جب کبھی ایسی خبر پڑھتا ہوں کہ فلاں شہر کے فلاں محلے میں کوئی عورت غربت کے ہاتھوں تنگ آکر بچوں سمیت نہر میں کود گئی ہے یا قرضے سے پریشان شخص نے اپنے بیوی بچوں کو قتل کرکے خود کشی کرلی ہے، تو لرز جاتا ہوں اور سوچتا ہوں کہ کیا اس محلے میں انسان نہیں رہتے؟ انھوں نے اس مصیبت کی ماری عورت کی خبر کیوں نہ لی، شہر والوں نے اس غریب اور مقروض شخص کا ہاتھ کیوں نہ تھاما،اس کے مددگار کیوں نہ بنے اور اسے زندگی کا خاتمہ کرنے سے کیوں نہ روکا؟ ایسے غریب لوگوں کا قرضہ، بینکوں سے قرضہ معاف کرانے والی نام نہاد معزز شخصیات کی طرح اربوں روپے نہیں چند ہزار روپے ہوتا ہے۔
اتنے پیسے تو علاقے کا ایم پی اے یا ایم این اے بھی انھیں دے سکتا ہے۔ اس ضلع کا ڈی سی کیوں سویا رہا، وہ اتنا بے خبر کیوں رہا، اور اس نے انسانی جانیں بچانے کے لیے اپنے فرائض سے کیوں غفلت برتی؟ کیا زرپرستی کی لہرنے ہمارے دلوں سے ہمدردی کا احساس ختم کردیا ہے؟ کیا ہم اس قدر بے نیاز ہوگئے ہیں کہ اپنی ذات اور مفاد کے علاوہ سوچنا ہی ترک کردیا ہے۔
ایسی بے نیازی، جو خلوص اور ہمدردی کے احساسات کا گلہ گھونٹ دے، معاشرے کا حسن ختم کردیتی ہے اور انسانی بستیوں کو زہرناک بنادیتی ہے۔ یہ بے نیازی ہر جرم سے بڑا جرم ہے، اسے لگام ڈالنا ہوگی، اس کا سر کچلنا ہوگا۔ راقم انھی سوچوں میں گم تھا کہ سامنے نظر پڑی۔ گلی کے موڑ پر ایک نیا مکان تعمیر ہورہا تھا، آگ برساتی ہوئی گرمی میں بھی مزدور کام کرنے پر مجبور تھے۔ مادہ پرستی سے متاثر دماغ نے کہا کہ وہ مکان کسی اور کا ہے، ہمارا اس کے معماروں اور مزدوروں سے کیا لینا دینا۔ مگر دل نے کہا کہ کیا ہوا جو تعمیر ہونے والا مکان کسی کا ہے۔
اس جھلسا دینے والی گرمی میں وہاں کام کرنے والے تو ہمارے ہیں، انسان ہونے کے ناطے ان سے ہمارا سب سے دیرینہ رشتہ ہے۔وہ ہمارے بھائی ہیں۔ ان سے پوچھنا چاہیے کہ اتنی گرمی اور تپش میں وہ پینے کے لیے ٹھنڈا پانی کہاں سے لیتے ہیں؟ پتہ کرنے پر معلوم ہوا کہ صبح جو پانی لاتے ہیں وہ ایک گھنٹے میں ہی گرم ہو جاتا ہے لہذا ہم نے فوری طور پر ایک فیصلہ کیا جس کے تحت اب ہم ہر روز اپنے مزدور بھائیوں کے لیے دوپہر کو ایک دفعہ ٹھنڈا اور میٹھا شربت (روح افزا یا جام شِیریں) بھیجتے ہیں، ایک دو بار ٹھنڈا پانی بھیجتے ہیں اور ضرورت کے مطابق انھیں برف بھی فراہم کی جاتی ہے۔
میں تمام قارئین سے گذارش کروں گا کہ جب آپ اپنی ایئر کنڈیشند گاڑیوں میں سفر کرتے ہوئے اس قیامت خیز گرمی میں کسی سڑک پر کام کرتے ہوئے مزدوروں کو دیکھیں تو خالق اور مالک کا اسی وقت شکر ادا کریں اور اپنے بچوں کو بتائیں کہ ہم اگر آرام اور آسائش کی زندگی گزار رہے ہیں تو یہ صرف اللہ تعالی کی رحمت اور فضل و کرم ہے۔یہ ہمارا کمال نہیں ہمارا امتحان ہے۔
