سنگ خارا کی چٹان اور اہل دانش : تحریر عرفان صدیقی


گزشتہ ہفتے ایک مقدمے کی سماعت کے دوران ، پاکستان کے چیف جسٹس، مسٹر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے، عمران خان صاحب ( جو وڈیو لنک پر موجود تھے) سے کہا کہ ’’آپ لوگ ڈائیلاگ کیوں نہیں کرتے؟ ڈائیلاگ سے کئی راستے نکلتے ہیں۔ مسئلوں کا حل نکلتا ہے۔ ارکانِ پارلیمنٹ مل بیٹھیں۔ یہ کوئی ایک دوسرے کے دشمن تو نہیں۔ اور بات چیت تو دشمنوں سے بھی کرنا پڑتی ہے۔ جائیں جاکر ارکانِ پارلیمنٹ سے بات کریں۔‘‘

خان صاحب نے جب ملک کے ’’گھمبیر حالات‘‘ اور ’’بحرانی کیفیت‘‘ کا ذکر کیا تو مسٹر جسٹس مندوخیل بولے__ ’’آپ کی باتوں نے تو مجھے خوف زدہ کردیا ہے۔ حالات اگر اِتنے ہی خطرناک ہیں تو ساتھی سیاستدانوں کے ساتھ بیٹھ کر معاملہ حل کریں۔ جب آگ لگی ہو تو یہ نہیں دیکھتے کہ کیا پاک ہے اور کیا ناپاک، سب سے پہلے آگ کو بجھانا ہوتاہے۔اگر اس آگ سے کچھ نقصان ہوگیا تو سیاستدان ذمہ دار ہوں گے، جج نہیں۔‘‘ کچھ اہلِ فکرودانش بھی اسی طرح کے مشورے دے رہے ہیں تاہم وہ بے لچک رویہ رکھنے والی پی۔ٹی۔آئی اور لچک دار سیاسی موقف رکھنے والی جماعتوں کو ایک ہی لاٹھی سے ہانک رہے ہیں۔ اب تک یہ واضح ہوچکا ہے کہ سیاسی رابطوں یا مذاکرات کے حوالے سے، پی۔ٹی۔آئی دو نکات پر یکسُوہے۔ پہلا یہ کہ مسلم لیگ (ن)، پیپلزپارٹی اور ایم۔کیو۔ایم سے کوئی بات نہیں ہوگی۔ دوسرا یہ کہ وہ صرف فوج سے بات کرے گی جواُس کے خیال میں ’’حقیقی مقتدرہ‘‘ ہے۔ اس ضمن میں چیف آف آرمی اسٹاف اور ڈائریکٹر جنرل آئی۔ایس۔آئی کو نامزد بھی کردیاگیا ہے۔ تین چار دِن قبل اڈیالہ جیل میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے عمران خان نے ایک بار پھر دو ٹوک الفاظ میں کہا ’’ہم سیاستدانوں سے نہیں، وہاں بات کریں گے جہاں اصل طاقت موجود ہے۔ میں تو وزیراعظم شوکت عزیز سے نہیں، صرف جنرل مشرف کے نمائندوں سے بات کرتا تھا۔‘‘ یہ جج صاحبان کے مشورے کا باضابطہ ردِّ عمل تھا جو پی۔ٹی۔آئی کی سوچی سمجھی حکمتِ عملی بھی ہے۔ خان صاحب نے برسوں قبل ایک بیانیے کا بیج بویا تھا کہ ’’زرداری اور نوازشریف دونوں کرپٹ ہیں۔ یہ چور اور ڈاکو ہیں انہوں نے باریاں لی ہوئی ہیں۔‘‘ خان صاحب کی پُشت پناہ ’’مقتدرہ‘‘ نے دِل وجان سے اِس بیج کی نگہداشت اورپرداخت کی۔ یہاں تک کہ یہ اُن کے لئے ایک شجرِ ثمردار بن گیا۔ خان صاحب آج تک اسی کے شیریں پھل سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ اُن کی چھبیس سالہ سیاسی زندگی کا نچوڑ یہ ہے کہ جو کچھ ملے گا، جرنیلوں کی بارگاہِ خاص سے ملے گا۔ سو ایروں غیروں سے ہاتھ ملانا، کارِلاحاصل ہے۔ اِسی ’’مقتدرہ‘‘ کی اشیرباد سے انہوں نے حکومت بنائی، اسی کے زور پر پارلیمنٹ میں اپنے ارکان اور اتحادیوں کو قابو میں رکھا، اِسی کے زور پر اپنے سیاسی مخالفین کو غیظ وغضب کے کولہو میں پیلتے رہے۔ انتہا یہ کہ پارلیمنٹ ہاؤس کا ایک آراستہ پیراستہ کمرہ اُسی ’’مقتدرہ‘‘ کے ایک اہلکار کے لئے وقف رکھا جو پارلیمان کی پوری کارروائی کنٹرول کرتا تھا۔ آج ’’حمودالرحمن کمیشن رپورٹ‘‘ کی دُہائی دینے والے یہ سب کچھ بھول چکے ہیں۔ ’سائفر‘ کی تمام تر ذمہ داری جنرل باجوہ کے سر ڈالی گئی لیکن تحریکِ عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد، نامرادی کے بے آب ورنگ موسموں میں دو بار دست بستہ اُسی جنرل باجوہ کے حضور پیش ہوکر عرضی گزاری کہ ’’پی۔ڈی۔ایم کی حکومت ختم کردو۔ میں تمہیں تاحیات آرمی چیف بنادوں گا۔‘‘ تب کہاں تھی حمودالرحمن کمیشن رپورٹ؟ آج بھی وہ ایک ہاتھ میں یہ رپورٹ اور دوسرے ہاتھ میں اپنے سارے سیاسی اثاثے کی پوٹلی تھامے، اُسی دہلیز پہ بیٹھے، اُن زخموں کی چارہ گری مانگ رہے ہیں جو اُنہوں نے خود اپنے اَنگ اَنگ پر لگائے اور مسلسل لگا رہے ہیں۔ اُدھر سے دِلداری کا ہلکا سا اشارا بھی ملے تو وہ حمودالرحمن کمیشن رپورٹ کے پُرزے ہوا میں اُڑاتے براہِ راست یحیٰی خان کے مزار پر پھولوں کی چادر چڑھانے پہنچ جائیں گے۔

