کرہ ارض پر پچھلی کئی دہائیوں میں وجود پانے والے کئی قضیے اپنے منطقی اور فیصلہ کن انجام جانب گامزن ضرور، دو واضح متحارب گروپ دونوں اطراف سے یقین دہانیاں کرائی جا رہی ہیں کہ ایٹمی ہتھیار کا استعمال ہو گا اور فریق مخالف نیست و نابود ہو جائیگا۔ مجھے کسی کی ہار جیت سے غرض نہیں، میری غرض! ہاتھیوں کی لڑائی نے پاکستان منتقل ہونا ہے۔ پاکستان کے استحکا م کا تعین لڑائی کے انجام سے نتھی ہے۔ صدر زرداری کا یہ احسان بھلا کیسے بُھلا سکتے ہیں کہ گوادر کو سنگاپور سے واپس لیا،جسے تصرف میں لانے کیلئے پچھلے ڈیڑھ سو سال سے ایک دنیا کی رالیں ٹپکتی ہیں۔ مغربی دنیا کی بنیادی حکمت عملی اور رہنما اصول 2اینگلو افغان جنگیں، لمبی سرد جنگ، 2افغان جنگیں مشترکہ محرک گوادر اپنے تسلط میں رہا تو دونوں بڑی طاقتیں تاحد نگاہ دور رہیں گی۔ چین امریکہ ممکنہ ٹکراؤ کی صورت میں چین بحر ہند میں بے دست وپا رہے گا، گوادر چینی اسٹرٹیجی کا جزو لاینفک ہے ۔چین کیلئے یورپ، افریقہ اور مشرق وسطیٰ سے باہمی تجارت، خام تیل و قدرتی گیس کی گوادر کے ساحل سے تابخاک کاشغر نقل وحمل پر 80% اخراجات کم ہو جائیں گے۔ بحیرہ عرب سے بحری جہاز بیجنگ بہ راستہ آبنائے مالیکا 12000کلومیٹر جبکہ کاشغر 2100 کلومیٹر فاصلہ ہے۔ بیجنگ سے کاشغر 4000کلو میٹر اسکے علاوہ، چین کو یہ راستہ ہر صورت اپنانا اور محفوظ بنانا ہے۔ یہی پاکستان کی سالمیت کی گارنٹی ہے۔
80 کی دہائی میں سوویت یونین ٹوٹا تو امریکہ اکلوتی طاقت بن کر ابھرا ۔ اُن دنوں چین سیاسی، ٹیکنالوجی، فوجی، اقتصادی لحاظ سے امریکہ سے بہت پیچھے تھا۔ تب ہی تو امریکی صدر ریگن نے رعونت میں اعلان فرمایا، ہم دنیا کو ایک ’’نیو ورلڈ آرڈر‘‘ دیں گے اور اگلی جنگیں ہم خلا ( STARWAR ) سے لڑیں گے۔ دونوں دعوے بن کھلے مرجھا گئے۔میں ان دنوں امریکہ تھا۔ نابغہ روزگار، عقل ودانش کا منبع اور بین الاقوامی امور پر غیر معمولی مہارت انکل نسیم انور بیگ نیویارک میں ڈاکٹر خورشید حیدر کے گھر مدعو تھے۔ بن بلائے پہنچ گیا اور چھوٹتے ہی سوال داغا، نسیم انکل ’’نیو ورلڈ آرڈر کیا بلا ہے‘‘؟ جامع جواب ملا! ’’ایسے نظام کی تشکیل اور ایسے مقام کی تلاش جس کو ہتھیا کر امریکہ اگلے سو سال دنیا کی معیشت اور عسکریت کو کنٹرول کر سکے۔ تیل اور گیس پیدا کرنیوالے سارے ممالک بھی تابع رکھنے ہیں‘‘۔ کشمیر کو نیم خود مختار ریاست بناکر امریکی فوجی اڈے قائم کرنے ہیں تا کہ روس دوبارہ پنپ نہ پائے اور چین کبھی سر اٹھا نہ سکے۔ 1988 میں ’’پروجیکٹ فاردی نیو امریکن سنچری‘‘ یہی کچھ تھا، 21ویں صدی کی اکلوتی طاقت امریکہ، ساری دنیا سرنگوں رہے گی۔ یاد رہے، جنرل مشرف امریکی ایجنڈا لیکر ہی تو آگرہ پہنچے تھے، بھلا ہو بھارت کا کہ امریکی عزائم خاک میں ملا دیئے۔ امریکی ایجنڈا ایک ہی، افغانستان سے کشمیر مع شمالی علاقہ جات پہنچنا، چین اور روس پر چیک رکھنا تھا۔ گوادر تک دونوں ممالک کی رسائی ’’ناممکن‘‘بنانا تھی۔ اللہ کی اسکیم، افغانستان، ویت نام سے زیادہ بھیانک خواب ثابت ہوا ۔اگلی تین دہائیاں امریکہ اکلوتی عالمی طاقت ضرور رہا، رعونت میں کئی محاذ بھی کھولے۔ ایک محاذ نہ سمٹ پایا، پے درپے ناکامی نصیب بنی۔
