ہم کہاں کھڑے ہیں؟ : تحریر حامد میر


تحریک انصاف کے کچھ دوست آج کل سوشل میڈیا اور ٹی وی ٹاک شوز پر مجھ ناچیز کے بارے میں ایک سوال اٹھا رہے ہیں۔ تحریک انصاف کے سینیٹر ڈاکٹر ہمایوں مہمند نے توبراہ راست مجھے کہا ہے کہ سانحہ مشرقی پاکستان کے بارے میں حمود الرحمان کمیشن کا ذکر کرنے پر عمران خان کے خلاف انکوائری شروع ہو چکی ہے لیکن آپ کے خلاف انکوائری کیوں نہیں ہوتی کیونکہ آپ تو ایک دفعہ نہیں بلکہ کئی دفعہ اپنے کالموں اور ٹی وی گفتگو میں اسی کمیشن کی رپورٹ سے سبق سیکھنے پر زور دے چکے ہیں؟تحریک انصاف کے دوست بھول جاتے ہیں کہ 1971ء میں مشرقی پاکستان میں کئے جانے والے فوجی آپریشن کی مخالفت اوربنگلہ دیش کے عوام سے معافی مانگنے کی تجویز دینے پر تحریک انصاف کی اپنی حکومت ناصرف میرےساتھ ناراض ہوئی بلکہ کئی عدالتوں میں مجھ پر غداری کا مقدمہ بنانے کیلئے درخواستیں بھی دائرکی گئیں۔تحریک انصاف والوں کے پاس ایک ریڈی میڈ بہانہ یہ بھی ہے کہ جب عمران خان وزیر اعظم تھے تو اصل اختیارات جنرل قمر جاوید باجوہ کے پاس تھے لہٰذاصحافیوں پر بنائے گئے مقدمات سے تحریک انصاف کی حکومت کا کوئی تعلق نہیں تھا۔ میں اس بحث میں نہیں پڑتا کہ اگر عمران خان کے پاس اختیارات نہیں تھے تو وہ اقتدار کے ساتھ کیوں چمٹے رہے کیونکہ پاکستان میں تمام وزرائے اعظم پاور پالیٹکس کے ذریعے اقتدار میں آتے ہیں۔ جتنا عرصہ اقتدار میں رہتے ہیں تو آرمی چیف کی تعریفوں میں زمین و آسمان کے قلابے ملاتے رہتے ہیں لیکن جیسے ہی انہیں اقتدار سے نکالا جاتا ہے تو پھر اپنی بےاختیاری کا رونا روتے ہیں۔ ہم جیسے لوگ ہر حکومت کی نظر میں گستاخ اور ہر اپوزیشن کے محبوب بن جاتے ہیں لیکن ہمارے ہوش اس وقت ٹھکانے آتے ہیں جب اپوزیشن والے کوئی نہ کوئی چکر چلا کر حکومت میں آتے ہیں اور ہمیں ملک دشمن عناصر کی فہرست میں شامل کردیتے ہیں۔ یاد کیجئے! جب 2018ء میں عمران خان وزیر اعظم بنے تو ببانگ دہل جنرل باجوہ کے گیت گایا کرتے تھے۔ ہم نے اگر کہیں یہ رائے دے دی کہ باجوہ صاحب کی مدتِ ملازمت میں توسیع نہیں ہونی چاہیے تو تحریک انصاف والے سوشل میڈیا پر ہمارے خلاف وہ طوفان برپا کرتے کہ صحافیوں کی عالمی تنظیموں کو ہمارے زندگی کی فکر پڑ جاتی۔ 2019ء میں تو معاملہ اتنا سنگین ہوگیا کہ وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے ہمارے والد مرحوم پروفیسر وارث میر کے نام پر رکھے گئے نیو کیمپس انڈر پاس کا نام تبدیل کردیا اور وزیر اطلاعات فیاض الحسن چوہان نے ایک پریس کانفرنس میں میرے والد اور مجھے غدار وطن قرار دے ڈالا۔ تحریک انصاف کے ایک وزیر کی طرف سے جھوٹے الزامات کے خلاف میں نے پیکا قانون کے تحت ایف آئی اے سائبر کرائمز ونگ کو درخواست دی تو کوئی کارروائی نہ کی گئی۔ آج پاکستان میں تحریک انصاف کی نہیں بلکہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت ہے۔ آج تحریک انصاف کی قیادت سانحہ مشرقی پاکستان پر وہی باتیں کررہی ہے جو پہلے ہم کیا کرتے تھے اور جو گالی گلوچ تحریک انصاف کے سوشل میڈیا کمانڈوز ہمارے ساتھ کیا کرتے تھے وہی گالی گلوچ اور دھمکیاں مسلم لیگ ن کے حامیوں کا ہتھیار بن چکے ہیں۔ ہماری درخواست پر آج بھی ایف آئی اے کچھ نہیں کرتی۔ ہم تو وہیں کھڑے ہیں جہاں پہلے کھڑے تھے لیکن سیاسی جماعتوں کی پوزیشن بدل چکی ہے۔

