پاکستان ہی نہیں دنیا بھر میں سیاسی معاملات پر تبصرہ آرائی کرنے والوں کی اکثریت افغان طالبان کو محض جنونی جنگجو شمار کرتی ہے۔ اس حقیقت کا ادراک نہیں کر پائی ہے کہ ان کے چند رہنما سفارت کاری کے ہنر پر رشک آمیز گرفت کے حامل ہیں اور بسااوقات میڈیا کے ذریعے ایسی چال چل دیتے ہیں کہ بندہ حیران ہوجاتا ہے۔
روایتی میڈیا کے ناظرین وقارئین کی اکثریت گزشتہ چند برسوں سے افغانستان کوبھلاچکی ہے۔ ان کی نظر میں اگست 2021 میں امریکی افواج افغانستان میں 20برس تک خجل خوار ہونے کے بعد انتہائی ذلت آمیز انداز میں وہاں سے نکلنے کو مجبور ہوئیں۔ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے افغانستان سے نکل جانے کے بعد وہاں اقتدارمیں لوٹی طالبان حکومت کو کسی ایک ملک نے ابھی تک تسلیم نہیں کیا ہے۔ سفارتی اعتبارسے گویا افغانستان دنیا سے قطعا کٹ چکا ہے۔ ایک تنہا جزیرہ۔
عمومی تصور کے برعکس پاکستان سمیت دنیا کے بے شمار ممالک بے تحاشہ وجوہات کی بنیاد پر طالبان حکومت سے غیر رسمی روابط برقراررکھنے کو مجبور ہیں۔ پاکستان کا فوری مسئلہ حال ہی میں ابھری دہشت گردی کی تازہ لہر ہے۔ اس کی زد میں آکر بدھ کے دن ہی باجوڑ میں اے این پی کے اہم رہنما اور سابق سینیٹر ہدایت اللہ تین ساتھیوں سمیت جاں بحق ہوئے۔ حکومت پاکستان ٹھوس اطلاعات کی بنیاد پر دعوی کررہی ہے کہ پاکستان میں حالیہ دہشت گردی کے ذمہ دار وہ افراد ہیں جو افغانستان سے ہمارے ہاں درآتے ہیں۔ عوامی جمہوریہ چین اس سوچ سے متفق ہے۔ بیان بازی کے بجائے نہایت نپے تلے انداز میں اس دعوی کی تصدیق کرتا ہے کہ ہمارے ہاں سی پیک کے تحت چلائے کئی بڑے منصوبوں پر کام کرنے والے چینی ہنرمندوں کے قاتل افغانستان میں مقیم دہشت گرد گروہوں سے تعلق رکھتے ہیں۔
دہشت گردی کے تناظر میں پاکستان اور افغانستان کے مابین سنگین سے سنگین تر ہوتے اختلافات مگر آج کے کالم کا موضوع نہیں۔ مقصد فی الوقت محض یہ اجاگر کرنا ہے کہ امریکی صدارتی انتخابات سے محض چار ماہ قبل افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے نہایت مہارت سے دوحہ مذاکرات کے تیسرے راؤنڈ کے اختتام پر ایک خبر پھوڑی ہے۔ اس کے ذریعے امریکی میڈیا اور عوام کو یاد دلایا ہے کہ دو امریکی شہری ابھی تک طالبان کے زیر حراست ہیں۔ کابل انہیں رہا کرنے کو آمادہ ہے مگر ان کی رہائی کے بدلے کئی دہائیوں سے گوانتاناموبے جزیرہ کے قیدخانوں میں رکھے چند افغان شہریوں کو آزاد دیکھنا چاہ رہا ہے۔
ذبیح اللہ مجاہد کی زبان سے دو امریکی شہریوں کی افغانستان میں گرفتاری کی تصدیق مجھ جیسے صحافی دیگر حالات میں نظرانداز کردیتے۔ ذبیح اللہ مجاہد نے مگر ان کا ذکر بائیڈن اور ٹرمپ کے درمیان آئندہ صدارتی انتخاب کیلئے ہوئے پہلے مباحثے کے چند ہی دن بعد کیا ہے۔
