الیکشن کمیشن آف پاکستان کاکام ہے شفاف الیکشن کروائیں،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

اسلام آباد(صباح نیوز)چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ الیکشن کروانے بیٹھ گئے ہیں، کبھی کبھی عدالتیں بھی زیادہ آگے چلی جاتی ہیں، الیکشن کمیشن آف پاکستان کاکام ہے شفاف الیکشن کروائیں، دوبارہ گنتی کروائیں، آر اونے دوبارہ گنتی کا فیصلہ کرنا تھا نہیں کیا، الیکشن کمیشن نے کردیا،

الیکشن کمیشن ایسے ہی آئینی ادارہ ہے جیسے سپریم کورٹ آف پاکستان آئینی ادارہ ہے، کیا قیامت برپا ہوگی اگر الیکشن کے ڈبے کھل جائیں، الیکشن پراسیس کھلنے سے کیوں اتنے خوفزدہ  ہوجاتے ہیں، ایک آئینی ادارے کاکام ہے بار، بار کیوں ہم اس میں کیوں مداخلت کررہے ہیں، اتنے دنوں سے کیس سن رہے ہیں، امن وامان کی صورتحال پیداہوگئی، ماشااللہ!۔ ریٹرننگ آفیسر دوبارہ گنتی کروانے کی ذمہ داری پوری نہیں کرتے تونتائج تیار کرنے کی دوسری ذمہ داری اداکرسکتے ہیں، یاتوکہیں کہ سب کچھ مفلوج ہوگیا اورکچھ ہوہی نہیں سکتا۔ دوبارہ گنتی بھی الیکشن پراسیس میں شامل ہے، دوشرائط ہیں ریٹرننگ آفیسر دوبارہ گنتی کروائے گااس کے بعد الیکشن پراسیس مکمل ہو گا،

الیکشنز ایکٹ 2017کا سیکشن 95-5بھی الیکشن پراسیس میں شامل ہے۔ آخر کاردیکھنا ہے کہ الیکشن شفاف ہوا، ووٹ کس کے ڈبے میں گئے، دوبارہ گنتی ہوجائے گی، سارے پولنگ اسٹیشنوں پر دوبارہ گنتی کروالیں، دوبارہ گنتی سے آپ کو نقصان کیا پہنچا ہے۔ ڈبے کھولو بس ختم، دوبارہ گن لو ، پاکستان میں ہرچیز پیچیدہ بنادی جاتی ہے، پارلیمان نے دومرتبہ دوبارہ گنتی کے معاملے پرترمیم کی۔ قانون کایہ اصول ہے کہ جب زیادہ سے زیادہ اختیار ہوتاہے توپھر تھوڑا اختیار بھی ہوتا ہے، الیکشن کمیشن جب الیکشن کوکالعدم قراردے سکتا ہے تودوبارہ گنتی کاحکم بھی دے سکتا ہے، ہم جب فیصلے کرتے ہیں تو ہمیں بہت سی چیزیں دیکھنا ہوتی ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ جو جیتا ہے وہ کبھی نہیں چاہے گا کہ دوبارہ گنتی ہو اورامن وامان کی صورتحال پیدا کرکے اس کادروازہ کھول دے گا۔

یہ الیکشن لڑنے والے امیدوارکی صوابدید ہے کہ وہ کسی مخصوص یاسارے پولنگ اسٹیشنوں پر دوبارہ گنتی کروانا چاہتا ہے، یہ آراوکے پاس اختیار نہیں بلکہ ہارے ہوئے امیدوار کے پاس اختیار ہے کہ وہ کتنے پولنگ اسٹیشنوںپر دوبارہ گنتی کروانا چاہتا ہے،آراوکون سامفہوم دیکھے گا، اُس کوشکل پسند نہیں۔مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر نے آئین معطل کردیا، اس کی دادرسی یہ ہے کہ یہ کام نہ کرو، یہ تونہیں کہ قانون توڑ دواورپھر ڈیو پراسیس مانگو۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس نعیم اخترافغان اور جسٹس عقیل احمد عباسی پر مشتمل 3رکنی بینچ نے سوموار کے روز پاکستا ن مسلم لیگ(ن) کے رہنمائوں عبدالرحمان خان کانجو، چوہدری ذولفقاراحمد بھنڈر، چوہدری اظہر قیوم ناہرا اوررانا محمدارشد کی جانب سے قومی اسمبلی اور پنجاب اسمبلی کے حلقوں این اے 154لودھراں، این اے 81اوراین اے 79گوجرانوالہ اور پی پی 133ننکانہ صاحب میںدوبارہ گنتی کے معاملہ پر لاہور ہائی کورٹ کے فیصلوں کے خلاف دائر درخواستوں پر سماعت کی۔

