عزم استحکام آپریشن کیا ہے : تحریر مزمل سہروردی


عزم استحکام آپریشن کے خدو خال ابھی واضح نہیں ہیں۔ کیا یہ کوئی فوجی آپریشن ہوگا لیکن دہشت گردی کے خلاف فوجی آپریشن تو اس وقت بھی جاری ہیں۔ اس لیے میں نہیں سمجھتا کہ دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کے لیے فوج کو کسی نئی اجازت کی ضرورت ہے۔

اس تناظر میں تحریک انصاف کا یہ موقف درست نہیں لگتا کہ کسی نئے آپریشن کو شروع نہ کیا جائے کیونکہ میری رائے میں کوئی نیا فوجی آپریشن شروع نہیں کیا جارہا ہے۔ اس کے اہداف مختلف نظر آرہے ہیں ان کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ جہاں تک سابقہ فاٹا میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کی بات ہے تو وہ تو تحریک انصاف کے دور حکومت میں بھی جاری تھا اور اس وقت بھی جاری ہے۔ اور اگر عزم استحکام آپریشن شروع نہ بھی کیا جائے تب بھی وہ جاری ہے۔ یہ بات تحریک انصاف کو بھی پتہ ہے کہ سابقہ فاٹا میں جاری آپریشن عزم استحکام کا حصہ نہیں ہے۔ یہ بات بھی سمجھنے کی ہے کہ وہاں ایک لڑائی ہو رہی ہے اور فوج ایک لڑائی لڑ رہی ہے۔

کیا یہ حقیقت نہیں کہ سابقہ فاٹا میں دہشت گرد افغانستان سے داخل ہوتے ہیں اور فوج پر حملہ کرتے ہیں۔ وہاں دہشت گردوں کا ٹارگٹ سول ادارے نہیں اب تو پولیس کو بھی نشانہ نہیں بنایا جاتا۔ لڑائی فوج سے جاری ہے۔ دہشت گردوں کو علم ہے کہ اگر فوج علاقہ خالی کر دے تو وہ فوری طور پر علاقہ پراپنا کنٹرول قائم کر لیں گے۔ قومی اسمبلی میں تحریک انصاف یہ نعرے تو لگا رہی تھی کہ فاٹا میں فوجی آپریشن بند کیا جائے کوئی ان سے یہ سوال بھی کر لے کہ اگر فوج فاٹا سے چلی جائے تو کیا گنڈا پور اپنی حکومتی رٹ فاٹا پر قائم رکھ سکیں گے؟ اس لیے یہ بات سمجھنے کی ہے کہ فاٹا میں کوئی آپریشن نہیں چل رہا۔

بلکہ دہشت گردو ں کے ساتھ لڑائی چل رہی ہے۔ افغانستان سے دہشت گرد سابقہ فاٹا میں داخل ہوتے ہیں۔ وہ سرحدی باڑ کو توڑتے ہیںاور پاکستان میں داخل ہوکر دہشت گردی کرتے ہیں۔ شمال مغربی سرحد اور وہاں نصب باڑ کی حفاظت کرنا فوج کی ڈیوٹی ہے ایسا نہیں ہو سکتا کہ سرحد کی کھلی خلاف ورزی ہو دہشت گرد فوجی پوسٹوں پر حملے کرتے ہیں بارودی سرنگیں بچھاتے ہیں ہمارے فوجی افسر اور جوان شہید ہوتے رہیں اور فوج خاموش بیٹھی رہے۔ فوج نے ہر صورت اور ہر قیمت پر ملک اور سرحدوں کی حفاظت کرنا ہے۔ دہشت گردوں کو پکڑنے کا کام بھی فی الحال فوج ہی کر رہی ہے۔ لیکن یہ سوال اہم ہے کہ کیا کے پی پولیس یہ کام کر سکتی ہے؟ ماضی میں دہشت گردوں نے جس طرح کے پی پولیس کو نشانہ بنانا شروع کر دیا تھا، مجھے نہیں لگتا اس کے بعد کے پی پولیس میں اتنی طاقت ہے کہ وہ سابقہ فاٹا میں دہشت گردوں کے خلاف کوئی کارروائی کر سکے۔

تحریک انصاف نے یہ ڈیمانڈ بھی پیش کی ہے کہ عزم استحکام آپریشن کی منظوری پارلیمان سے لی جائے۔ سوال یہ ہے کہ اس سے پہلے کبھی کسی آپریشن کی منظوری پارلیمان سے لی گئی ہے۔ پارلیمان کو اعتماد میں لینے اور بریفنگ دینے کی روایت بھی موجود ہیں۔ عسکری قیادت نے بھی اہم مواقع پر آکر پارلیمان کو بریفنگ دی ہے۔ لیکن آج تک کبھی آپریشن یا بریفنگ کے لیے پارلیمان سے منظوری نہیں لی گئی۔ کیا تحریک انصاف سے سوال کیا جا سکتا ہے کہ جب آپ ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کر رہے تھے ان کے ساتھ سیز فائر کر رہے تھے تو کیا آپ نے پارلیمان سے منظوری لی تھی۔ پارلیمان کو بریفنگ ضرور دی گئی تھی لیکن منظوری کی کوئی روایت نہیں۔ یہ حکومت کا فیصلہ ہوتا ہے، حکومت چاہے تو مشاورت کرے چاہے تو نہ کرے۔