اہلِ دانش، شعوری یا غیرشعوری طورپر، نظرانداز کررہے ہیں کہ معاملات کے سدھار میں ایک بڑی اَڑچَن، 9 مئی بھی ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ اِسے بھی معمول کا سیاسی احتجاج قرار دے کر بھلا دیاجائے۔ فوج اِس پر آمادہ نہیں۔خان صاحب کی دِلداری میں فوج کی حسّاسیت کو نظرانداز کردینا قرینِ انصاف نہیں۔ جزا وسزا کا بنیادی فلسفہ، محض مجرم کو کیفر کردار تک پہنچانا نہیں ہوتا، اصل مدعا اِس جرم کو روکنا اور اس کے ارتکاب کا ارادہ کرنے والے کی حوصلہ شکنی کرنا ہے۔ اگر کسی بھی خوبصورت دلیل یا دلکش جواز پر 2023کے 9مئی پر مٹی ڈال دی گئی تو کل کوئی بھی سرکش گروہ لوحِ تاریخ پر اپنی مرضی کا 9 مئی رقم کرسکتا ہے۔ برطانیہ اور امریکہ، کم ازکم اپنے عوام کی حد تک بنیادی انسانی حقوق اور جمہوری آزادیوں کے حوالے سے خاصے حسّاس ہیں۔ لیکن 2011 ءمیں برطانیہ اور 2021ءمیں امریکہ نے، قانون توڑنے والے فسادیوں کو سرسری سماعت کی عدالتوں کے ذریعے کڑی سزائیں دیں۔ عمومی روایت کے برعکس وکلاء نے بھی برق رفتار عدالتی عمل کی حمایت کی۔ مقصود یہ تھاکہ آئندہ کسی کو ایسی سرکشی کا حوصلہ نہ ہو۔

