میرا داغستان اور عزم استحکام : تحریر وجاہت مسعود


اتوار کے روز خبر آئی کہ روس کی جنوبی سرحد پر واقع علاقے داغستان کے دو شہروں میں دہشت گردوں نے مسیحی اور یہودی عبادت گاہوں پر مربوط حملے کیے ہیں۔ آخری اطلاعات تک مرنے والوں کی تعداد بیس ہو چکی ہے جن میں ایک پادری سمیت پولیس اور شہری ہلاک ہوئے ہیں۔ چھ دہشت گرد بھی مارے جا چکے ہیں۔ گزشتہ تین ماہ کے دوران یہ روس میں دوسرا بڑا دہشت گرد حملہ ہے۔ دنیا بھر کے نیوز نیٹ ورکس پر داغستان کا نام نمودار ہوا تو مجھے رسول حمزہ توف یاد آئے۔ اردو ادب کے پڑھنے والے پہلی بار فیض صاحب کے مجموعہ کلام ’سر وادی سینا‘ کے آخری حصے میں رسول حمزہ توف کی چند نظموں کے ترجمے سے اس شاعر سے متعارف ہوئے تھے اور پھر رسول حمزہ توف کی پہلی نثری تصنیف ’میرا داغستان‘ منظر عام پر آئی جس نے گزشتہ ساٹھ برس سے عالمی ادب کے طالب علموں کو مسحور کر رکھا ہے۔ 1923ءمیں داغستان کے دور دراز سرحدی علاقے میں پیدا ہونے والے رسول حمزہ توف کی مادری زبان ’آوار‘ تھی۔ داغستان لسانی اور نسلی اعتبار سے بہت متنوع خطہ ہے۔ اب سے سو برس پہلے داغستان کی کل آبادی آٹھ لاکھ تھی جو اب تیس لاکھ ہو چکی ہے۔ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ رسول حمزہ توف نے جس زبان میں اظہار کرنا سیکھا تب اسے بولنے والوں کی تعداد کم و بیش پانچ لاکھ تھی۔ رسول حمزہ توف کے والد بھی معروف شاعر تھے مگر بیٹا کمال ہنر میں باپ سے بہت آگے نکل گیا۔ 1950ءکی دہائی تک رسول حمزہ توف کے بیس شعری مجموعے شائع ہو چکے تھے۔ا سٹالن کی موت کے بعد روس میں محدود آزادیوں کا جو مختصر وقفہ آیا اس میں ایک ادبی رسالے نے سوویت ادیبوں کو دعوت دی کہ وہ اپنے اپنے علاقے کے بارے میں ایک مختصر نثری تعارف لکھیں۔ ماسکو کے سرکاری اشاعت گھر سے وابستہ رسول حمزہ توف نے پہلی بار نثر میں اپنا وطن داغستان بیان کرنا شروع کیا تو گویا چشمہ پھوٹ نکلا۔ مصنف نے بعد ازاں خود کہا کہ میرے خوبصورت وطن کو ایک صفحے کی تنگنائے میں کیسے بیان کیا جا سکتا ہے۔ سو ادبی جریدے کی فرمائش کو نظر انداز کرتے ہوئے وہ لکھتا چلا گیا اور تین سو سے زیادہ صفحات پر پھیلا ہوا ایک ایسا نثر پارہ تخلیق ہوا جسے جدید عالمی ادب میں بلند مقام حاصل ہے۔ اپنی زمین اور اپنے لوگوں سے بے پناہ محبت، پیرایہ بیان کی سلاست، پہاڑوں، وادیوں، ندی نالوں، گل بوٹوں اور رسم و رواج کی تفصیل اور پھر ٹھیٹ مشرقی انداز میں حکمت افروز نکات جن میں کہانی سے کہانی پھوٹتی ہے اور واقعے سے واقعہ جڑا ہے۔ رسول حمزہ توف کا کارنامہ یہ ہے کہ اس نے ایک قریب قریب گمنام زبان میں اپنے وطن سے محبت کا ایسا رزمیہ تخلیق کیا جس میں اس کے عوام پر تاریخ میں گزرنے والے دکھ اور روزمرہ زندگی کی خوشیاں اس طرح گندھی ہیں کہ پڑھنے والا رسول حمزہ توف کے داغستان کی محبت میں گرفتار ہو جاتا ہے۔ میرے محدود علم کے مطابق ایک ادیب کے قلم سے کسی زبان کے احیا کا معجزہ بیسویں صدی میں دو مرتبہ رونما ہوا۔ آئزک بیشواس سنگر نے اپنے فکشن میں پولینڈ کے یہودیوں کی مٹتی ہوئی زبان ’یدش‘ کو نئی زندگی دی تھی اور رسول حمزہ توف نے اپنی مادری زبان ’آوار‘ کو ذرے اور کائنات کے ٹکراؤ?جیسی چندھیا دینے والی کاوش کے ذریعے عالمی ادب کے نقشے پر مرتسم کر دیا۔ رسول حمزہ توف نے ایک نظم میں اپنی ماں کا دکھ بیان کیا تھا جس کا بڑا بیٹا یعنی رسول حمزہ توف کا بھائی اسٹالن گراڈ کی جنگ میں مارا گیا تھا۔ اس نظم کی آخری سطر جنگ کی تباہ کاریوں کا دردناک بیان ہے۔ شاعر کہتا ہے۔ ’میری عمر اب بڑے بھائی سے زیادہ ہو چکی ہے لیکن میری ماں کی ردائے ماتم ابھی اتری نہیں‘۔ ہمارا وطن اس اعتبار سے خوش قسمت رہا کہ اسے دو عالمی جنگوں کی براہ راست آنچ نہیں پہنچی۔ ہمارے لاکھوں بیٹے البتہ غیر ملکی حکمرانوں کی جنگ لڑتے ہوئے مارے گئے اور پھر ہم نے بٹوارے کا زخم دیکھا۔ ہمسایہ ملک کے ساتھ ہماری متعدد جنگوں کا مجموعی حجم سرحدی جھڑپوں سے زیادہ نہیں رہا لیکن ہمارے حکمرانوں کے پیوستہ مفادات نے افغان جنگ کا حصہ بن کر گزشتہ 45 برس میں ہمارے ایک لاکھ ہم وطنوں کی قربانی لی ہے۔ شمال میں سابق قبائلی ایجنسیوں سمیت ملک کے چپے چپے پر لہو کے چھینٹے گرے ہیں۔ ڈیرہ اسماعیل خان سے شہداد کوٹ، کراچی سے بہاولپور اور تربت سے لاہور تک ہم نے جیتے جاگتے انسانوں کے چیتھڑے اٹھائے ہیں۔ ہمارے ہم وطنوں نے بے گھری کا عذاب دیکھا ہے۔ ہماری معیشت تباہ ہوئی ہے۔ ہماری منظم افواج کو بے چہرہ پرچھائیوں سے غیر متناسب جنگ میں نقصان پہنچا ہے۔ اور سب سے بڑا المیہ یہ کہ ہماری امن، رواداری اور محبت کی روایت تفرقے، نفرت اور تشدد کی ثقافت میں بدل گئی ہے۔ نصف صدی پر پھیلی اس خونچکاں کہانی کا ایک حماقت آمیز موڑ اگست 2021 کے بعد سامنے آیا جب تحریک انصاف کی حکومت نے پارلیمنٹ یا کسی بھی نمائندہ ادارے کو اعتماد میں لیے بغیر ہزاروں طالبان کو پاکستان واپس آنے کی اجازت دی۔ فروری 24ء میں خیبر پختونخوا کے انتخابی نتائج بھی اسی قضیے سے منسلک بتائے جاتے ہیں۔ اہم بات یہ کہ سرحد پار سے ہمارے وطن پر آئے روز دہشت گرد حملے ہو رہے ہیں۔ خیبر پختونخوا کے جنوبی حصے میں ریاستی عمل داری مفلوج ہو چکی ہے اور چینی وزیر لیو جیانگ چاؤ نے حالیہ دورے میں پاکستان کی سکیورٹی صورتحال کو سی پیک کے حوالے سے تشویش ناک قرار دیا ہے۔ اس پس منظر میں ایپکس کمیٹی نے آپریشن عزم استحکام کا فیصلہ کیا ہے جسے کابینہ نے منظوری بھی دے دی ہے۔ افسوسناک بات ہے کہ طالبان کے درپردہ حامی اس فیصلے کو پختون ہم وطنوں کی آڑ لے کر متنازع بنا رہے ہیں۔ ہمارے ملک کی سلامتی اور معیشت کا تقاضا ہے کہ اسے ہر اس گروہ سے پاک کیا جائے جو جمہوری مکالمے کی بجائے تشدد اور ہتھیار کی زبان اختیار کرتا ہے۔ یہ ممکن ہے کہ ہمیں اپنے وطن کی خوبصورتیوں کو بیان کرنے کیلئے رسول حمزہ توف کا قلم نصیب نہ ہو لیکن ہمیں پاکستان کے سب خطوں اور تمام شہریوں سے اتنی ہی محبت ہے جتنی رسول حمزہ توف کو داغستان سے تھی۔

بشکریہ روزنامہ جنگ