وہ جس نے انگلیوں کوآنکھیں بنا لیا : تحریر جاوید چوہدری


وہ بچپن میں حادثے کا شکار ہوگیا جان بچ گئی مگر بینائی جاتی رہی وہ عمر بھر کے لیے اندھا ہو چکا تھا لوئی کو پڑھنے کا جنون تھا وہ حادثے سے قبل روزانہ کتابیں پڑھتا تھا لیکن بینائی کے بعد اس کے لیے یہ معمول جاری رکھنا ممکن نہیں تھا وہ اب پڑھ نہیں سکتا تھا والدین امیر تھے یہ 1820 کا زمانہ تھا فرانس کے متمول لوگ اس دور میں ملازمین کی فوج رکھتے تھے ملازمین ان کا وزٹنگ کارڈ ہوتے تھے یہ لوگ جب کسی سے ملاقات کے لیے جاتے تھے تو ان کا ہرکارہ باآواز بلند اعلان کرتا تھا حضرات آپ ڈیوک فلپ سے ملیے یہ دو ہزار ایکڑ زمین تین محلات اور چار سو ملازمین کے مالک ہیں ہمارے صاحب کی زمین فلاں جگہ سے شروع ہوتی ہے اور فلاں مقام تک جاتی ہے اور اس جاگیر میں اتنے باڑے اتنی جھیلیں اور اتنی کانیں ہیں وغیرہ وغیرہ۔

تعارف کا یہ اسٹائل اس دور میں کم و بیش دنیا کے تمام ممالک میں تھایہ روایت فرانس میں بھی موجود تھی وہاں بھی رئیس ملازم رکھتے تھے اور فرنچ مراثی ملازمین کی تعداد کو اپنے رئیس کا تعارف بناتے تھے لوئی کے والدین اس کلچر کا حصہ تھے چناںچہ انھوں نے معذور ہوتے ہی اس کے لیے دو ٹیوٹرز کا بندوبست کر دیا یہ ٹیوٹرز لوئی کو کتابیں پڑھ کر سنایا کرتے تھے مگر بارش اور برف باری کے موسم میں جب ٹیوٹر گھر نہیں آ سکتے تھے تو لوئی کو کوفت ہوتی تھی اور وہ اپنی بے نور آنکھوں کے ساتھ صحن میں دیوانہ وار چکر لگاتا تھا وہ اس وقت اپنی معذوری کو زیادہ شدت سے محسوس کرتا تھا والدین کو اس کی بے چینی بہت پریشان کرتی تھی مگر اس دور میں معذور لوگوں کے پاس دوسروں کے سہارے کے سوا کوئی آپشن نہیں تھا۔

لوئی ایک مختلف بچہ تھا یہ 1809میں پیدا ہوا 1820 میں اندھا ہوا اس نے چار سال ٹیوٹرز کے سہارے زندگی گزاری اور پھر اس نے اندھنے پن میں رہ کر پڑھنے کا فیصلہ کر لیا وہ کوئی ایسا طریقہ ایجاد کرنا چاہتا تھا جس کے ذریعے وہ بند آنکھوں کے باوجود کتاب پڑھ سکے لوئی نے غور شروع کیا تو اسے محسوس ہوا وہ آنکھوں کی کمی کان ناک حلق اور ہاتھوں سے پوری کر سکتا ہے ناک اور حلق انسان کو پڑھنے میں مدد نہیں دے سکتے انسان لفظوں کو سونگھ سکتا ہے اور نہ ہی چکھ سکتا ہے سونگھنے اور چکھنے کی دونوں حسوں کے بعد ہاتھ اور کان دو آلات بچتے ہیں انسان انھیں بھی استعمال کر سکتا ہے اس دور میں ٹیپ ریکارڈ ایجاد نہیں ہوا تھا لہذا اندھوں کے لیے کتابیں ریکارڈ نہیں ہو سکتی تھیں چناںچہ انسانی انگلیوں کے علاوہ کوئی آپشن نہیں تھا۔

