سزا کبھی ون یونٹ کی شکل میں دی گئی، کبھی لسانی سیاست کی صورت میں توکبھی نا اہلی کی صورت میں۔
بشکریہ روزنامہ جنگ