افغانستان بائیڈن اور ٹرمپ کے درمیان ہوئی بحث کا اہم موضوع نہیں تھا۔ فقط ایک بار ٹرمپ نے اس کے دوران نہایت نفرت وحقارت سے بائیڈن کو افغانستان سے امریکی افواج کی ذلت آمیز واپسی کا ذمہ دار ٹھہرایا۔ ذبیح اللہ مجاہد کی جانب سے طالبان کے زیر حراست امریکی قیدیوں کا ذکر مذکورہ تناظر میں امریکی عوام کو یاد دلائے گا کہ واشنگٹن ان دنوں بھی طالبان سے مذاکرات کو مجبور ہے اور خاموش سفارت کاری کے ذریعے کابل میں گرفتار افراد کی امریکہ کی نگرانی میں قائم ہوئی جیلوں میں قید افغانوں کے بدلے رہائی کا طلب گار بھی۔
امریکی شہریوں کی افغان دہشت گردوں کے بدلے خاموش سفارت کاری کی بدولت رہائی کی کاوشیں ٹرمپ کو بائیڈن کا رگڑا لگانے کے لئے تباہ کن مواد فراہم کریں گی۔ وہ مصر رہے گا کہ 81برس کی عمر میں مبینہ طورپر ہوش وتوانائی سے محروم ہوا امریکی صدر بائیڈن دنیا کی واحد سپرطاقت کو دہشت گردوں کے تھلے لگائے ہوئے ہے۔ اپنے شہریوں کی دہشت گردوں کے بدلے رہائی کا خواہش مند ہے۔ اس پہلو کو اپنی تقاریر میں اجاگر کرتے ہوئے ٹرمپ امریکی عوام کو یہ سوچنے کو مجبور کرے گا کہ افغانستان اب بھی امریکی قومی سلامتی کے تناظر میں اہم ملک ہے۔ اسے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔
خاموش سفارت کاری کے ذریعے قیدیوں کے تبادلے کی خبر بائیڈن انتظامیہ کو دفاعی انداز اختیار کرنے کو مجبور کرسکتی ہے۔ صدارتی انتخاب کے آخری مرحلے میں داخل ہوتے ہوئے وہ امریکہ کو ایک کمزور ملک نہیں دکھانا چاہے گی جو طالبان کے آگے نظر بظاہر جھک جاتا ہے۔ یہ امکان بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ خود کو طاقتور ثابت کرنے کیلئے بائیڈن انتظامیہ خاموش سفارت کاری کے ذریعے اپنے شہریوں کی رہائی کے لئے ہورہے مذاکرات ختم کردے اور اس امر کی بابت بھی سوچنا شروع کردے کہ طالبان کے زیر حراست افراد کو دیگر طریقوں سے رہا کروایا جاسکتا ہے یا نہیں۔بائیڈن انتظامیہ جو بھی فیصلہ کرے طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اسے صدارتی انتخاب کے عین قریب سنگین تر مخمصہ میں الجھا دیا ہے۔
وسیع تر تناظر میں دیکھیں تو یہ خیال بہت شدت سے ذہن میں آتا ہے کہ طالبان جیسے انتہا پسند گروہ بائیڈن جیسے لبرل کہلاتے افر اد کے مقابلے میں اکھڑ مزاج ٹرمپ جیسے رہ نما?ں سے معاملات طے کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ دوحہ میں طالبان اور امریکہ کے درمیان مذاکرات کا آغاز باراک اوبامہ کے دور صدارت ہی میں شروع ہوگیا تھا۔ مذاکرات کا عمل مگر بہت سست رفتار رہا۔ اوبامہ کی لبرل انتظامیہ طالبان انتہا پسندوں کے آگے سرنگوں ہوتی نظر نہیں آنا چاہ رہی تھی۔ افغانستان میں حامد کرزئی اور اشرف غنی کی حکومتیں بھی ان کے بارے میں شکوک وشبہات کا اظہار کرتی رہیں۔ اقتدار سنبھالتے ہی مگر ٹرمپ نے واضح الفاظ میں اپنے معاونین کو سختی سے آگاہ کیا کہ اسے امریکی افواج کی افغانستان سے ہر صورت واپسی درکار ہے۔ بالآخر اس کی ثابت قدم ضد کی وجہ سے ایک معاہدہ ہوا جس کے ذریعے امریکہ نے اپنے کئی بنیادی اصول بھلاکر افغانستان سے انخلا کی راہ بنائی۔ ذبیح اللہ مجاہد کی اقتدار میں واپسی ایک حوالے سے ٹرمپ کی پالیسیوں کی بدولت ممکن ہوئی۔ اب ٹرمپ کی وائٹ ہاؤس واپسی طالبان کو اپنے مفاد میں بائیڈن کے مقابلے میں زیادہ بہتر لگ رہی ہوگی۔
بشکریہ روزنامہ نوائے وقت