لوئی نے انگلیوں کی پوروں کو آنکھیں بنانے کا فیصلہ کر لیا اس نے ایسا ٹائپ رائیٹر ایجاد کرنا شروع کر دیا جو لفظوں کو کاغذ پر ابھار دیتا تھا اور وہ کاغذ پر انگلیاں پھیر کر ابھرے ہوئے لفظ پڑھ لیتا تھا لوئی نے یہ ٹائپ رائیٹر بنانے کے لیے دن رات کام کیا آپ تصور کیجیے آپ کی آنکھیں نہ ہوں آپ ڈبل روٹی کو بھی ٹٹول کر محسوس کرتے ہوں لیکن آپ ایک ایسا طریقہ ایجاد کرنے میں جت جائیں جو پوری دنیا کی طرز فکر بدل دے یہ کتنا مشکل یہ کتنا کٹھن ہو گا اللہ تعالی نے لوئی کو ارادے کی نعمت سے نواز رکھا تھا اس نے وہ ٹھان لیا میں نے ہر صورت کام یاب ہونا ہے اور لوئی بہرحال کامیاب ہو گیا اس نے 1839 میں ایک ایسا سسٹم ایجاد کر لیا جس کے ذریعے دنیا بھر کے اندھے کتابیں پڑھ سکتے تھے لوئی نے یہ سسٹم ایجاد کرنے کے بعد باقی زندگی اس کی ترویج اور پھیلا میں لگا دی وہ یہ سسٹم لے کر پورے یورپ میں گیا یہ بادشاہوں اور سیاست دانوں سے ملا اس نے تعلیمی ماہرین کے ساتھ مذاکرات کیے اور اس نے عوام کوبھی سمجھایا وہ 1852 تک زندہ رہا وہ زندگی کی آخری سانس تک اس سسٹم کی اشاعت میں لگا رہا مگر بدقسمتی سے اس کے انتقال تک یورپ میں یہ نظام کام یاب نہ ہو سکا۔

لوئی کے انتقال کے بعد یورپ میں اندھوں کے حقوق کے لیے تحریکیں شروع ہوئیں اور صرف دو برسوں میں لوئی کا بنایا ہوا سسٹم پورے یورپ میں رائج ہوگیا یورپ کے 14 ملکوں نے تمام بڑی کتابیں لوئی کے نظام پر منتقل کرنا شروع کر دیں آج لوئی کا بنایا ہوا بریل سسٹم پوری دنیا میں رائج ہے دنیا میں ہر سال بریل پر ہزاروں کتابیں شایع ہوتی ہیں آپ اور میں دونوں اس سسٹم کے بارے میں جانتے ہیں لیکن ہم میں سے بہت کم لوگ جانتے ہوں گے بریل سسٹم کو بریل سسٹم کیوں کہا جاتا ہے؟ یہ سسٹم بنانے والے کے نام سے مشہور ہے لوئی کا پورا نام لوئی بریل تھا اور دنیا میں جب بھی کوئی اندھا شخص بریل پر کوئی حرف کوئی لفظ پڑھتا ہے تو وہ بے اختیار لوئی بریل کی کوششوں کا اعتراف کرتا ہیوہ بریل کی نیکیوں میں اضافہ کرتا ہے۔

دنیا میں 20 ایسی ایجادات ہیں جنھیں ایجادات کی ماں قرار دیا جاتا ہے یہ وہ ایجادات ہیں جنھوں نے آگے چل کر ایجادات کے ہزاروں بچوں کو جنم دیا یہ بچے ہماری سماجی زندگی کا حصہ ہیں ہم ان بچوں کے بغیر آرام دہ زندگی نہیں گزار سکتے ان 20 ایجادات میں بریل بھی شامل ہے بریل نے دنیا کو پہلی بار بتایا معذور بھی عام انسانوں کی طرح زندگی گزار سکتے ہیں چنانچہ بریل کے بعد ایسی سیکڑوں چیزیں ایجاد ہوئیں جنھوں نے آگے چل کر معذوروں کی زندگی آسان بنا دی اور لوئی بریل اس ٹرینڈ کا بانی تھا لوئی نے بریل ایجاد کر کے دنیا کو یہ پیغام بھی دیا ایجادات کی اصل ماں ضرورت ہوتی ہے آپ دنیا میں ضرورت پیدا کریں چیزیں خود بخود پیدا ہوجائیں گی.

کاش ہم لوئی بریل کے اس نقطے کو سمجھ لیں ہم یہ جان لیں دنیا کے تمام مسائل انسان کے لیے ہیں اور یہ مسئلے انسان ہی نے حل کرنے ہیں ہم یہ نقطہ جس دن جان لیں گے ہمارے پچاس فیصد مسائل حل ہو جائیں گیملک میں اس کے بعد بے روزگاری رہے گی جہالت رہے گی اور نہ ہی بدامنی بے چینی لوڈ شیڈنگ اور ٹریفک کا شور۔ ہم پاکستانی بدقسمتی سے سیکڑوں مسائل کا شکار ہیں مگر ہم یہ مسائل حل کرنے کے بجائے دوسروں کی طرف دیکھ رہے ہیں ہم یہ چاہتے ہیں گلی میں گند ہم ڈالیں گھر کا پانی ہم سڑک کی طرف نکال دیں ہم سڑک پر اندھا دھند موٹر سائیکل چلائیں ہم گاؤں میں اسپتال بننے دیں اور نہ ہی ڈسپنسری ہم اسکول بھی کھلنے نہ دیں ہم اپنے جعلی ڈگری ہولڈر بھائی کو اسکول اور کالج میں ملازمت دلا دیں ہم واپڈا کے کھمبے سے تار اتار لیں ہم بلا ٹکٹ ٹرین میں سفر کریں ہم سرکاری عمارتوں کے بلب چوری کر لیں ہم معاشرے کے نالائق ترین شخص کو ایم پی اے اور ایم این اے منتخب کریں اور ہم دن رات کبھی اسلام کبھی پاکستانیت اور کبھی مشرقیت کی بنیاد پر دوسروں کو تکلیف دیں۔

