نئی پارٹی: نیا انقلاب؟ : تحریر سہیل وڑائچ


میرا کیا ہے میں تو دیوانہ ہوں ۔دن میں بھی خواب دیکھتا ہوں، چائے کی پیالی میں بھی مجھے طوفان چھپا نظر آتا ہے، دن کو اکثر تارے دیکھتا ہوں۔ مجھے آپ شیخ چلی قرار دیں یا ملا نصر الدین سمجھیں، میں حد سے زیادہ خوش امید ہوں تضادستان کو بدلنے کا کوئی جھوٹا دعویٰ بھی کرے تو میں فوراً یقین کرلیتا ہوں ۔میری خوش عقیدگی کا اس سے اندازہ لگا لیں کہ میرے مہربان سہیل ضیا بٹ نے’’ عام عوام پارٹی‘‘ بنائی تو میں نے صرف نام سے متاثر ہو کر انہیںتضادستانی کیجریوال سمجھنا شروع کردیا، مجھے لگا کہ اب دہلی کی طرح تضادستان میں بھی بجلی سستی ہو جائے گی، بچے پرائیویٹ سکول چھوڑ کر سرکاری سکولوں میں داخل ہوں گے، ایماندار اور قابل حکومت آ جائے گی، عوام بااختیار ہوجائیں گے۔ اس خواب کو عملی شکل نہ مل سکی مگر میں ابھی تک انتظار میں ہوں کہ کبھی بھی کیجریوال بٹ، تضادستان میں انقلاب لے آئیں گے، نہ میں کبھی غلط ہوا ہوں نہ کبھی میرے خواب غلط ہوئے ہیں، میں جو سوچتا ہوں وہی دیکھتا ہوں اور وہی ہوتے ہوئے دیکھنا چاہتا ہوں۔

مشہور مقولہ ہے کہ پرانی عادتیں جلدی ختم نہیں ہوتیں، اپنی پرانی عادت کے سبب اب نئی پارٹی ’’عوام پاکستان‘‘ کے تشکیل پاتےہی مجھ پر دوبارہ دیوانگی طاری ہو چکی ہے اور کل سے جاگتی آنکھوں میں بھی انقلاب کے خواب نظر آ رہے ہیں ،شاہد خاقان عباسی کی شکل میں مجھے نیا قائد انقلاب مل گیا ہے بس اب تھوڑا ساصبر کرنا ہے اور عوام پاکستان نے تضادستان کو انقلاب کے ذریعے بدل دینا ہے ، یہاں جلد ہی دودھ اور شہد کی نہریں بہنا شروع ہو جائیں گی، ہمارے پہاڑ سونا اگلیں گے اور ہمارے میدانوں میں گل ہائے نوبہار اُگیں گے۔میں شاہد خاقان عباسی کو ایسے ہی قائد انقلاب نہیں مانتا، اپنے مشکل دور میں انہوں نے چی گویرا کی سی بہادری دکھائی ، چاہے جنرل مشرف کی طیارہ اغوا کیس کی قید ہو یا عمران خان دور کی جیل ، جس عزیمت سے شاہد خاقان عباسی نے وہ دن گزارے اس نے گاندھی، آزاد اور نہرو کی قید کی یاد تازہ کردی، جیل میں وہ باہر سے کھانا نہیں منگواتے تھے عام قیدی کی طرح ہی جیل کی دال روٹی کھاتے تھے، اپنے مقدمات کیلئے نہ کوئی مہنگا وکیل کیا نہ کبھی عدلیہ سے ریلیف مانگا۔ مجھے یاد ہے کہ جنرل باجوہ نے ایک پریس بریفنگ میں کھلے عام کہا تھا کہ شاہد خاقان عباسی اپنے لیڈر نواز شریف سے بھی زیادہ قابل وزیر اعظم ہیں۔ انہوں نے ایک اور محفل میں مفتاح اسماعیل کو اسحاق ڈار سے بہتر وزیر خزانہ قرار دیا تھا۔ گویا قائد انقلاب نہ صرف باصلاحیت ہیں بلکہ ان کی صلاحیتوں کی گواہی مقتدرہ بھی دیتی رہی ہے، گویا نئے انقلاب کو عوام کے ساتھ ساتھ طاقتوروں کی حمایت بھی حاصل ہو جائے گی۔ سیٹی بجنے کی دیر ہے، انقلاب بس آنے ہی والا ہے۔

