آج استادوں، ماہرین تعلیم اور میرے جیسے بڈھوں کو یاد کراؤں کہ 1945 میں پانچویں کلاس کاسائنس کا تحریری پرچہ مجھے ملا ہے۔ نمونہ ملاحظہ ہو (1)دن رات چھوٹے بڑے کیوں ہوتے ہیں، (2)سورج چاند کی طرح اپنی شکل نہیں بدلتا، (3)چاند سورج کے برابر یا بڑا نظر آتا ہے، (4)بعض ستارے سورج سے بڑے ہونے کے باوجود چھوٹے کیوں لگتے ہیں۔ آگے سوال ہے (5)طول و بلاد عرض کے قواعد لکھیں، (6)خودربین لیکر کسی ذرے کا مشاہدہ کریں۔ یہ پرچہ انگریزوں نے بنایا تھا۔ بس مثال کیلئے اتنے سے سوال کافی ہیں کہ ایسے سوالوں کے جواب ہمارے آج کے بچوں کو جو دسویں کا امتحان دیتے ہیں۔ ان کو اس طرح کے ایک بھی سوال کا جواب نہیں آتا ہوگا۔
گزشتہ ہفتہ بہت مصروف اس لئے تھا کہ جن جن اداروں کے پاس رقم بچی ہوئی تھی۔ انہیں سارا سال سونے کے بعد خواب آیا کہ انہیں فورا خرچ کرو۔ عورتوں پر تو کئی روزہ کانفرنس ہوئی۔ جیسا کہ ادیبوں پر ہوئی تھی اور ہر طبقہ فکر نے مظاہرے اور جلسے کئے کہ طالبان پربچیوں کا لڈی ڈالنا بھی گراں گزر رہا ہے اور سوشل میڈیا کے بے وقوف بچے ایسے فتووں کو خوب اچھال رہے ہیں۔ ایسے توہمات تو صدیوں پرانے ہیں۔ ہمارے اپنے لوگ بے وقوفی میں انہیں اچھالتے ہیں۔ ہمارے یہاں ذمہ داری اور قانون کی عملداری قیام پاکستان ہی سے مفقود ہے۔ ورنہ یہ کیسے ممکن کہ راولا کوٹ جیل سے بیک وقت 19 قیدی فرار ہوجاتے۔ دیکھا یہ بھی گیا ہے کہ ہر سال ان فتووں کو مکمل کرنے کیلئیدہشت گردی بڑھتی ہے۔ ان کو دیکھ کر نوجوانوں نے آسان کمائی کا طریقہ ایسے حاصل کیا کہ پولیس تو اپنی دیہاڑیاں بنارہی ہے۔ نوکری ملتی نہیں۔ مل کر راہ چلتی خواتین اور نوجوانوں پہ ہاتھ صاف کرو۔ اب تو پیارے نوجوانوں پر اندھا دھند گولیاں چلتی ہیں۔ مجال ہے کراچی کی پولیس کے سر پر جوں بھی رینگ جائے۔ اب تو عدلیہ اور وہ بھی سپریم کورٹ کہہ رہی ہے کہ الیکشن کمیشن نے عجب کھیل کھیلا اور سب سے بڑی پارٹی کو الیکشن سے محروم رکھا اور وہ خود کو آزاد امیدوار کہتے رہے اور منتخب بھی وہی ہوتے رہے۔ یہاں کھڑا ہوا تنازع فارم 47 کا ،رات بارہ بجے کے بعد سیاسی اعدادوشمار اگلے دن تک بدلتے رہے۔ امید ہے سپریم کورٹ اس الجھن کو بھی دور کرکے ایک دفعہ تو سرخرو ہو۔ اس وقت سینٹ میں پیپلزپارٹی کے علاوہ ن لیگ کے ساتھ پی ٹی آئی کے سینیٹرز بیٹھیسوال کررہے ہیں۔ اس چکر کو ختم کریں۔ کیا وہی منظر ہوگا کہ 1953 میں فیض صاحب سمیت سارے لوگ ایک دم رہا بھی کردیئے گئے اور کیس بھی ختم ہوگیا۔ ایسا ہی ولی خان کی پارٹی، سہروردی صاحب اور شیخ مجیب کے ساتھ ہوا۔ کیسز ختم، اس کا کہیں حوالہ بھی نہیں ملتا۔ ویسے تو اچانک دس سال کیلئے نوازشریف ملک چھوڑتے اور بیگ سنبھالتے جہاز چڑھے، پھر آتے جاتے دیکھے جاتے رہے، یہی مرحلہ بے نظیر کے ساتھ ہوا۔ آخر کو دشمنوں نے بے رحمی سے اس کو جوانی ہی میں مار دیا اور نوازشریف آتو گئے مگر رنگ کھلے ہوئے تھے عمران خان کے۔ اب وہی افسانہ کہ مریم بی بی بھی اندر، نواز، شہباز جو جو ہاتھ لگا اندر۔ مگر اب باگ ڈور باجوہ صاحب کے ہاتھ میں اور حکومتی زنجیر فیض حمید کے ہاتھ میں۔ اس وقت بھی ساری طاقت تو چیف صاحب کے ہاتھ ہے اور فلم چل رہی ہے عمرو عیار کی۔ اب تو مصنوعی ذہانت کے ساتھ مصنوعی آئس کامیابی سے چل رہی ہے کہ افغانستان نیپوپی کے سارے کھیت صاف کرکے یہ کام دکھا یا ہے مگر اس وقت دوحہ کانفرنس سے پہلے ہی طالبان نے کہہ دیا ہے کہ خواتین کا مسئلہ ہمارا اندرونی مسئلہ ہے۔ نیتن یاہو کی طرح طالبان جو چاہتے ہیں کررہے ہیں۔ کیا عالمی قوتیں ان کے سامنے بے بس ہوگئی ہیں۔ فی الوقت سوڈان میں بھی آپا دھاپی ہے۔ فرانس میں الیکشن تیار ہیں۔ نیٹو اور یورپین کے الیکشن ہوچکے۔ ایران اور انگلینڈ میں بھی افراتفری ہے۔ ان سب ملکوں اور اداروں کا حوالہ اس لئے دیا ہے کہ یہاں اور امریکہ کے ہونے والے الیکشن میں بھی اپ رائٹ (اسکی اردو مجھے نہیں آتی) حاوی نظر آرہا ہے۔ ان ملکوں میں بھی پاکستان اور انڈیا کی طرح جو لوگ مسلط کیے جاتے رہے ہیں۔ (منتخب کم ) ان سب کا انجام دیکھ کر زیادہ تر عوامی سطح پر کچھ قابل عزت لوگوں کو اپنے اپنے ملک میں منتخب کرنے کی تحریک عالمی سطح پر چل رہی ہے۔ یہ اپ رائٹ طبقے ترقی پسند نہیں بلکہ اپنی قومیت اور تہذیب کو محفوظ اور استحکام دینے کیلئے، عوام خودانہیں ووٹ دینے کا فیصلہ کرتے ہیں (جیسا کہ ہمارے دونوں ملکوں میں ہوا)۔ یہ بات قابل غور ہے کہ عوام (خاص کر نوجوانوں کے انتخاب)کوصائب اور قابل تقلید کہا جاسکتا ہے۔ یہ سوال ابھی جواب کا متحمل نہیں ہوسکتا کہ کچھ سیٹوں کا معاملہ عدالت اور وہ بھی سپریم کورٹ میں ہے۔ ویسے اسمبلی تک جو لوگ پہنچے ہیں۔ ان کی رولا ڈالنے کے علاوہ کوئی کارکردگی نظر نہیں آرہی اور بے منتخب سیاست دان ثنااللہ صاحب کہہ رہے ہیں کہ عمران خان کسی صورت رہا نہیں ہوسکتا۔ ایسے اعلانات، خود آئی ایم ایف اور حکومت کیلئے مشکل حالات اور باہمی مفاہمت کی کوشش کو رائیگاں کرسکتے ہیں۔ نئے بجٹ نے میرے لئے مشکلات میں اضافہ کیا ہے کہ میری بہو نے مجھے امریکہ سے کتابیں بھیجی ہیں، اس پر ہم سیہزار روپے ٹیکس مانگ رہے ہیں۔یہ کتابیں مجھے کتنی مہنگی پڑ رہی ہیں۔ ابھی توٹیکسوں کا آغاز ہے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