مگر ریاست اس کے باوجود ہماری جان مال اور عزت کی حفاظت کرے یہ ہمیں صاف پانی بھی فراہم کرے اعلی تعلیم بھی روزگار بھی انصاف اور پاک صاف ماحول بھی۔ کیا یہ ممکن ہے؟ ملک کے 25 کروڑ لوگ جب روزانہ درخت کی شاخیں کاٹیں گے تو درخت کیسے سرسبزاور شاداب رہے گا؟ ملک کیسے آگے بڑھے گا؟ آپ لوئی بریل سے لے کر نیوٹن اور مادام کیوری سے لے کر آئن اسٹائن تک دنیا کے تمام محسنوں کے پروفائل پڑھ لیں آپ کویہ جان کر حیرت ہو گی یہ تمام لوگ اکیلے تھے ان کے پیچھے کسی حکومت کا کوئی ہاتھ نہیں تھا یہ تھے اور بس ان کی دیوانگی تھی اور ان لوگوں نے آخر میں اپنے جیسے انسانوں کی زندگی سہل بنا دی یہ لوگوں کی بے نور زندگی میں رنگ بھرتے چلے گئے ہمارا معاشرہ بھی لاچار اور بیمار ہے اس معاشرے کو بھی لوئی بریل جیسے لوگ چاہییں ایسے لوگ جو بے بس لوگوں کا ہاتھ تھامیں اور زندگی کی بے نور گلیوں میں راستے ٹٹولنے والوں کو سکون اور کام یابی کی منزل مل جائے۔

دنیا میں تین قسم کے لوگ ہوتے ہیں ایک وہ لوگ جو لوئی بریل کی طرح اپنی زندگی تیاگ کر دوسروں کے مستقبل روشن کرتے ہیں دو وہ لوگ ہیں جو لوئی بریل جیسے لوگوں سے سیکھ کر دوسرے لوگوں کو سکھاتے ہیں اور تین ہمارے جیسے لوگ جو مرنے تک آسمان سے نصرت اترنے کا انتظار کرتے ہیں جو غیبی امداد کے انتظار میں عمر کا سفر رائیگاں کر دیتے ہیں ہمارے معاشرے کو پہلی قسم کے لوگ درکار ہیں وہ لوگ جو مسائل حل کرنے کے لیے اپنی جان لڑا دیں اللہ تعالی انسانوں کو برابر صلاحیتیں دیتا ہے۔

آپ دنیا کے کسی کونے میں چلے جائیں آپ کو دن 24 گھنٹے مہینہ 30 دنوں اور سال 365 دنوں کا ملے گاآپ کو دنیا کے تمام انسانوں کے منہ پر دو آنکھیں دو کان ایک ناک اور بدن پر دو ہاتھ اور دو پاں ملیں گے ہم سب برابر ہیں بس دنیا کی چند قومیں اپنے ان دو ہاتھوں دو آنکھوں دو کانوں اور ایک ناک کا استعمال سیکھ لیتی ہیں چنانچہ یہ آگے نکل جاتی ہیں جب کہ ہم لوگ ان کا استعمال نہیں جانتے ہم اپنے سارے حواس اپنی ساری صلاحیتیں کھانا کھانے اور واش روم جانے میں خرچ کر دیتے ہیں ہم لوئی بریل کی طرح وقت کو وقت سمجھ کر استعمال نہیں کرتے ہم اسے انسانوں کی فلاح پر نہیں لگاتے۔ میری آپ سے درخواست ہے آپ لوئی بریل بنیں آپ اندھا رہ کر دوسروں کے ٹکڑوں پر نہ پلیں آپ معاشرے کے گداگر نہ بنیں آپ معاشرے کا لیڈر بنیں بالکل اس طرح جس طرح لوئی بریل نے بریل بنا کر دنیا بھر کے اندھوں کی انگلیوں پر آنکھیں لگادی تھیں جو خود اندھیروں میں بھٹکتا رہا لیکن اس نے دوسروں کو علم کی روشن گلیوں میں اترنے کا راستہ دکھا دیا۔

بشکریہ روزنامہ ایکسپریس