اگر ہمارے یہ بھائی پتھر توڑ رہے ہیں اور اتنا مشکل کام کرنے پر مجبور ہیں تو یہ اس لیے ہے کہ وہ غریب والدین کے گھر پیدا ہوئے ہیں۔اس میں ان کا کوئی قصور نہیں،یہ مزدور مشقت کرکے ہزار بارہ سو روپے کمائے گا تو پھر اس کے گھر رات کو روٹی پک سکے گی، پھر اس کے بچوں کو دودھ مل سکے گا، پھر اس کی بیمار ماں کی دوا آ سکے گی۔اگر میں غریب والدین کے گھر پیدا ہوتا تو میں ان کی جگہ پتھر توڑ رہا ہوتا۔ اللہ تعالی نے ہمیں زیادہ وسائل دیے ہیں، اس پر ہر وقت اللہ تعالی کا شکر ادا کیا کریں۔ وسائل کی فراوانی اور امارت، ایک آزمائش اور امتحان ہے۔
اس میں فیل ہونے سے بچنے اور پاس ہونے کا طریقہ صرف یہ ہے کہ غریبوں اور مزدوروں سے ہمدردی کریں اور ان کا دکھ درد بانٹنے اور ان کے لیے کچھ آسانیاں پیدا کرنے کی کوشش کریں، کسی سڑک یا بلڈنگ پر کام کرنے والے مزدوروں کو دیکھ کر بے نیازی سے گذر نہ جائیں بلکہ انھیں شربت اور ٹھنڈے پانی کی بوتلیں فراہم کیا کریں۔ آپ کے وسائل اجازت دیں تو کبھی کبھی انھیں اچھا کھانا، حلوہ، کھیر یا پلا بھی بھیج دیا کریں۔ ہم غریبوں، مزدوروں اور کم وسیلہ افراد کے لیے معمولی سی آسانی پیدا کرکے خالقِ کائنات کی خوشنودی حاصل کرسکتے ہیں۔ نبی کریمۖ کا فرمان ہے الکا سب حبیب اللہ (ہاتھ سے کام کرنے والا اللہ کا دوست ہے) ہاتھ سے کام کرنے کی فضیلت کا اس سے اندازہ لگالیں کہ آقائے دوجہاں کے فرمان کے مطابق یہ لوگ خالقِ کائنات کی دوستی کے مرتبے پر فائز ہیں۔ آپ ان سے ہمدردی کریں گے، ان کے لیے معمولی سے آسانیاں پیدا کریں گے تو ربِ کائنات آپ سے خوش ہوںگے۔
اپنی گلی میں نئے تعمیر ہونے والے مکان پر جھلسا دینے والی گرمی میں کام کرنے والے مزدور محمد صدیق کو ٹھنڈا پانی دیتے ہوئے میں دیکھ چکا تھا کہ سخت مشقت کرنے سے اس کے ہاتھوں پر چھالے پڑ گئے ہیں، دوپہر کو وہ وہیں بیٹھ کر روکھی سوکھی روٹی کھا لیتا ہے مگر جب اذان کی آواز گونجتی ہے تو ادھر ہی تھوڑی سی جگہ صاف کرکے سیمنٹ کا خالی بیگ بچھا کر اپنے خالق کے حضور سجدہ ریز ہو جاتا ہے، اور اللہ کا شکر ادا کرتا۔ میں اسے نماز پڑھتے دیکھتا تو سوچتا کہ اس مزدور کے مقابلے میں خالق و مالک نے مجھے کس قدر زیادہ نعمتوں سے نوازا ہے،اس کے پاس تو ان نعمتوں کا عشر عشیر بھی نہیں مگر وہ کس قدر شاکر ہے کہ اللہ تعالی کا پانچ وقت شکر ادا کرتا ہے۔