میرے قائد انقلاب کو ملک کے سب سے تجربہ کار سیاستدان نواز شریف نے اپنے جانشین کے طور پر مانا، اُس نے بطور وزیر اعظم وہ کمالات دکھائے کہ جنرل باجوہ سمیت ساری مقتدرہ ان کی مداح بن گئی وہ فائلوں کو میز پر رکنے نہیں دیتے تھے ’’ون منٹ منیجر‘‘ کی طرح فوراً اور صحیح فیصلے کرتے تھے۔ قائد انقلاب کیلئے ہر طرف سے گرین سگنل تھا ،اتنی کامیاب وزارت ِعظمیٰ کے بعد ان کا حق تھا کہ انہیں نواز شریف پھر وزیر اعظم بنا دیتے ،بس درمیان میں دو ولن آگئے۔ مفتاح اسماعیل کی پالیسیاں اسحاق ڈار کو پسند نہ آئیں اور انہوں نے نواز شریف کوبھی اس بات پر ہم نوابنا لیا۔ میرے قائد انقلاب کواصل مسئلہ مریم اور شہباز شریف کی طرف سے آیا۔ اب مریم کا کیا مقام تھا کہ وہ قائد انقلاب کے برابر کے عہدے، ن لیگ کی نائب صدارت ،پر فائز ہو۔ قائد انقلاب کو لازمی طور پر برا لگا کہ کہاں وہ جن کی زمانہ تعریفیں کرتا ہے اور ایک وہ خاتون جس کا کوئی سیاسی تجربہ ہی نہیں،وہ دونوں برابر کے عہدوں پر کیسے رہ سکتے ہیں؟ کہاں اتنا بڑا لیڈر اور کہاں رشتہ داری کی بنیاد پر اہم خاتون۔ دونوں کا کیا موازنہ۔ یہ ٹھیک ہے کہ اس خاتون نے بڑےبڑے جلسے کئے، مزاحمت کی ، ڈٹ کر کھڑی رہی، مگر میرٹ تو قابلیت کوہونا چاہیے۔ قائد انقلاب جیسا میرٹ ن لیگ میں کسی کا بھی نہیں تھا۔ دوسرا معاملہ یہ پیش آیا کہ شہباز شریف قائد انقلاب کی قابلیت سے حسد کرنے لگے، شہباز شریف کے وفادار، شاہد خاقان عباسی کی کابینہ میں بھی انہیں ناکام بنانے کی کوشش کرتے تھے، شہباز شریف، شاہد خاقان عباسی کو اپنی وزارت عظمیٰ کے راستے میں رکاوٹ سمجھتے تھے، قائد انقلاب ن لیگ کے اندر رکاوٹوں کو بھانپ گئے اور ہر بڑے لیڈ ر کی طرح انہوں نے خود انقلاب لانے کا فیصلہ کیا۔ اب آپ ہی فیصلہ کریں کہ کہاں قائد انقلاب جیسا بڑا آدمی اور کہاں شہباز شریف جیسا مصلحت پسند ۔ دونوں کا کیا مقابلہ؟ شاہد خاقان عباسی کا مرتبہ بہت بلند ہے جو خوبیاں ان میں جنرل باجوہ نے دیکھی تھیں وہ ابھی سب کو نظر نہیں آ رہیں لیکن کل کو جب انقلاب آئے گا تو ہرکوئی جنرل باجوہ کی بصیرت کی داد دیا کرے گا۔

قائد انقلاب کا ہراول دستہ بھی پورے کا پورا انقلابی ہے ۔ مفتاح اسماعیل کراچی کے مذہبی میمن اور کاروباری خاندان سے تعلق رکھتے ہیں، غریبوں اور مڈل کلاس کا درد ان میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے کیا ہوا جو وہ خود اشرافیہ سےتعلق رکھتے ہیں یا صنعت کار ہیں اصل بات تو احساسات کی ہے اور ان کے احساسات اپنی کلاس کےخلاف اور محروم طبقات کے حق میں ہیں ،آپ اسے تضاد سمجھتے ہیں تو سمجھتے رہیں،فرعون کے گھر میں ہی موسیٰؑ پرورش پاتے ہیں ۔ بس مان لیں کہ و ہ پرورش پا چکا اور اب انقلاب آتے ہی غریبوں کے حالات بدل جائیں گے اور یہ ساری فتح، مفتاح کے ہاتھوں سے ہوگی۔

سابق گورنر مہتاب عباسی بھی آئندہ انقلاب کے نقیب ہیں وہ بیوروکریٹ رہے، وزیر رہے، گورنر رہے ان کے اپنے دور کےسنہری کارنامے آج تک خیبرپختونخوا میں گونج رہے ہیں ،ایک زمانے میں وہ خیبرپختونخوا میں نون لیگ کےستون ہوا کرتے تھے، میرے انقلابی خواب میں مجھے مہتاب عباسی بھی تبدیلی کے معماروں میں نمایاں نظر آرہے ہیں۔

کوئی مانے یا نہ مانے سازشی تھیوری یہ ہے کہ شہباز شریف کا متبادل شاہد خاقان عباسی میدان میں اتر چکا ہے، جس دن شہباز شریف اور مقتدرہ میں کوئی اختلاف ہوا شہباز سے زیادہ باصلاحیت قائد انقلاب کو لے آیا جائے گا۔ مجھے اس سازشی کہانی سے اختلاف ہے ،یہ کہانی قائد انقلاب کی شہرت خراب کرنے کیلئے تراشی گئی ہے، قائد انقلاب جب عوامی میدان میں نکلیں گے تو عوام کےٹھٹھ کے ٹھٹھ لگ جائیں گے ہر طرف انقلاب اورتبدیلی کے نعرے گونجیں گے، مقتدرہ اور عوام مل کر ’’عوام پاکستان‘‘ کوبھرپور مینڈیٹ کے ساتھ اقتدار میں لائیں گے اور یوں میرا انقلاب کا خواب سچا ثابت ہو جائے گا۔ آپ مانیں یا نہ مانیں، آپ کی مرضی، میں تو دیوانہ ہوں اپنی کہتا چلا جاؤں گا۔

بشکریہ روزنامہ جنگ