اپنی تانگہ پارٹی عوامی لیگ کے اکلوتے لیڈر شیخ رشید نے اب اپنی مختصر سی قید کے بارے میں گپیں ہانکنا شروع کر دی ہیں۔ جوانی سے بڑھاپے تک سیاست کے نام پر ٹاٹی کرنے والے شیخ رشید کو میڈیا میں ماڈل سیاستدان کے طور پر پیش کیا جاتا ہے کیونکہ جھوٹ بول کر، دوسروں پر طنز کر کے اور الٹی سیدھی پیش گوئیاں کر کے ریٹنگ کے حصول میں ہمیشہ معاون ثابت ہوئے۔ یہ الگ بات ہے کہ سنجیدہ پروفیشنل صحافی شیخ صاحب کو سیریس لیتے ہیں نہ ان کی باتوں کو۔ عید کے دنوں میں درجنوں چینلوں نے شیخ رشید کے انٹرویو کیے۔ مرد اور خواتین اینکرز لال حویلی کے چکر کاٹتے رہے۔ ایسے میں دلچسپ محکمانہ رقابت بھی دیکھنے کو ملی۔ شیخ رشید ہی کی طرح پورے کیریئر کے دوران چھوٹے بڑے فوجی افسروں سے رابطے رکھنے والے کامران خان اس پوسٹر کا تمسخر اڑاتے پائے گئے جس میں بتایا گیا تھا کہ قوم کون سے چینل پر کس وقت شیخ رشید کے فرمودات سے استفادہ کر سکتی ہے۔ اس پوسٹر پر مختلف چینلوں کے لوگو اتنی بڑی تعداد میں موجود تھے کہ سر چکرا جائے۔ کامران خان نے اس پوسٹر کو سوشل میڈیا پر پوسٹ کر کے یہ تبصرہ کیا کہ میڈیا کیسے غیر سنجیدہ کاموں میں مشغول ہے۔ شیخ رشید کو کسی پیر نے سمجھا رکھا ہے کہ آپ نے کسی صورت میڈیا والوں سے نہیں الجھنا ورنہ ممکن ہے وہ بھی جواب میں کہہ دیتے کہ مجھے طعنے دینے والا خود سر تا پاؤں تک ایجنڈا صحافت کا نمونہ ہے۔ خیر یہ تو تھا ان دونوں کا آپسی معاملہ لیکن شیخ رشید نے چلہ کے حوالے سے جو نقشہ باندھا ہے اس سے لگتا ہے کہ موصوف نے 1857 کی جنگ آزادی میں حصہ لیا تھا اور انہیں اسی طرح سے نشان عبرت بنایا گیا جیسے کمپنی سرکار نے آزادی مانگنے والے باغیوں کو بنایا تھا۔ لطیفہ یہ ہے کہ وہ خود ہی یہ بھی بتا رہے ہیں کہ گرفتاری یا جبری گمشدگی کے دوران انہیں عزت سے رکھا گیا، کسی نے ہاتھ تک نہیں لگایا۔ ساتھ ہی زیب داستان کے لیے یہ شگوفہ بھی چھوڑا ہے کہ ایک موقع پر انہیں الٹا لٹکانے کے لیے کرسی پر بیٹھا کر کرین کے ساتھ باندھا گیا مگر کسی اہلکار کو ترس آ گیا اور یہ کہہ کر چھوڑ دیا گیا کہ یہ بوڑھا اور بیمار ہے، برداشت نہیں کر سکے گا۔ بہر حال ایک چیز نوٹ کی گئی ہے کہ ہر وقت کوئی نہ کوئی ہنگامہ اٹھانے پر تلے رہنے والے شیخ رشید کا لب و لہجہ قدرے شکست خوردہ ہو گیا ہے۔ فطری طور پر سازشی طبیعت کے باوجود بوکھلائے ہوئے لگتے ہیں۔ شیخ رشید نے خود کو اسٹیبلشمنٹ کے لیے وقف کر رکھا تھا۔ ایجنسیوں کا اشارہ ہونے پر انہوں نے اپنے کسی محسن تک کو نہیں بخشا۔ قومی مفادات تک کی پروا نہیں کی۔ جنرل ظہیر السلام کے ایما پر عمران، قادری دھرنوں کے دوران 2014 میں جلسوں میں گرما گرم تقریریں کرتے ہوئے سی پیک منصوبے کی مخالفت کی۔ لوگوں کو مرنے مارنے، گھیرا، جلا پر اکسایا۔ باجوہ، فیض، عمران کی تکون نے سیاسی مخالفین، آزاد ججوں اور پروفیشنل میڈیا پر بدترین کریک ڈان کیا، جعلی مقدمات بنائے تو شیخ رشید کی خوشی چھپائے نہیں چھپتی تھی۔ رانا ثنا اللہ پر ہیروئن ڈالی گئی تو اس کے اگلے دن اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے شیخ رشید کے قہقہے چھوٹ رہے تھے۔ ایجنسیوں اور عمران حکومت کے ایما پر شیخ رشید ہی بتایا کرتے تھے کہ کون کب جیل جائے، نااہل کون ہو گا۔ شیخ رشید کی زبان کے شر سے کوئی محفوظ نہ تھا، اسی لیے عمران خان انہیں خصوصی اہمیت دیتے تھے۔ فوج کی پشت پناہی کے سبب مختلف اداروں میں شیخ رشید کا بہت اثر و رسوخ تھا۔ ایک موقع پر اپنے وقت کے چیمپئن چیف جسٹس ثاقب نثار شیخ رشید کی انتخابی مہم چلانے کے لیے خود چل کر ان کے حلقے میں آ گئے تھے۔ عمران حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد تانا بانا بکھرا تو بڑے بڑے کرداروں کو سمجھ ہی نہیں آئی کہ آگے کیا کرنا ہے۔ جنرل فیض حمید کا نیٹ ورک اس حد تک پھیل چکا تھا کہ شیخ رشید جیسا کمزور دل خوشامدی اور جی حضوری والا کردار بھی بے قابو ہو گیا۔ مبصرین اس وقت حیران رہ گئے جب شیخ رشید کو نام لیے بغیر آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم پر تنقید کرتے سنا، ایک دو بار تو تڑیاں بھی لگائیں۔ پی ٹی آئی اور اسکے حامی چند سیاستدان ہی نہیں بلکہ فیض حمید گروپ سے تعلق رکھنے والے بعض جج اور جرنلسٹ بھی اوقات سے باہر ہو گئے تھے (بلکہ ابھی تک ہیں)۔ باجوہ کی رخصت اور جنرل عاصم منیر کے آرمی چیف بننے کے بعد بھی جو لوگ باز نہیں آ رہے انہیں سمجھانے کی کوشش کے دوران پراسرار طور پر اب تک روایتی سختی نہیں کی گئی۔ شیخ رشید کو پکڑا گیا تو وہی جج شور مچانے لگے جو پی ٹی آئی کا کیس آنے پر یکطرفہ فیصلے کرتے ہیں۔ تمام عمر اسٹیبلشمنٹ کی چاکری کرتے کرتے شیخ رشید نے خود کو سپر مین تصور کر لیا تھا۔ بعد میں پتہ چلا صرف ایک چلہ ہی کافی تھا اگرچہ انہیں مہمان بنا کر رکھا گیا مگر وہ اب تک ذہنی صدمے کا شکار ہیں۔ اپنے خود ساختہ کارناموں پر مشتمل کتاب فرزند راولپنڈی لکھنے والے شیخ رشید حقیقت میں فرزند گیٹ نمبر چار ہیں۔ فرزندان گیٹ نمبر چار میں سیاستدان ہی نہیں بلکہ جج اور صحافی بھی شامل ہیں۔ پاکستان کو ٹاٹستان بنا کر ظلم عظیم کیا گیا۔ عدلیہ میں بھرتی کا کنٹرول ہو یا میڈیا اور سوشل میڈیا میں پرکشش مواقع کا معاملہ، اسٹیبلشمنٹ نے ہر جگہ ایسے ہی ٹاٹ مسلط کر کے نہ صرف میرٹ کا قتل کیا بلکہ ان شعبوں کی حرمت بھی پامال کی۔ انہی شعبوں سے جو عناصر آج تک اسٹیبلشمنٹ کی موجودہ قیادت کے خلاف سازشیں کر رہے ہیں تو ان کا علاج بھی شیخ رشید والا ہی ہے۔ وقفے وقفے سے ڈوز دی جاتی رہی تو ایسے تمام عناصر کی حالت سدھر جائے گی۔ ایسے عناصر کو ڈھیل دینا شر پسندی کو ہوا دینے کے مترادف ہے، فطرت کبھی تبدیل نہیں ہوتی۔ شیخ رشید کو ہی دیکھ لیں اب پھر دھمکیوں والی زبان استعمال کرنا شروع ہو گئے ہیں یقینا چلہ میں کوئی کمی رہ گئی ہے۔ کسی بھی مشینری میں ڈھیلا پیچ خطرناک حادثات کا سبب بن سکتا ہے، سیانے کہہ گئے ہیں کہ پیچ کو ہمیشہ ٹائٹ ہی رکھنا چاہیے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ آپریشن عزم استحکام میں یہ نکتہ بھی شامل کر لیا جائے کہ گیٹ نمبر چار نئے پرانے تمام ٹاٹوں پر بند اور ٹاٹ ساز فیکٹری ہمیشہ کے لیے بند کر دی گئی ہے۔
بشکریہ روزنامہ نئی بات