درخواستوں میں الیکشن کمیشن آف پاکستان بوساطت چیف الیکشن کمشنر، رانا محمد فراز خان نون، چوہدری بلال اعجاز ،محمد عاطف اوردیگر کوفریق بنایا گیا ہے۔سماعت کے آغاز پر رانا فرازخان نون کے وکیل سینیٹر حامد خان ایڈووکیٹ نے روسٹرم پر آکربتایا کہ وہ اپنے تحریری دلائل بھی جمع کروانا چاہتے ہیں ہیں۔اس پر چیف جسٹس کا کہناتھا کہ موسٹ ویلکم ، جمع کروادیں۔ این اے 81گوجرانوالہ میں الیکشن ہارنے والے (ن)لیگی امیدوار اظہر قیوم ناہراکے وکیل چوہدری محمد احسن بھون کا دلائل دیتے ہوئے کہنا تھا کہ میں عبدالرحمان کانجو کے وکیل صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن بیرسٹر محمد شہزادشوکت کے دلائل اپنا رہا ہوں اوراپنے دلائل بھی دوں گا۔

احسن بھون کاکہنا تھا کہ میرے مئوکل نے انتخابات میں ہونے والی بے قائدگیوں کے حوالے سے الیکشن کے روز ہی ریٹرننگ آفیسر کودرخواست جو کہ وصول کی گئی۔احسن بھون کا کہناتھا کہ مخالف امیدوار چوہدری بلال اعجاز نے ایک لاکھ 17ہزار 717ووٹ حاصل کئے جبکہ درخواست گزار نے ایک لاکھ 9ہزار926ووٹ حاصل کئے، میرے مئوکل 7781ووٹوں سے ہارے۔ چیف جسٹس کا کہناتھا کہ سینئر وکلاء کی معاونت جونیئر وکلاء کرتے ہیں توپھر کوئی بھی کام نہیں کرتا۔ احسن بھون کاکہنا تھا کہ ان کے مئوکل نے انتخابات کے اگلے روز قانون کے مطابق دوبارہ گنتی کی درخواست دی جسے ریٹرننگ آفیسر کی جانب سے مسترد کردیا گیا۔

چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ پہلی بات ہم نے تعین کرنا کہ الیکشنز ایکٹ 2017کے سیکشن 95-5کے تحت اختیارہوتا ہے کہ نہیں، ریٹرننگ آفیسر دوباتیں کہہ سکتا ہے ایک یہ کہ نتائج تیار ہوگئے اورآپ تاخیر سے آئے اوردوسرا یہ کہ 5فیصد سے کم فرق نہیں، اُس کی عقل کی بات تونہیں۔ احسن بھون کاکہناتھا کہ آراونے لکھاکہ بلوہ آگیا تھا اس لئے دوبارہ گنتی نہیں کرواسکا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ میں سمجھتا ہوں کہ جو جیتا ہے وہ کبھی نہیں چاہے گا کہ دوبارہ گنتی ہو اورامن وامان کی صورتحال پیدا کرکے اس کادروازہ کھول دے گا۔احسن بھون کا کہنا تھا کہ 9فروری کو فارم 47پر ابتدائی نتیجہ تیار ہوا، فارم 48، 11فروری کو جاری ہوا اورحتمی نتیجہ فارم 49پر 11فروری کوجاری ہوا۔

جسٹس نعیم اخترافغان کاکہنا تھا کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے درخواست گزار کی دوبارہ گنتی کی اپیل منظورکی۔احسن بھون کاکہناتھا کہ میں دوبارہ گنتی کے بعد ریٹرننگ امیدوار نوٹیفائی ہوگیا، لاہورہائی کورٹ نے آئین کے آرٹیکل 199کے تحت دائرہ اختیاراستعمال کرتے ہوئے میرے انتخاب کو کالعدم قراردے دیا۔ احسن بھون کا کہنا تھا کہ تمام امیدواروں کو دوبارہ گنتی کانوٹس جاری ہوا ، میرے مئوکل نے دوبارہ گنتی میں 1لاکھ 10ہزار 51ووٹ حاصل کئے اور مخالف امیدوار چوہدری چوہدری بلال اعجاز نے 1لاکھ 8ہزار600ووٹ حاصل کئے، 18مارچ کو میری کامیابی کانوٹیفیکیشن جاری ہوا۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ لاہور ہائی کورٹ نے 95-5کو کیسے اٹینڈ کیا۔جسٹس عقیل احمد عباسی کاکہنا تھا کہ اگرنتائج ترتیب دینے سے قبل دوبارہ گنتی کی درخواست ریٹرننگ آفیسر کی جانب سے مستردکردی جاتی ہے تواس کے خلاف الیکشن کمیشن جائیں گے یا الیکشن ٹربیونل جائیں گے یہ سوال اہم ہے۔ جسٹس عقیل احمد عباسی کاکہنا تھا کہ کیا الیکشن کمیشن کے پاس اختیار ہے کہ کبھی ایک امیدوارکوکامیاب قراردے دے اور کبھی دوسرے کومیاب قراردے دے،آر اوکے حکم کے خلا ف دادرسی کیا تھا بتادیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ یاتوکہیں کہ سیکشن 95بے معنی شق ہے۔