2014 تک چین اور روس پوری انگڑائی لے چکے تھے، امریکہ سمجھ چکا تھا مگر مشرق تا مغرب، دلدل میں پھنس چکا تھا۔ موقع غنیمت جان کر چین نے ساؤتھ چائنا سمندر کے ہزاروں مربع میل اور کئی جزیرے قبضہ میں لے لئے۔ آج بھی چینی سمندر میں تناؤ موجود ہے۔ دوسری طرف 2014 میں روس شام پہنچ گیا جہاں راوی چین لکھ رہا تھا اور امریکہ کو بے آبرو کر کے نکال باہرکیا ۔ امریکہ 4 دہائیوں پر محیط قضیہ کیا سمیٹتا؟ یوکرائن، اسرائیل جنگ اور جنوبی چینی سمندر جیسے نئے قضیہ گلے پڑ گئے۔ آج دنیا تیسری عالمی جنگ کی دہلیز پر ہے۔ کسی تناؤ کی صورت میں بھارت امریکہ نے بحر ہند میں چینی تجارت، خصوصاً تیل کی ترسیل کو ناممکن بنانا ہے۔
2014 ءمیں جیسے ہی CPEC کو عملی جامہ پہنانے کا وقت آیا، بجائے سی پیک کو پروان چڑھا کر پاکستان کو ترقی ملتی، اسٹیبلشمنٹ بوجوہ ذاتی مفاداتی ایجنڈا امریکہ کے ہاتھوں کھیل گئی۔ جنرل راحیل، جنرل ظہیر کی جوڑی یا جنرل باجوہ جنرل فیض اپنے مفادات کیلئے رکاوٹ بنے۔ 2018کے کامیاب سیاسی انقلاب کے بعد جیسے ہی عمران خان کو مسند پر بٹھایا، جنرل باجوہ عمران خان نے پہلی فرصت میں CPEC بند کرا دیا۔ یہی وجہ کہ جنرل باجوہ کی توسیع مدت ملازمت میں کئی پردہ نشینوں کی دلچسپی دیدنی تھی۔جنرل عاصم منیر کی تقرری رکوانے میں امریکہ مع پاکستانی عملہ متحرک رہے مگر جسے اللہ رکھے بھلا اسے کون چکھے۔ جنرل عاصم منیر کی تعیناتی کے بعد سی پیک کو رفعتیں ملنا اچنبھے کی بات نہیں۔ اب جبکہ پچھلے چند ماہ سے پاک چین دورے اور معاملات سرعت کیساتھ ڈگر پر لائے جا رہے ہیں۔ امریکی پیٹ میں مروڑ سمجھ میں آتا ہے۔ قراردادیں، UN ہیومن رائٹس گروپ رپورٹ بلکہ آنیوالے دنوں میں FATF سے بھی نبٹنا ہوگا ۔
پچھلے کئی سال سے چین اپنی بیشتر جھڑپیں اور جنگیں ہاتھا پائی سے جیت رہا ہے۔ دوسری طرف، روس ایٹمی ہتھیار کے استعمال کیلئے بیتاب ہے۔ بفرض محال، پاکستان پر امریکی یلغار ہوئی تو چین ہاتھا پائی پر ہی اکتفا کرے گا؟ البتہ روس کسی وقت بھی مہلک ہتھیار استعمال کرنے کا متمنی ہے۔ چین روس طاقت امریکی پہنچ سے باہر ہے، SCO کے اجلاس کے تین نکاتی ایجنڈے کا پہلا نکتہ دہشتگردی کی سرکوبی اور ممبر ممالک میں امن وامان قائم کرنا ہے۔ اسی مناسبت سے جہاں آپریشن ’’عزم استحکام‘‘ اور اجلاس سے مودی کی غیر حاضری سب خوش آئند ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) اور برکس کا بننا محیر العقول، نئی کرنسی، نئی عالمی تنظیم (UN) ، نیا مالیاتی نظام اور سب سے بڑھ کر ’’نیا ورلڈ آرڈر‘‘، امریکہ ورلڈ آرڈر اختتام پذیر، چینی ورلڈ آرڈر پرواز میں۔
بشکریہ روزنامہ جنگ