اب یہ سوال کیا جا سکتا ہے کہ پھر عزم استحکام آپریشن کیا ہے۔ میری رائے میں یہ ملک میں ایسے سیاسی اور مذہبی گروہوں کے خلاف ہے جو ملک میں عدم استحکام پیدا کر رہے ہیں۔ سب سے پہلے تو اقلیتوں کے ساتھ زیادتی اور ان کے خلاف نفرت پھیلانے والے گروپ اس میں شامل ہیں۔ حال ہی میں سرگودھا میں جو ہوا وہ اس کی بنیاد ہے۔ جہاں ایک مسیحی کو مشتعل ہجوم نے مار دیا ہے۔ اسی طر ح سوات میں توایک مسلمان کو مشتعل ہجوم نے مار دیا۔ اسی لیے عزم استحکام آپریشن کے اعلان کے فوری بعد قومی اسمبلی میں وزیر دفاع نے اقلیتوں کے تحفظ کی بات کی ہے۔ اور پھر وفاقی وزیر قانون نے سرگودھا اور سوات کے واقعات کی مذمت کی قرارداد پیش کی۔اس لیے یہ واضح اعلان ہے کہ عزم استحکام آپریشن میں اقلیتوں کا تحفظ ایک بنیادی نقطہ ہے۔ مشتعل ہجوم کا جو رواج زور پکڑ رہا ہے اس کے خلاف عزم استحکام آپریشن ہے۔

یہ کام فوج نے نہیں کرنا۔ سوات میں جن لوگوں نے ایک شخص کو زندہ جلا دیا ہے، ان کو پکڑ کر قانون کے کٹہرے میں لانے کا کام فوج کا نہیں یہ کام بنیادی طور پر صوبائی حکومتوں کے ماتحت انتظامیہ اور قانون نافذ کرنے والے ادارے کرتے ہیں۔ سوات میں بھی گرفتاریاں خیبرپختونخوا پولیس ہی کر رہی ہے۔ سرگودھا میں بھی گرفتاریاں پنجاب پولیس ہی کر رہی ہے۔ اسی طرح ایسی دہشت گردی سے نبٹنے کے لیے صوبوں میں سی ٹی ڈی فورس بھی موجود ہے۔ اسی لیے تمام صوبائی حکومتوں کو ایک میز پر بٹھا کر بات کی گئی ہے۔ ان کے درمیان تعاون کی بات کی گئی ہے۔ اور سب صوبوں میں یکساں پالیسی کے تحت یہ کارروائیاں بھی ضروری ہیں۔

ایسا نہیں ہو سکتا ہے کہ پنجاب میں تو گرفتاریاں کی جائیں لیکن کے پی میں نہ کی جائیں یا سندھ میں ہوں اور بلوچستان میں نہ ہوں۔ اس لیے ایسی کارروائیاں یکساں طور پر پورے ملک میں ہونے کے لیے تمام صوبائی حکومتوں کا نہ صرف ایک پیج پر ہونا ضروری ہے۔ بلکہ اس کے بغیر آگے چلنا بھی ممکن نہیں۔ تحریک انصاف کی تمام مخالفت اپنی جگہ لیکن وزیر اعلی علی امین گنڈا پور ایپکس کمیٹی میں اس کی حمایت کر چکے ہیں۔اور قومی اسمبلی کے تمام شور شرابے کے بعد بھی ان کی طرف سے ایسا کوئی بیان نہیں آیا کہ وہ اس آپریشن کے ساتھ نہیں۔ ان کی حمایت قائم ہے بلکہ ایپکس کمیٹی کے بعد سوات میں گرفتاریاں ہوئی ہیں۔

میں سمجھتاہوں یہ مشتعل ہجوم کے رواج کو ختم کرنے کے لیے قانون سازی کی بھی ضرورت ہے تاکہ ان ملزمان کو سخت سزائیں دی جا سکیں۔ اس قانون سازی کی بازگشت بھی قومی اسمبلی میں سنائی دی ہے ۔ لوگوں کو اکٹھا کرنے کے لیے یہ مساجد سے جو اعلانات کا سلسلہ شروع ہوا ہے اس کو بھی روکنے کی ضرورت ہے۔ لاؤڈ اسپیکر کا غیر قانونی استعمال بھی روکنا ہے۔

غیر ملکیوں کی سیکیورٹی اور بالخصوص چینی باشندوں کی سیکیورٹی بھی اس عزم استحکام آپریشن میں شامل ہے۔ یہ کام بھی پورے ملک میں ہونا ہے اور صوبائی حکومتوں کی مدد سے ہی ہونا ہے۔ ایک ایک غیر ملکی کے ساتھ فوجی تو نہیں لگایا جا سکتا۔ یہ کام بھی صوبائی حکومت کے ماتحت اداروں نے ہی کرنا ہے اور ان کے درمیان رابطہ بھی ضروری ہے۔ اس لیے میری رائے میں عزم استحکام آپریشن میں فوجی آپریشن کا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ باقی کام صوبائی حکومتوں نے کرنا ہے۔

بشکریہ روزنامہ ایکسپریس