ایک اور پہلو یہ بھی ہے کہ خان صاحب 9 مئی کے الاؤ کو بھڑکتا رکھنے میں ہی اپنی سیاسی بقا خیال کرتے ہیں۔ جسٹس مندوخیل کا مشورہ اپنی جگہ لیکن خان صاحب نے چند ہی دِن پہلے، سقوط ڈھاکہ کے حوالے سے ایک فتنہ ساماں تصویری ٹویٹ کے ذریعے، 9 مئی کے الاؤ پر منوں تیل ڈال دیا ہے۔ آگ بجھانے یا ٹھنڈی کرنے، ملک کو سیاسی استحکام کی راہ پر ڈالنے اور نظام کو مضبوط کرنے کو خان صاحب اپنی جماعت کے لئے پیام ِمرگ خیال کرتے ہیں۔ ان کا سوشل میڈیا مسلسل زہر میں بجھے تیروں کی بوچھاڑ کئے جارہا ہے اور وہ اُس سے محظوظ ہوتے ہوئے شاباش دے رہے ہیں۔

ایک تاثر یہ پیدا کیاجارہا ہے کہ خان صاحب سے معاملات طے نہ کئے گئے تو ’’بحران‘‘ ایک ہلاکت آفریں طوفان میں بدل جائیگا جو خدانخواستہ پاکستان کو اُدھیڑ کر رَکھ دیگا۔ خان صاحب نے بھی اپنے ٹویٹ کے ذریعے یہی پیغام دیا ہے کہ مجھ سے مُک مکا کرلو ورنہ ایک اور’’ سقوطِ ڈھاکہ‘‘ فصیلِ شہر سے لگا کھڑا ہے۔ اسی بے سروپا مفروضے پر ایمان لاتے ہوئے کچھ اہلِ دانش اپنی پروازِ تخیل کے زور پر تصوراتی قیامت سے ڈرا رہے ہیں۔ ان شاء اللہ ایسا کچھ نہیں ہو رہا۔ تمام ریاستی ادارے آئینی تقاضوں کے مطابق کام کررہے ہیں۔ معیشت کی بہتری کے آثار نمایاں ہیں۔ سمندرپارپاکستانیوں کی طرف سے بھیجی جانیوالی 3.243ارب ڈالر کی ریکارڈ رقم موجودہ حکومت پر اعتماد کی مظہر ہے۔ ایک معتبر ادارے کی سروے رپورٹ بتا رہی ہے کہ عوام میں امید کا گراف بہتر ہو رہا ہے۔ مہنگائی کی شرح 39 فی صد سے کم ہوکر 11فی صد تک آچکی ہے۔ خان صاحب کیلئے ملک کے کسی حصے میں اضطراب واحتجاج کی کوئی لہر نہیں۔ بحران صرف یہ ہے کہ پی۔ٹی۔آئی خود اپنے ہاتھوں سے بُنے فولادی جال میں پھنس چکی ہے اور پَرلے درجے کی بے حکمتی کے سبب مسلسل پھنستی چلی جارہی ہے۔ خودشکنی کی آخری حدوں کوچھوتی اِس بے ہنری کا مداوا مشکل ہے۔ بس دعا ہی دی جاسکتی ہے۔ نہ جانے صاحبانِ فکرودانش کو سامنے کھڑی سنگ خارا کی چٹان کیوں دکھائی نہیں دے رہی؟ اور اگر دِکھائی دے رہی ہے تو وہ تیشۂِ فرہاد لیکر اُس سے جوئے شیر بہالانے کے بجائے انہیں کیوں نشانہ بنارہے ہیں جو دروازے کھلے رکھے، مسلسل بات چیت پر آمادگی ظاہر کرتے رہتے ہیں۔

بشکریہ روزنامہ جنگ