یونیورسٹیاں اور ہماری بے حسی : تحریر سلیم صافی


میں نے پشاور میں جب بطور رپورٹر نوکری شروع کی تو ایک دن مجھ سے اسلامیہ کالج کے ایک استاد نے رابطہ کیا اور بتایا کہ اسلامیہ کالج کی پراپرٹیز پر لوگ برسوں سے قابض ہیں اور پچاس سال قبل جو کرایہ مقرر ہوا تھا، ابھی تک اسی حساب سے کالج کو ادائیگی کی جاتی ہے۔ مثلاً اس وقت اگر کسی دکان کا کرایہ ایک لاکھ روپے بنتا تھا تو کرایہ دار صرف ایک ہزار روپے ماہانہ ادا کررہا تھا۔ یہ پراپرٹیز پشاور کے خیبر بازار اور چارسدہ میں واقع ہیں۔ میں نے کھوج لگائی کہ اسلامیہ کالج کے پاس یہ پراپرٹیز کہاں سے آئی ہیں تو مجھے پتہ چلا کہ قائداعظم محمد علی جناح نے اپنی ذاتی جائیداد اسلامیہ کالج کیلئے وقف کی تھی تاکہ اس سے کالج کے اخراجات پورے ہوتے رہیں۔ اب ایک طرف بانی پاکستان کا یہ جذبہ تھا اور دوسری طرف ہمارے موجودہ حکمران طبقے کا یہ رویہ ہے کہ ذاتی جائیداد دینا تو درکنار وہ سرکار کے خزانے سے بھی اعلیٰ تعلیم کے اداروں کو کماحقہ حصہ دینے کے روادار نہیں۔ گزشتہ ہفتے حکومت کی جانب سے آئندہ سال کے بجٹ کے حوالے سے ہائر ایجو کیشن کمیشن کے بجٹ کو 65ارب سے کم کر کے 25ارب کر دیا گیااور یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ ایچ ای سی صرف وفاقی سطح کی یونیورسٹیوں کو فنڈ فراہم کرے گا۔ جس کے بعد ملک بھر کے طلبہ اور اساتذہ میں تشویش کی لہر دوڑ گئی جبکہ وائس چانسلرز اوراساتذہ کی مختلف تنظیموں نے احتجاج کا اعلان بھی کیا۔اس حوالے سے ہائر ایجوکیشن کمیشن نے وفاقی حکومت کو خط ارسال کیا جس کے بعد وزیراعظم نے وفاقی حکومت کے فیصلے کوواپس لے لیا اور ایچ ای سی کا بجٹ گزشتہ سال کے 65ارب روپے پر بحال کر دیا۔

پاکستان میں ہائر ایجوکیشن کا بجٹ2018سے 65ارب پر منجمد ہے جبکہ وقت کے ساتھ ساتھ اخراجات میں بے حد اضافے کے بعد 65ارب کا بجٹ بھی ملک بھر کی 150سے زائد سرکاری یونیورسٹیوں کیلئے ناکافی ہو چکا ہے۔ یہ امر اپنی جگہ حقیقت ہے کہ اٹھارویں آئینی ترمیم کے بعد تعلیم کا محکمہ صوبوں کے پاس جاچکا ہے اور اب یہ صوبوں کی ذمہ داری ہے کہ یونیورسٹیوں کیلئے فنڈز مختص کرے کیونکہ ان کا انتظام بھی صوبائی حکومت کے پاس ہے (اس حوالے سے سندھ کی حکومت لائق تحسین ہے کہ وہ مرکز کے فنڈز کے علاوہ اپنے فنڈز میں سے 20ارب سے زائد اعلیٰ تعلیم کیلئے مختص کرتی ہے) لیکن جب تک صوبوں کو اس پر قائل نہیں کیا جاتا، یکدم مرکز سے یونیورسٹیوں کو فنڈز کی فراہمی روک دینا درست نہیں۔

فیڈریشن آف آل پاکستان یونیورسٹیز اسٹاف فیڈریشن کا مطالبہ ہے کہ پاکستان میں ہائر ایجوکیشن کے بجٹ کو بڑھا کر 500ارب روپے کیا جائے۔ واضح رہے کہ بھارت میں ہائر ایجوکیشن کیلئےاس سال کے بجٹ میں 5.6ارب ڈالر (تقریبا 1555ارب روپے) مختص کئے گئےبنگلہ دیش میں 53پبلک یونیورسٹیوں کیلئے 1رب ڈالر (تقریبا 277ارب روپے) مختص کئے گئے۔ ہائر ایجوکیشن کے 2018سے منجمد 65ارب روپے کے بجٹ کی اس وقت مالیت تقریبا 233ملین امریکی ڈالر بنتی ہے۔پاکستان میں یونیورسٹیوں کو اس وقت مالی بحران کے ساتھ ساتھ وائس چانسلرز کی تعیناتی کے بحران کا بھی سامنا ہے۔ اس وقت تقریبا 66یونیورسٹیوں میں وائس چانسلرزموجود نہیں ہیں۔ گزشتہ مہینے سپریم کورٹ میں پاکستان کی جامعات میں وائس چانسلرز کی تعیناتی کے حوالے سے ہونے والی سماعت کے اختتام پر چیف جسٹس نے وائس چانسلر کی تقرری پر ایک ماہ میں پیش رفت کی رپورٹ مانگ لی ہے۔ سماعت کے دوران بتایا گیا کہ پاکستان میں کل 154سرکاری یونیورسٹیاں ہیں۔ 66یونیورسٹیوں میں وائس چانسلرز کا اضافی چارج دیا گیا ہے یا عہدے خالی ہیں۔ بلوچستان کی 10میں سے 5یونیورسٹیوں میں ایکٹنگ وائس چانسلرز تعینات ہیں۔ خیبر پختونخوا کی 32سرکاری یونیورسٹیوں میں سے 10میں مستقل وی سی تعینات ہیں جبکہ 16جامعات میں اضافی چارج دیا گیا ہے اور 6خالی ہیں۔پنجاب کی 49یونیورسٹیوں میں سے 20پر مستقل اور 29پر قائمقام وی سی موجود ہیں۔ سندھ کی 29یونیورسٹیوں میں سے 24پر مستقل اور 5پر اضافی چارج پر وی سی کام کر رہے ہیں۔پنجاب میں ماسٹرز پروگرام پر عمومی خرچ تقریبا ایک لاکھ تک آتا ہے۔ سندھ میں انڈر گریجویٹ پروگرامز میں سرکاری تعلیمی اداروں میں میڈیکل کی تعلیم پر8لاکھ سالانہ خرچ آتا ہےانجینئرنگ کی تعلیم پر سرکاری جامعات میں تقریبا 4لاکھ سالانہ کا خرچ آتا ہے۔ جبکہ دیگر پروگرامز پر تقریباڈھائی لاکھ سالانہ خرچ آتا ہے۔ دیگر پروگرامز کے ماسٹرز پروگرام پر بھی تقریبا اتنا ہی تعلیمی خرچ آتا ہے۔

ہمارے ہاں ہر حکومت ترقی کے دعوے کرتی ہے لیکن تعلیم پر اس کی توجہ سب سے کم ہوتی ہے حالانکہ ہر کوئی جانتا ہے کہ ترقی کی چابی تعلیم ہے۔ یہ ملک اسلام کے نام پر بنا ہے اور اسلام نے تعلیم کے حصول کو ہر مردوخاتون کا فرض قرار دیا ہے اور یہ ریاست کا بھی فرض ہے کہ وہ اپنے شہریوں کو مفت تعلیم کے مواقع فراہم کرے لیکن اس ملک میں کروڑوں بچے اسکول نہیں جاتے حالانکہ ایک بڑی تعداد دینی مدارس میں جاتی ہے اور اس نے بھی مفت میں ریاست کا بوجھ بانٹ لیا ہے۔ اسی طرح اخراجات پورے نہ کرنے کی وجہ سے ایک بڑی تعداد میٹرک کے بعد ڈراپ آؤٹ ہو جاتی ہے اور وہ کالج نہیں جا سکتی جبکہ یونیورسٹی تک بہت کم لوگ پہنچتے ہیں لیکن یونیورسٹی کی تعلیم اتنی مہنگی ہوگئی ہے کہ اپنے بچے کے تعلیمی اخراجات پورے کرنےکیلئےوالدین کو خود فاقے برداشت کرنا پڑتے ہیں لیکن ظلم یہ ہے کہ ہر پارٹی کی حکومت اس مسئلے کو حل کرنے کی بجائے مزید بڑھا دیتی ہے۔ جہاں تک نجی اور معیاری یونیورسٹیوں کا تعلق ہے تو ان کے اخراجات تو امیرنہیں بلکہ صرف امیر ترین لوگ پورا کرسکتے ہیں جبکہ دوسری طرف حکومت پی ٹی آئی کی ہو یا مسلم لیگ کی، یونیورسٹیاں کبھی ان کی ترجیحات میں شامل نہیں رہیں۔ ہم ہر چیز میں انڈیا کا مقابلہ کرنا چاہتے ہیں لیکن یہ نہیں دیکھتے کہ اعلیٰ تعلیم پر بھارت کے 1555ارب روپے کے مقابلے میں ہم صرف 65 ارب روپے خرچ کر رہے ہیں اور اب اسے بھی مزید کم کرنا چاہتے ہیں۔ بھارت کے ہم پلہ نہیں بن سکتے تو کم از کم بنگلہ دیش کا مقابلہ کر کے سالانہ 277ارب روپے تو خرچ کرنے چاہئیں۔ اس ملک کی بدحالی کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ یہاں پر استاد کی قدر نہیں ہے حالانکہ ہمارے دین کی رو سے وہ پیغمبرانہ پیشے سے وابستہ ہیں اور سوسائٹی میں سب سے زیادہ عزت اساتذہ کو ملنی چاہئے لیکن نہ صرف ان کی تنخواہیں انتہائی کم ہیں بلکہ گزشتہ برسوں میں ہم نے تنخواہیں بروقت نہ ملنے کی وجہ سے انہیں احتجاج پر بھی مجبور کیا۔ مختصر یہ کہ ترقی کا راستہ مختصر نہیں لیکن راستہ صرف یہی ہے کہ ہم تعلیم کو توجہ اور استاد کو مراعات اور عزت دیں۔ جن تعلیمی اداروں کو قائداعظم نے ذاتی جائیداد وقف کی تھی ہم اب سرکار کے خزانے سے بھی ان کا مناسب حصہ نہیں دے سکتے؟ کیا یہ شرم کا مقام نہیں۔

بشکریہ روزنامہ جنگ