جسٹس عقیل عباسی کاکہنا تھا کہ پرانے قانون میں بھی الیکشن کمیشن کے پاس کسی حلقہ میں انتخابات کو کالعدم قراردینے کااختیارتھا اورالیکشنز ایکٹ 2017میں بھی کیس حلقہ میں انتخابات کوکالعدم قراردینے کا حق حاصل ہے،موجودہ کیس دوبارہ گنتی کے حوالے سے ہے۔ اس موقع پر این اے 79سے (ن)لیگی امیدوار ذوالفقار بھنڈر کے وکیل محمد عمر ریاض نے بتایا کہ 5اگست 2023کو قانو ن میں مزید ترمیم کے بعد آراوکااختیار نہیں کہ وہ دوبارہ گنتی کی درخواست خارج کرے۔

چوہدری بلال اعجاز کے وکیل شیخ عثمان کریم الدین کاکہنا تھا کہ یہ ریٹرننگ آفیسر کااختیار ہے کہ وہ ایک یا زیادہ پولنگ اسٹیشنز پر دوبارہ گنتی کرواتا ہے کہ نہیں۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہمارے سامنے تین یاچار پولنگ اسٹشیزن پر دوبارہ گنتی کاکیس نہیں بلکہ ہمارے سامنے کیس ہے کہ دوبارہ گنتی کروائی ہی نہیں گئی۔ وکیل کاکہنا تھا کہ میرے کیس میں پوری درخواست کومستردکردیا۔ جسٹس عقیل احمد عباسی کاکہنا تھا کہ اگر سب جگہ دوبارہ گنتی کی درخواست ہے توسب جگہ کرسکتا ہے اوراگر چار پولنگ اسٹیشنز پر دوبارہ گنتی کی درخواست ہے توان پر دوبارہ گنتی کرواسکتا ہے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ یہ الیکشن لڑنے والے امیدوارکی صوابدید ہے کہ وہ کسی مخصوص یاسارے پولنگ اسٹیشنوں پر دوبارہ گنتی کروانا چاہتا ہے، یہ آراوکے پاس اختیار نہیں بلکہ ہارے ہوئے امیدوار کے پاس اختیار ہے کہ وہ کتنے پولنگ اسٹیشنوںپر دوبارہ گنتی کروانا چاہتا ہے،آراوکون سامفہوم دیکھے گا، اُس کوشکل پسند نہیں۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آخر کاردیکھنا ہے کہ الیکشن شفاف ہوا، ووٹ کس کے ڈبے میں گئے، دوبارہ گنتی ہوجائے گی، سارے پولنگ اسٹیشنوں پر دوبارہ گنتی کروالیں، دوبارہ گنتی سے آپ کو نقصان کیا پہنچا ہے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ڈبے کھولو بس ختم، دوبارہ گن لو ، پاکستان میں ہرچیز پیچیدہ بنادی جاتی ہے، پارلیمان نے دومرتبہ دوبارہ گنتی کے معاملے پرترمیم کی۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ان کیسز میں سب پولنگ اسٹیشنز پر دوبارہ گنتی ہوئی۔ اس پر وکیل شیخ عثمان کریم الدین کاکہنا تھا کہ میرے مئوکل کے حلقہ میںکل 338میں سے 75پولنگ اسٹیشنوں پر دوبارہ گنتی ہوئی۔چیف جسٹس کاوکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ کیاآپ مطمئن ہوں گے اگر ہم پورے حلقہ میں دوبارہ گنتی کاحکم دیں۔ اس پر وکیل کاکہنا تھا کہ میں مطمئن نہیں ۔ وکیل کاکہنا تھا کہ درخواست گزارنے کوئی وجہ نہیں لکھی کہ کیوں دوبارہ گنتی چاہتے ہیں، 95-5صوابدیدی اختیار ہے۔

چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ کیا اس کیس میں صوابدیدی اختیار درست استعمال ہوا۔ شیخ عثمان کریم الدین کاکہنا تھا کہ درست اختیار استعمال نہیں ہوا۔ چیف جسٹس کا کہناتھا کہ ڈبے کھلیں گے تووجہ معلوم ہوگی۔ چیف جسٹس کاکہناتھا کہ ایک الیکشن میں بہت سی بے قائدگیاں ہوسکتی ہیں، کیا مارشل لاء لگ سکتا ہے کہ نہیں، سارابوجھ ہی دوسرے پر منتقل کردیا، ایک قانو ن دیا ہوا ہے اس پر عمل کیوں نہیں ہورہا، یہ مکینیکل بات ہوسکتی ہے کہ یہ ہوسکتا ہے کہ نہیں، اگر پاکستان بار کونسل کسی وکیل کووکالت کالائسنس نہیں دیتی تواس کا حل یہ ہوسکتا ہے کہ ایل ایل بی کی ڈگری لے آئیں بات ختم، مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر نے آئین معطل کردیا، اس کی دادرسی یہ ہے کہ یہ کام نہ کرو، یہ تونہیں کہ قانون توڑ دواورپھر ڈیو پراسیس مانگو۔  چیف جسٹس کا کہناتھا کہ الیکشن کی تعریف کیا ہے ، آئین کی تعریف کیا ہے ، وکیل ایسی باتیں کررہے ہیں۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ دوبارہ گنتی بھی الیکشن پراسیس میں شامل ہے، دوشرائط ہیں ریٹرننگ آفیسر دوبارہ گنتی کروائے گااس کے بعد الیکشن پراسیس مکمل ہو گا، سیکشن 95-5بھی الیکشن پراسیس میں شامل ہے۔چیف جسٹس کا وکیل کومخاطب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ عقل والی بات کریں ،الیکشن ہو گیا ہے اورمیں کامیاب قراردے دیا گیا ہوں ۔وکیل شیخ عثمان کریم الدین کاکہنا تھا کہ الیکشن کمیشن انتخابات کوکالعدم قراردے سکتا ہے اور دوبارہ پولنگ کرواسکتا ہے تاہم دوبارہ گنتی نہیں کرواسکتا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اچھا وکیل وہ ہوتاہے جو سوال سن کر جواب دے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ یہ قانون کااصول ہے کہ جوزیادہ چیز کرسکتا ہے توکیا وہ کم چیز نہیں کرسکتا، مدعا علیہ کے وکیل کہتے ہیں الیکشن کو ہی کالعدم قراردیں۔

چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ وکیل پورے صفحے پڑھیں گے ، پورے پراسیس کاغلط استعمال نہ کریں، اتنا وقت ہمارے پاس نہیں۔چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ایک سوال کا جواب دیجیے کہ الیکشن ٹربیونل دوبارہ گنتی کاحکم دے سکتا ہے کہ نہیں۔ اس پر وکیل کاکہنا تھا کہ دے سکتا ہے۔ چیف جسٹس کا وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ قانون پڑھیں، آپ فتوے دینے لگ گئے قانون پڑھ دیں، آپ جواب ہی نہیں دیں گے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ہم سپریم کورٹ ہیں ہم پر سپریم کورٹ کا فیصلہ ماننا لازم نہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ عجیب طریقہ ہے دلائل دینے کا، سوال پوچھتے ہیں جواب ہی نہیں دیتے۔ شیخ عثمان کریم الدین کاکہنا تھا کہ دوبارہ گنتی کالفظ الیکشن ٹربیونل کے حوالہ سے قانون میں نہیں لکھا، چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ہم مختصر کی بھی اب تشریح کرنا ہوگی

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ قانون کایہ اصول ہے کہ جب زیادہ سے زیادہ اختیار ہوتاہے توپھر تھوڑا اختیار بھی ہوتا ہے، الیکشن کمیشن جب الیکشن کوکالعدم قراردے سکتا ہے تودوبارہ گنتی کاحکم بھی دے سکتا ہے، ہم جب فیصلے کرتے ہیں تو ہمیں بہت سی چیزیں دیکھنا ہوتی ہیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ کہاں لکھا ہے کہ الیکشن ٹربیونل دوبارہ گنتی کرواسکتا ہے، کل کوکوئی بھی الیکشن ٹربیونل کافیصلہ چیلنج کرسکتاہے کہ یہ اختیارکہاں لکھا ہے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ہمیں لکتاہے کہ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ الیکشن کروانے بیٹھ گئے ہیں، کبھی کبھی عدالتیں بھی زیادہ آگے چلی جاتی ہیں، الیکشن کمیشن آف پاکستان کاکام ہے شفاف الیکشن کروائیں، دوبارہ گنتی کروائیں، آر اونے کرنا تھا نہیں کیا، الیکشن کمیشن نے کردیا، الیکشن کمیشن ایسے ہی آئینی ادارہ ہے جیسے سپریم کورٹ آف پاکستان آئینی ادارہ ہے، کیا قیامت برپا ہوگی اگر الیکشن کے ڈبے کھل جائیں،