پھر اپنی کوتاہیوں اور لغزشوں پر نظر ڈالتا، تو شرم کے مارے سر جھکا لیتا یا منہ پھیر لیتا۔ میں یہ بھی اکثر سوچتا کہ اگر اللہ کی رحمت کے سبب ہم سب بخشے گئے تو کیا ہاتھوں سے رزقِ حلال کمانے اور کچھ نہ ہونے کے باوجود اللہ کا شکر ادا کرنے والے محمد صدیق جیسے مزدور اور آرام اور راحت کی زندگی گذارنے والے ہم جیسے لوگ یا تاجر یا کروڑوں روپے کی گاڑیوں میں پھرنے والے مولوی جنت میں ایک ہی جگہ رہیں گے؟ یہی الجھن لیے درویش کے پاس حاضر ہوا تو چند منٹ میں ہی الجھن دور ہوگئی اور ذہن صاف ہوگیا، فرمانے لگے نبی کریم صل اللہ علیہ وسلم کی بڑی مستند حدیث ہے کہ تین قسم کے لوگ جنت کے اعلی ترین حصے (وی آئی پی ایریا) میں رکھے جائیں گے۔
-1 عادل حاکم. حاکم سے مراد وزیراعظم اور وزیراعلی بھی ہے، جج، ایس پی اور ڈی سی بھی ہے اور اسپتال کا ایم ایس اور کالج کا پرنسپل بھی ہے۔ اگر وہ اپنی ذمے داری ایمانداری اور غیر جانبداری سے نبھاتے ہیں تو جنت کی اعلی ترین جگہ کے حقدار ہوں گے۔ اگر وزیراعظم یا آئی جی کسی اہم عہدے پر کسی غیر مستحق شخص کو تعینات کرتا ہے تو وہ ظلم اور ناانصافی کا مرتکب ہوتا ہے۔
-2 وہ لوگ جو اللہ کی خوشنودی کے لیے صلہ رحمی سے کام لیتے ہیں، اور انتقام کے بجائے اپنی انا کی قربانی دے دیتے ہیں۔
-3 اور تیسرے وہ لوگ جو اپنے اہل و عیال کو رزقِ حلال کھلاتے ہیں یعنی محمد صدیق جیسے لوگ، جن کی کمائی میں ذرا بھی حرام شامل نہیں جو ہاتھ سے کام کرتے اور اپنے کنبے کے لیے حلال کی روزی کماتے ہیں اور روکھی سوکھی کھا کر بھی خالق اور مالک کا شکر ادا کرتے ہیں۔ رب العالمین کے ہاں ان کا مقام اور مرتبہ اتنا بلند ہو گا کہ انھیں جنت میں صدیقین اور شہدا کے ساتھ رکھا جائے گا۔
راقم جس بستی میں رہائش پذیر ہے، وہاں ہر سیکٹر کی مسجد کشادہ اور دیدہ زیب، نمازی پڑھے لکھے ریٹائرڈ سول اور فوجی افسران اور امام صاحب، تعلیم یافتہ اور صاحبِ علم ہیں۔ امام صاحب جمعتہ المبارک کی تقریر کی خاصی تیاری کرتے ہیں اس لیے ان کا خطاب سن کر لطف آتا ہے۔ پچھلے جمعہ کو انھوں نے بتایا کہ ایک بار ایک جلیل القدر صحابی حضرت سعدبن ا بی وقاص نے نبی کریم صل اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ یارسول اللہ، میں ایسا کون سا عمل کروں کہ میری دعائیں قبول ہونے لگیں۔
آقائے دوجہاں صل اللہ علیہ وسلم نے فرمایا صرف اور صرف رزق حلال کھایا کرو۔ جو شخص کسی بھی قسم کا حرام کھاتا ہے، اس کی کوئی دعا قبول نہیں ہوگی۔اللہ تعالی ہم سب کو یعنی ہمارے سیاستدانوں، جرنیلوں، ججوں، بیوروکریٹوں، صحافیوں، دکانداروں ہر محکمے کے اعلی اور ادنی ملازموں اور عام لوگوں کو بھی صرف رزقِ حلال کھانے کی توفیق عطا فرمائیں۔
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس