ہمیشہ سے سنتے آئے ہیں کہ ہر چیز کی حد ہوتی ہے یا بے حد ہوتی ہے۔ جیسے محبت کرنے والے کہتے ہیں کہ تم بے حد یاد آرہے ہو۔ کوئی کہتا ہے کہ جی ایک قتل ہوگیا پر حد کا تعین نہیں ہورہا کہ کس تھانے کی حد میں ہے لاش سڑک پر پڑی ہے ۔ ایسے ہی بہت سے جسم گل سڑ جاتے ہیں اور حد کا تعین نہیں ہوپاتا۔اگر ہر معاملے پر حد کا تعین کر لیا جائے تو انسان بہت ساری چیزوں کی حد پار کرنے سے بچ جاتا ہے۔ زبان ہو یا نگاہ سب کو حد میں رہنا چاہیے۔ ورنہ حد ہی ہو جاتی ہے۔
لیکن جو بات میرے مشاہدے میں آئی ہے کہ خوابوں کی حدیں نہیں ہوتیں اور خواب بڑے سے بڑا دیکھا جاسکتا ہے. خوابوں میں رکاوٹ نہیں ہے اور میں اس حد کا بہت مزا لیتا ہوں۔ ڈرون اڑانے پر ہر طرف پابندی ہے۔ پر کہاں روکیں گے ہمیں جو خوابوں میں ہر جگہ ڈرون اڑاتے پھرتے ہیں۔ میں تو وہ انسان ہو جس چیز سے منع کیا جائے وہ ضرور کرتا ہوں۔ میں ایک ہی خواب میں کاغان، ناران، بابوسر ٹاب سے ہوتا ہوا ہنزہ، عطا آباد ، نیشنل پارک اور خنجراب پہنچ جاتا ہوں وہیں سے شارٹ کٹ لیکر گلگت ، سکردو اور شنگریلا بھی گھوم آتا ہوں۔ مجھے راستے کی سرنگوں سے بہت خوف آتا ہے تین تین کلومیٹر لمبی سرنگیں اور مزے کی بات ہے میں خواب میں ان سرنگوں کو بھی بائی پاس کرجاتا ہوں جس طرح دل کی نالیوں کا بائی پاس ہوتا ہے۔ حد تو اس دن ختم ہوگئی جب میں سیاچن ٹی شرٹ پہنے گھوم رہا تھا کہ ایک ڈیوٹی پر موجود بھائی کہنے لگے منفی چالیس میں یہ کیا حرکت ہے بس مسکرا دیا میرے خواب میری مرضی ۔
مجھے مکمل یقین ہے ایک دن میرے خوابوں کے دیکھنے کی جرآت پر بھی مجھے سزا ہو جائے گی۔ کہ یہ خواب میں حد پار کر جاتا ہے میں انکو کیا بتاؤں میں تو کئی دفعہ سرحد بھی پار کرجاتا ہوں۔ مجھے یاد ہے جب میں رات و رات افغانستان کے شہر کابل پہنچ جاتا ہوں وہاں کی یونیورسٹی میں فوٹوگرافی ، فلم میکنگ پر لیکچر دیتا ہوں اور پھر واپس آجاتا ہوں۔ وہ دن تو بے حد ہی خوفناک تھا جب میں ان کافرانہ مضامین پڑھانے کے جرم میں گرفتار ہوجاتا ہوں پھر اسی ٹیکنالوجی کو استعمال کرکے وہ میری فلم ایماندارانہ فلم بناتے ہیں اور میرا تاوان مانگتے ہیں۔ کہ اس کی سزا ہے کہ یہ مضامین کیوں پڑھاتا ہے۔ میں ایسا بیوقوف کہ انکو مشورے دیتا رہا کہ لائٹ ٹھیک کرلیں ایسے سائے کو کنٹرول کرلیں، لائٹ کو ہائٹ دیں شیڈو ڈراپ ہو جائے گا۔ بیک گراؤنڈ کالی کرلیں یہ زیادہ خوفناک منظر بنے گا۔میری استادوں والی عادت ہی میری کسی دن جان لے لے گی۔ پھر مجھے طالبان کے سامنے پیش کیا گیا میرا سر قلم ہونے ہی والا تھا میدان لگ چکا تھا میری آنکھوں پر پٹی بند چکی تھی۔ تلوار نیام سے باہر آ چکی تھی اللہ بھلا کرے میری بیٹی کا جس نے جگا دیا بابا کیا بات ہے سوتے ہوئے ڈر کیوں رہے ہیں کس کو لائٹنگ کرنا سکھا رہے ہیں میں تو اس وقت بھی میرے قتل کی جو ویڈیو بنا رہا تھا اس سے کہہ رہا تھا یار میری آنکھوں پر پٹی بندھی ہے فریم دھیان سے بنانا رول آف تھرڈ کی خلاف ورزی مت کرنا ورنہ لوگ کیا کہیں گے آخری ویڈیو ہے اور فریم ہی ٹھیک نہیں ہے استاد کی ویڈیو کا۔ اس دن بیٹی نے جگا کر مرنے سے بچا لیا۔جب میں نے اس سے کہا ایک دفع فریم چیک کروا لو کہیں کمپوزیشن خراب نہ ہو جائے۔ اس نے میرے اوپر بندوق تان لی اسکی آنکھوں کی پٹی نیچے کرو میں اس کو اپنا نشانہ دکھاتا ہوں۔ پر شکر ہے مجھے بیٹی نے اٹھا دیا۔ ورنہ تو اس دن فلم بن ہی جانی تھی۔ میرے خواب بڑے جان لیوا ہوتے ہیں۔ یہ خواب ریکھا سے شروع ہوکر مادھوری ڈکشٹ سے ہوتے ہوئے کترینہ کیف تک پہنچ جاتے ہیں عجیب خواب ہیں ان میں کبھی بھی سلمان خان، عامر خان آنے کی جرات نہیں کرتے ۔ سلطان ہونگے تو اپنے گھر ہونگے ہم خوابوں میں بلا اجازت کسی کو آنے نہیں دیتے۔
مجھے تو خواب دیکھنے کا شوق ہے ۔ جاگتے میں اور سوتے میں عالم خواب میں ہی رہتا ہوں ۔ بڑے بڑے معرکے میں نے خواب میں سر کئے اور غلطیاں بھی بڑی بڑی کیں۔ کچھ کی سزا اصل زندگی میں مل گئی اور کچھ کی شاید اگلے جہانوں میں مل جائے۔ معافی مانگتا رہتا ہوں سب گناہوں کی جو زندگی میں کئے اور جو خوابوں میں بھی کئے۔ امید ہے معافی مل جائے گی۔ کیونکہ اب رونا عطا ہوگیا ہے ۔ خواب و حقیقت دونوں میں رو رو کر معافی مانگتا رہتا ہوں۔
میرے گھر میں جو بھی میرے پاس سوتے ہیں وہ مجھ سے سوال کرتے ہیں سوتے میں آپ ڈرتے کیوں ہیں۔ کیا جواب دوں۔ جو بھی حد کراس کرتا ہے ڈرنا اس کا مقدر ہے۔ اسی لیے میں بھی ڈرتا ہوں۔
Load/Hide Comments