وقت کتنا بھی گزر جائے، دوستوں کی باتیں یاد رَہتی ہیں۔
ایک زمانے میں میرا مشاہد حسین سیّد سے بہت ملنا جلنا تھا اور مَیں اُن کی شخصیت سے بہت متاثر تھا۔ وہ ایک مرنجاںمرنج انسان ہیں اور اُن کے ظاہر اور باطن میں کوئی فرق نہیں جبکہ بڑے بڑے سیاست دان بھی اپنے ظاہر کی حنابندی کا بہت زیادہ خیال رکھتے اور اَپنا امیج بنانے کے لیے بڑے جتن کرتے ہیں۔ آجکل تو سارا کاروبار ہی امیج تراشنے کے گرد گھوم رہا ہے۔ سیّد صاحب نے اپنے کیرئیر کا آغاز پنجاب یونیورسٹی میں لیکچرر شپ سے کیا۔ وہ علومِ سیاست کے استاد تھے۔ مَیں نے بھی اِسی مضمون میں ماسٹر کیا تھا اور شعبۂ صحافت میں آ نکلا تھا۔ جنرل ضیاء الحق کی حکومت آئی، تو مشاہد حسین سیّد کے بارے میں یہ شکایت ہوئی کہ وہ نظریۂ پاکستان کی غلط تعبیر کرتے ہیں اور طلبہ میں فکری انتشار پھیلا رہے ہیں، چنانچہ مارشل لا کے تحت اُنہیں یونیورسٹی کی ملازمت سے فارغ کر دیا گیا۔ اُنہیں حکومت کا یہ اقدام بہت راس آیا اور وُہ صحافت کے میدان میں آ گئے اور روزنامہ ’مسلم‘ کے ایڈیٹر کی حیثیت سے بہت معروف ہوئے اور سیاست کے میدانوں میں جا پہنچے۔ وہاں اُنہیں بڑا عروج ملا اور مَیں نے اُنہیں وزارت کے منصب پر بھی جلوہ افروز دیکھا اور اَپنی سیاسی جماعت سے وفاداری کا عہد نبھاتے ہوئے سلاخوں کے پیچھے بھی دیکھا۔ اُن کی سب سے بڑی خوبی اُن کی شگفتہ مزاجی، اُن کی دانش مندی اور اُن کی راست بازی ہے۔
اُن دنوں وہ اَپنی گفتگو میں ایک جملہ بار بار دُہراتے کہ ہمارے حکمرانوں کو پرانی غلطیوں کے بجائے نئی غلطیاں کرنی چاہئیں۔ غالباً وہ یہ کہنا چاہتے تھے کہ پرانی ڈگر پر چلتے رہنے کے بجائے نئے تجربات کرنے چاہئیں۔ مجھے اُن کی یہ بات بڑی عجیب لگتی، لیکن مَیں اِس پر کھلے بندوں اعتراض نہیں کر سکا تھا۔ شاید اِس کی وجہ سیّد صاحب کی دانش ورانہ ہیبت اور شان و شوکت تھی۔ مَیں سوچتا رہتا کہ سیّد صاحب نئی غلطیوں پر کیوں اصرار کرتے ہیں۔ شاید اُن کا یہ موقف تھا کہ انسان خطا کا پتلا ہے اور اِس سے غلطیاں تو سرزد ہوتی رہتی ہیں، اِس لیے حکمرانوں اور سیاست دانوں کے لیے بہتر یہی ہے کہ وہ ماضی کی غلطیوں سے چمٹے رہنے کے بجائے جدت طرازی سے کام لیں اور اَپنے اندر مہم جوئی کی صلاحیت پیدا کریں۔ آج ہم جس ماحول میں سانس لے رہے ہیں، اُس میں ماضی کی غلطیوں کا اعتراف غیرمعمولی اہمیت اختیار کر چکا ہے۔ حال ہی میں ہماری عدالتِ عظمیٰ نے اپنی اِس غلطی کا برملا اعتراف کیا ہے کہ مسٹر بھٹو کے مقدمے میں فیئر ٹرائل نہیں ہوا۔ اِس اعتراف سے شاید ہماری تاریخ کی چند شکنیں تو دور ہو گئی ہوں، مگر مسٹر بھٹو کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا جو اَبدی نیند سلا دیے گئے ہیں۔ اصل اہمیت اِس بات کو حاصل ہے کہ حال اور مستقبل میں اِس نوع کے فیصلوں سے مکمل اجتناب کیا جائے جن سے عدل اور اِنصاف کے راستے بند ہو جاتے ہوں اور اُن سے سیاسی انتقام کی بُو آتی ہو۔
