کتاب ایک خاموش استاد ھے لیکن بد قسمتی سے اب ھمارے ھاں جہاں دیگر سماجی اقدار آہستہ آہستہ روبہ زوال ھوتی جارھی ھیں وھاں ھمارا کتاب سے رشتہ بھی کمزور تر ھوتا جارھا ھے مہنگائی نے جینا دو بھر کر رکھا ھے پیٹ پالنا مشکل ھے وھاں کتب نویسی کا بوجھ کوئی کیسے اٹھائے اوپر سے کتاب پڑھنے کا رحجان بھی انحطاط کا شکار ھے۔لیکن ڈاکٹر صاحب نے اپنے محدود وسائل سے نہ صرف یہ بلکہ دیگر کتب و مقالات بھی قلمبند کئے جو اخبارات و رسائل اور کالجوں و یونیورسٹیز کی لائبریریوں میں محفوظ ھیں۔ راولاکوٹ کی تحصیل تھوراڑ کی مردم خیز دھرتی سے تعلق رکھنے والے پروفیسر ڈاکٹر محمد اسحاق نے “سماجی اقتصادیات اور پائیدار ترقی” کے عنوان سے اپنی زندگانی کے تجربات و مشاہدات اور مشاورت و محنت شاقہ کو ایک کتاب کی شکل دی جو تصاویر سمیت اڑھائی سو صفحات پر مشتمل ھے۔
اقتصادیات بھی فلسفے کی طرح ایک مشکل اور نہ سمجھ آنے والا گورکھ دھندا ھے لیکن ڈاکٹر اسحاق نے عام فہم زبان میں اپنے رشحات فکر قلمبند کئے کہ ایک ھی نشست میں آدمی چاھے تو اسکو ازبر نہ بھی کرسکے کم از کم ورق گردانی کرسکتا ھے اسکے موضوعات اسقدر دلچسپ اور عام فہم ھیں کہ ھر قرطاس کتاب توجہ کا متقاضی رھتا ھے کہ اس کا موضوع سخن ھماری روزمرہ کی بچت اور معمولات زیست کو منصوبہ بندی سے استعمال کرنے کے گر بتائے گئے ھیں جن پر عمل کرکے ھینگ لگے نہ پھٹکری کے مصداق آپ پائیدار ترقی کی منزل حاصل کرسکتے ھیں۔
ڈاکٹر اسحاق اقتصادیات کے استاد رھے ھیں اس مضمون میں ماسٹر کر کے پبلک سروس کمیشن کے زریعے لیکچرار بھرتی ھوئے مدارج و مناصب میں ترقی تو ملازمین کو ملتی رھتی ھے لیکن انہوں نے ساتھ ساتھ اپنی ڈگریوں اور مہارت میں بھی خوب اضافہ کیا اور اپنے سبجیکٹ میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔
آزاد کشمیر کے کالجز اور یونیورسٹیوں میں خدمات انجام دینے کے علاوہ بین الاقوامی سطح کی NGOs میں بھی اپنے تجربات شئیر کئے۔مصنف نے Development with Social Justice کے موضوع پر ایک کتاب تصنیف کی جو بعض یونیورسٹیوں کے نصاب میں شامل کی گئی ھے جس سے اقتصادیات کے طلباء و طالبات اور اساتذہ کرام استفادہ کرتے ھیں۔صاحب موصوف کی ایک کتاب Devine’s Theory of Economics بھی زیر تصنیف ھے۔ جن این جی اوز میں ڈاکٹر اسحاق نے خدمات انجام دیں ان میں آغا خان رورل سپورٹ پروگرام AKRSP نیشنل رورل سپورٹ پروگرام،نادرن ریسورس منیجمنٹ پروجیکٹ،آزاد کشمیر رورل سپورٹ پروگرام وغیرہ۔
ڈاکٹر صاحب کی حالیہ تصنیف نہ صرف اقتصادیات کے طلباء و اساتذہ کرام کے لئے ایک معاون کتاب ھے بلکہ عام آدمی اگر اس کا مطالعہ جاری رکھے تو وہ اپنے اڑوس پڑوس میں ایسے کم قیمت و کم لاگت منصوبے تشکیل دے سکتا ھے جس سے فرد،خاندان اور کمیونٹی بخوبی پائیدار ترقی کی راہ پر چل سکتے ھیں۔اس کتاب کی ایک خوبی یہ بھی ھے کہ ھم عمومی طور پر گھریلو خواتین سے کام تو بہت لیتے ھیں لیکن انکی معاونت و راھنمائی نہیں کر پاتے ڈاکٹر صاحب نے خواتین کے لئے پائیدار ترقی کی راہیں کھولی ھیں کہ وہ بھی اگر ڈاکٹر صاحب کی راھنمائی میں منصوبہ بندی کریں تو ھم ایک بہترین راہ پر چلتے ھوئے ترقی و تدریس سے بخوبی بھرپور استفادہ کرسکتے ھیں۔ پاکستان تقریبآ پنتالیس ھزار دیہاتوں پر مشتمل ھے اگر ھم خواتین کو بھی معاشرتی و معاشی ترقی کا حصہ بنائیں تو نہ صرف ھمارے اقتصادی مسائل میں کمی آسکتی ھے بلکہ ھمارا سماجی و معاشی ڈھانچہ مضبوط بنیادوں پر استوار ھو سکتا ھے اس طرح ڈاکٹر صاحب نے یوتھ کی صلاحیتوں سے استفادے پر بھی زور دیا۔موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث ھم قحط سالی اور سیلابوں کا شکار ھوتے ھیں انکے لئے حفاظتی اقدامات پر توجہ اور منصوبہ بندی بھی اس کتاب کے موضوعات میں شامل ھیں۔