الیکشن پراسیس کھلنے سے کیوں اتنے خوفزدہ جاتے ہیں، یاتونہ درخواست دی ہوتی بات سمجھ میں آتی، یا پانچ فیصد کا فرق بھی تھا، ہوسکتا ہے جیتنے والے امیدواراورمارجن سے جیت جائیں، ایک آئینی ادارے کاکام ہے بار، بار کیوں ہم اس میں کیوں مداخلت کررہے ہیں، اتنے دنوں سے کیس سن رہے ہیں، امن وامان کی صورتحال پیداہوگئی، ماشااللہ!۔ جسٹس عقیل احمد عباسی کاوکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہناتھا کہ کیا الیکشن کمیشن کبھی آپ کی مدد کو بھی آیا۔ وکیل کاکہنا تھا کہ درخواست گزار کی درخواست خارج کی جائے۔چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ کتنی اوردرخواستیں رہ گئی ہیں۔ اس کے بعد قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 79سے (ن)لیگی امیدوار چوہدری ذولفقاربھنڈر کے وکیل محمد عمر ریاض نے دلائل کاآغاز کیا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ بنیادی فیکٹس دیں، درخواست نتائج تیار ہونے سے پہلے آئی یا بعد میں۔

وکیل کاکہناتھا کہ درخواست گزار نے 1لاکھ 793ووٹ حاصل کیئے جبکہ جیتے والے امیدوار نے 1لاکھ 3ہزار 708ووٹ حاصل کیئے۔حلقہ میں 9363ووٹ مسترد ہوئے،11فروری کونتائج تیارہوئے اور16فروری کوجیتنے والے امیدوار کانوٹیفیکیشن جاری ہوا۔ محمدعمر ریاض کاکہنا تھا کہ ریٹرننگ آفیسر نے 10فروری کو یہ کہہ کردوبارہ گنتی کی درخواست خارج کی کہ بلوہ ہو گیا تھا اور امن وامان کی صورتحال پیداہوگئی تھی۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ اگر ریٹرننگ آفیسر دوبارہ گنتی کروانے کی ذمہ داری پوری نہیں کرتے تونتائج تیار کرنے کی دوسری ذمہ داری اداکرسکتے ہیں، یاتوکہیں کہ سب کچھ مفلوج ہوگیا اورکچھ ہوہی نہیں سکتا۔ جسٹس عقیل احمدعباسی کاکہنا تھا کہ الیکشن کمیشن محترم ادارہ ہے، الیکشن کمیشن نے پہلے اور بعد میں بھی الیکشن کاتحفظ کرنا ہے۔ محمد عمر ریاض کاکہنا تھا کہ اگر حلقے میں مسترد کئے ووٹوں کی تعداد جیتنے والے امیدوار کے ووٹوں سے زیادہ ہے توپھر بھی وہ دوبارہ گنتی کی درخواست مسترد نہیں کرسکتا۔

وکیل کاکہنا تھا کہ میرے حلقہ میں دوبارہ گنتی نہیں ہوئی، میں نے پورے حلقہ میں دوبارہ گنتی کی درخواست دی تھی، مدعاعلیہ کی جانب سے الیکشن کمیشن کے حکم کولاہورہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا۔ چیف جسٹس کاوکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ اگر زیادہ وقت چاہتے ہیں توکل تک سماعت ملتوی کردیں۔ محمد عمرریاض کاکہنا تھا کہ ہائی کورٹ میں الیکشن کمیشن کے حکم کے خلاف رٹ قابل سماعت نہیں تھی۔ چیف جسٹس کاکہناتھا کہ اگر الیکشن ٹربیونل بن گئے تھے توہائی کورٹ مدعا علیہ کو کہہ سکتی تھی کہ الیکشن ٹربیونل جائو۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ کون سی تاریخ چاہتے ہیں۔ اس پر محمد عمرریاض کاکہنا تھا کہ ایک درخواست رہ گئی ہے۔ بعد ازاں عدالت نے درخواستوں پر مزید سماعت جمعرات 11جولائی تک ملتوی کردی۔