ہمارے دانش ور دوست جناب سہیل وڑائچ ماضی کے گناہوں کے اعتراف اور اُن پر قوم سے معافی مانگنے پر بہت زور دَے رہے ہیں۔ اُن کا مطمح نظر یہ ہے کہ جمہوریت کے قافلے میں جو لوگ شامل ہونا چاہتے ہیں، اُنہیں سب سے پہلے اِس جرم کا اعتراف کرنا ہو گا کہ وہ آمروں کا ساتھ دیتے اور غیرجمہوری رویّوں کی پرورش کرتے آئے ہیں، اِس پر وہ آج شرمندہ ہیں اور عوام سے معافی کے طلب گار ہیں۔ اللّٰہ تعالیٰ نے اُنہیں ایک طاقت ور قلم عطا کیا ہے جسے وہ دُرست انداز میں استعمال کر رہے ہیں۔ وہ پے در پے کالموں کے ذریعے ایک ایسی فضا پیدا کرنا چاہتے ہیں جس کا جبر و تشدد سے کوئی سروکار نہ ہو اَور سیاست دان اپنے اختلافات صلح جوئی، مفاہمت اور مذاکرات کے ذریعے طے کرنے کے خوگر دکھائی د یں اور وُہ ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا کلچر اپنائیں۔ میرے خیال میں عظیم تبدیلی فقط وعظ و تلقین سے نہیں آ سکے گی۔ اِس کے لیے ہمیں اپنے گھروں، اداروں اور سیاسی جماعتوں کا ماحول بدلنا ہو گا اور آئین کی بالادستی کو اوّلین اہمیت دینا ہو گی۔
میرا یہ بھی احساس ہے کہ ہمیں ’نئی غلطیوں‘ کے فلسفے میں بھی جوہری تبدیلی لانا ہو گی۔ ہماری کوشش یہ ہونی چاہیے کہ ماضی کی غلطیوں کا ادراک حاصل کرنے کے بعد ہر نوع کی غلطی سے بچنے کا عہد کیا جائے اور اِس امر کا پورا پورا خیال رکھا جائے کہ فیصلے غصّے، بغض، انتقامی جذبے اور ہیجان انگیز کیفیت کے بجائے پُرسکون ماحول میں پورے غوروخوض کے بعد کیے جائیں۔ فردِ وَاحد کے فیصلے بعض اوقات تاریخ کا پورا رُخ ہی موڑ دیتے ہیں۔ ہٹلر نے اپنی قوم کے اندر مقبول ہونے کے لیے یہ نعرہ بلند کیا تھا کہ جرمن دنیا کی بہترین قوم ہے، اِس لیے صرف اِسی کو دنیا پر حکومت کرنے کا حق حاصل ہے۔ اِس گمراہ کن نظریے پر دوسری جنگِ عظیم شروع ہوئی اور ہٹلر یورپ کے ممالک فتح کرتا چلا گیا۔ وہ جو ایک آمرِ مطلق تھا، اُس کے ایک فیصلے نے جنگ کا پورا نقشہ ہی تبدیل کر دیا۔ ہٹلر اپنی طاقت کے زعم اور تکبر میں روس پر حملہ آور ہوا اَور اُس کا یہی اندھا اقدام بہت بڑی تباہی اور عبرت ناک شکست کا باعث بنا۔ اِس مثال سے ہم یہ سبق سیکھ سکتے ہیں کہ فیصلے مشورے سے اور تمام پہلوؤں کے بغور جائزے کے بعد کیے جانے چاہئیں۔
جہاں تک نئی غلطیوں کا معاملہ ہے، تو ہم اِس معاملے میں خودکفیل ہو گئے ہیں۔ ہمارے اندر اَیسے مشکل کشا خاصی اچھی تعداد میں نظر آتے ہیں جو نئی غلطیوں کی تلاش میں بہت دور نکل جاتے اور دُور کی کوڑی لے کر آتے ہیں۔ اب روز نئی غلطیوں کا اعلان ہوتا ہے اور اِس پر دیر تک رقص بپا رہتا ہے اور آخر شب بہار اُترتی ہے۔ نئی غلطیوں کا حال دیکھیے کہ پہلے پاکستان کی حکومتیں بین الاقوامی مالیاتی اداروں کی مشاورت سے بجٹ بنایا کرتی تھیں، آج نئی غلطی کا یہ منظر دیکھنے میں آیا ہے کہ حکومت کے کرتا دھرتا یہ اعلان کر رہے ہیں کہ سارا بجٹ آئی ایم ایف نے بنایا ہے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