2018ء کے انتخابات میں دھاندلی کے خلاف آواز اٹھانے پر مسلم لیگ ن ہم سے خوش اور تحریک انصاف ناراض ہوتی تھی۔ 2024ء کے انتخابات میں دھاندلی کے خلاف بات کرنے پر مسلم لیگ ن ہم سے ناراض اور تحریک انصاف خوش ہوتی ہے۔ تحریک انصاف کے دور حکومت میں میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے نام سے ایک قانون کے ذریعہ میڈیا کے خلاف خصوصی عدالتیں قائم کرنے کا منصوبہ سامنے آیا تو ہم نے اس منصوبے کو آزادی صحافت کے خلاف ایک سازش قرار دیا۔ اس وقت شہباز شریف اور مریم نوز نے میڈیا کے خلاف عدالتیں قائم کرنے کی شدید مخالفت کی۔ اب شہباز شریف وزیر اعظم اور مریم نواز وزیر اعلیٰ پنجاب بن چکے ہیں۔ پنجاب اسمبلی سے پچھلے دنوں ہتک عزت کے خلاف ایک قانون منظور کرایا گیا جس کے تحت فوری سماعت کے لئے خصوصی عدالتیں قائم کی جائیں گی۔ ان عدالتوں کے ججوںکی تقرری بھی حکومت کرےگی۔ گورنر پنجاب سردار سلیم حیدر اور پیپلز پارٹی کے کچھ دیگر رہنما اس نئے قانون پر نظرثانی کا مطالبہ کر رہے تھے لیکن گورنر پنجاب کی عدم موجودگی میں قائم مقام گورنر ملک محمد احمد خان نے اس قانون پر دستخط کردیئے۔ اب اس نئے قانون کو عدالتوں میں چیلنج کردیا گیا ہے۔ ہم کل بھی آزادی صحافت کے خلاف قانون سازی کی مزاحمت کر رہے تھے اور ہم آج بھی مزاحمت کر رہے ہیں لیکن قانون بنانے والوں کے نام اور کردار بدل گئے ہیں۔ ہتک عزت کا قانون پاکستان کے عام آدمی کا مسئلہ نہیں ہے۔ اس قسم کے قوانین کا مقصد صرف اور صرف صحافیوں کا بازو مروڑنا ہے اور ان کے ہاتھ میں زنجیریں پہنانا ہوتا ہے۔ پیکا قانون کے تحت عمران خان کے خلاف تو انکوائری بھی ہو سکتی ہے اور ان کے خلاف غداری کا مقدمہ بھی قائم کیا جاسکتا ہے لیکن اگر میرے جیسا کوئی صحافی اسی پیکا قانون کےتحت ایف آئی اے کو درخواست دے تو معاملہ آگے نہیں بڑھتا۔ شکر ہے کہ ہم عوام میں شامل ہیں خواص میں شامل نہیں ہیں کیونکہ پیکا قانون بھی عوام کے لئے نہیں خاص لوگوں کے لئے بنایا گیا۔ اب ہتک عزت کا قانون بھی عوام کے لئے نہیں خاص لوگوں کے لئے بنایا گیا ہے۔ ہتک عزت کا قانون جس عجلت میں منظور ہوا اور جس پراسرار انداز میں قائم مقام گورنر نے اس پر دستخط کئے اس سے یہ واضح ہے کہ آنے والے دنوں میں اس قانون کو صحافیوں اور مسلم لیگ ن کے مخالفین کے خلاف استعمال کیا جائےگا۔ کل کو اگر تحریک انصاف دوبارہ حکومت میں آگئی تو شاید وہ بھی آزادی صحافت کے خلاف نت نئے قوانین بنائے گی اورپھر مسلم لیگ ن آزادی صحافت کی علمبردار بننے کی کوشش کرے گی۔ ہم تو وہیں کھڑے رہیں گے جہاں پہلے سے کھڑے ہیں لیکن اب ہمیں پاور پالیٹکس کرنے والے سیاستدانوں کے بارے میں اپنا رویہ تبدیل کرنا چاہئے اور ان کی منافقت کا پردہ چاک کردینا چاہئے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