پائیدار معیشت میں سیاحت کے فروغ کا بڑا کلیدی رول ھے لیکن پاکستان اور آزادکشمیر میں اس شعبے کو وہ مقام اور توجہ نہیں دی جاسکی ڈاکٹر صاحب نے اس ضرورت کا بھی بخوبی احاطہ کیا ھے اگرچہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام جس انداز میں چل رھا ھے اس سے ترقی کم اور بے روزگاری اور بھکاری پن کی حوصلہ افزائی زیادہ ھو رھی ھے معاشی لحاظ سے اس پروگرام کو ری وزٹ کرنے کی ضرورت ھے لیکن ڈاکٹر صاحب کے قلم سے اس موضوع پر بھی کافی مواد موجود ھے اسی طرح زکوات و عشر کے موضوع کوبھی اس کتاب کا حصہ بنایا گیا ھے۔
اسلام کا نظام عشر و زکوات ترقی و خوشحالی کا ائینہ دار ھے لیکن بد قسمتی سے اس شعبے کو بھی مناسب انداز میں نہیں لیا گیا اس سلسلے میں ڈاکٹر عبدالخالق صاحب نے بڑی عرق ریزی کی ھے لیکن انکی خدمات سے سرکاری سطح پر استفادہ نہیں کیا جسکا یہ موضوع بھی شامل تصنیف ھے۔ ڈاکٹر صاحب نے ترقی یافتہ و ترقی پزیر ممالک کے درمیان جو تفاوت و عدم ھم آہنگی ھے اسکو بھی موضوع بحث بنایا ھے۔
ھمارے ھاں ضرورت اس امر کی ھے بڑے منصوبوں کے بجائے چھوٹے منصوبے شروع کئے جائیں جن پر لاگت بھی کم آئے اور دائمی فوائد حاصل ھوں ڈاکٹر صاحب نے اپنے ان تجربات کو کتابی شکل میں مدون کرنے کے ساتھ ساتھ ان افراد کا بھی ذکر اور تحسین کی ھے جنہوں نے ان کے کام میں معاونت کی ھے انکے اسمہائے گرامی میں محترمہ نجمہ صدیقی،جنرل منیجر نشینل رورل سپورٹ پروگرام اسلام آباد ،سردار محمد صدیق خان ریٹائرڈ سکریٹری حکومت آزاد کشمیر،پروفیسر ڈاکٹر سردار عبدالخالق ڈائریکٹر فار زکوات ایجوکیشن میرپور،خواجہ احسن،سابق سیکرٹری سماجی بہبود،سردار محمد فاروق تبسم ریٹائرڈ سیکرٹری حکومت ازاد کشمیر،سردار سلطان عالم چیف پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ،محترمہ قدسیہ بتول کوٹلی،ڈاکٹر ظفر اقبال،سردار شہزاد،زاھد ملک،ڈاکٹر شوکت صدیقی وائس چانسلر وقت اوپن یونیورسٹی،محترمہ شہناز وزیر علی سابق وزیر حکومت پاکستان،سابق سپیکر آزاد کشمیر اسمبلی شاہ غلام قادر،امتیاز علوی،نثار عادل نثار شامل ھیں۔
یہ کتاب تقریبا اکیس ابواب اور موضوعات پر مشتمل ھے جن کے تانے بانے پائیدار ترقی سے منسلک ھیں موصوف نے ایک سوکھے اور کمزور درخت سے معیشت کو تشبیہ دی اور مناسب منصوبہ بندی کے ساتھ لوگوں کے عمومی رویوں،ترقیاتی شعور کی آگاھی،تعلیم و تربیت کا اھتمام،وسائل کا استعمال، بلندی روزگار،خوشحالی اور اقتصادی بہتری سے ایک گھنے سر سبز دراز قد 🌲 درخت کیصورت میں پائیدار ترقی کا نقشہ پیش کیا۔
کتاب میں کتابت کی غلطیوں کو قدر نظر انداز کیا گیا ھے لیکن اپنی تصنیف کردہ کتاب کی پروف ریڈنگ خود کی جائے تو عمومآ غلطیاں نظر انداز ھو جاتی ھیں لیکن یہ غلطیاں ایسی بھی نہیں ھیں کہ اس سے کتاب کے اھداف و ٹارگٹس متاثر ھوں۔یہ کتاب زیادہ تر آزاد جموں وکشمیر کے معروضی حالات کو پیش نظر رکھ کر لکھی گئی ھے لیکن موضوعات سماجی اقتصادیات ایسے ھیں کہ ان پر عملدرآمد کرکے کوئی بھی ترقی پذیر علاقہ،عوام و کمیونٹی بھرپور استفادہ کرسکتے ھیں
ڈاکٹر اسحاق صاحب نے از راہ محبت و شفقت اور اخلاص و ایثار مجھے عنایت کی کہ ان کا گمان غالب یہ تھا کہ میں ایک کتاب دوست شخص ھوں۔میں انکی عیادت کے لئے انکے ھاں حاضر ھوا، انکا علالت و نقاہت میں یہ کتاب مجھے پیش کرنا جہاں میرے لئے ایک اعزاز تھا میں نے ایک مقروض التفات کے طور کتاب کو جستہ جستہ پڑھا اور سوچا کہ اس کتاب کا تذکرہ اپنے قارئین تک بھی پہنچاؤں جو اس تصنیف لطیف سے شاھد آگاہ نہ ھوں تاکہ اگر وہ ڈاکٹر صاحب کے مفید مشوروں پر عمل کر کے پائیدار ترقی کی جانب کچھ پیشرفت کرسکیں تو ایک فرد ،علاقہ یا کمیونٹی بھی اس سے استفادہ کر پائی تو ڈاکٹر اسحاق صاحب کی محنت کا ثمر کسی حد تک ادا ھو جائے گا۔