سیکولرازم کی فتح یا ہندو توا کی شکست : تحریر محمود شام


بھارت میں انتخابات کے نتائج بھارتی ووٹرز کی فراست اور تدبر کا واضح مظہر ہیں۔ 8فروری کو ہمارے ہاں بھی ووٹرز نے بڑی مشکلات کے باوجود اپنی روشن خیالی کا مظاہرہ کیا تھا۔ مگر یہاں مقتدرہ اور الیکشن کمیشن نے فارم 45پر فارم 47 کو مسلط کرکے پورے نتائج ہی بدل دیئے۔ بھارتی رائے دہندگان کا فیصلہ من و عن تسلیم کیا گیا۔ یہی ان کے ہاں جمہوریت کے تسلسل کا مرکزی سبب بھی ہے۔ مقتدرہ مداخلت نہیں کرتی۔ الیکشن کمیشن اپنے اختیارات کو اپنے حلف کے مطابق استعمال کر سکتا ہے۔ 543انتخابی حلقے تھے۔ کئی ہفتوں میں الیکشن مکمل ہوا۔ آپ جب یہ سطور پڑھ رہے ہوں گے تو نئی حکومت بھی قائم ہو رہی ہوگی۔

سب سے پہلے تو اگر ہم واقعی جمہوریت کو نظام وقت بنانا چاہتے ہیں تو بھارت کے الیکشن کمیشن سے ہمارے الیکشن کمیشن کو کچھ سبق حاصل کرنا چاہئے۔ پھر اس کے بعد پارلیمنٹ اگر بالادستی چاہتی ہے تو وہ عوام کی رائے کا احترام کرے۔ بھارت میں 543سیٹوں میں سے بی جے پی240 نشستیں حاصل کرسکی ہے۔ سادہ اکثریت 272سے بھی محروم رہی ہے۔ اپنے اتحادیوں سے مل کر وہ سادہ اکثریت سے مرکزی حکومت بنارہی ہے۔ 400 سے زیادہ نشستیں حاصل کرکے دو تہائی اکثریت سے آئین بدلنے، ملازمتوں کیلئے اقلیتوں کے کوٹے کا نظام بدلنے کے خواب چکنا چور ہوگئے ہیں۔ ایودھیا میں مسجد گراکر رام مندر بنانے کی کوششیں بھی ایودھیا کے ووٹروں کا دل نہیں جیت سکیں۔ میں نے جامعہ ملیہ دہلی کے پروفیسر کئی کتابوں کے مصنّف، مولانا آزاد یونیورسٹی جودھپور کے وائس چانسلر جناب اختر الواسع کے تاثرات جاننے کیلئے فون کیا۔ تو بہت ہی شستہ اُردو۔ مدلل انداز بیاں میں ان کا کہنا ہے کہ الیکشن جمہوریت کا جشن ہوتے ہیں۔ لوگوں نے جوش و خروش سے ہر ریاست میں ووٹ ڈالے۔ قریباً66فی صد ووٹ پڑے۔ یہ ظاہر ہے کہ انتخابی مہم بھرپور انداز میں چلانے اور انتظامیہ کی طرف سے کسی روک ٹوک نہ ہونے کا نتیجہ ہے۔ اختر الواسع کہتے ہیں کہ 2024الیکشن میں بھارتیوں نے سیکولرازم کو 2014 اور 2019 کے انتخابات کی نسبت مضبوط کیا ہے۔ مسلمانوں اور اقلیتوں کے حقوق پر مودی کے ڈاکے سے غیر مسلم ووٹرز نے بچایا ہے۔ اس سارے انتخابی عمل نے یہ ثابت کیا ہے کہ غیر مسلموں کی بڑی تعداد سیکولر ہے۔ کانگریس نے 2014 اور 2019کی نسبت اپنی انتخابی مہم بہت بصیرت سے چلائی۔ اس لیے سابقہ 50 سیٹوں کی نسبت اب کے 99سیٹیں حاصل کرنے میں کامیاب رہی ہے۔ پہلی بار پارلیمنٹ میں ایک اپوزیشن لیڈر اپنے پورے وزن کے ساتھ موجود ہوگا۔ پہلی پارلیمنٹ کسی مضبوط اپوزیشن کے بغیر چل رہی تھی۔ مسلمانوں نے انتہائی تدبر، فراست اور بہت ہی حساس حکمت عملی سے اپنی رائے کی طاقت کو استعمال کیا ۔ اب ہندوستانی مسلمان نہ تو حاکم ہے اور نہ محکوم۔ بلکہ اقتدار میں برابر کا شریک ہے۔ 26مسلمان مختلف جماعتوں، مختلف علاقوں سے جیت کر لوک سبھا میں پہنچے ہیں اور یہ سب اپنے اپنے علاقے کے مستند اور مسلمہ نمائندے ہیں۔ بنگال سے چھ۔ یوپی سے 5۔ بہار سے 2۔ تلنگانہ سے ایک۔ کیرالہ سے 3۔ تامل ناڈو سے 1۔ کشمیر سے 3۔ ان کے آنے سے مسلمانوں کو پارلیمنٹ میں طاقت ور نمائندگی حاصل رہے گی۔ اتر پردیش اور راجستھان میں بی جے پی کو بہت مار پڑی ہے ۔اختر الواسع صاحب نے ایک اور واضح امر یہ بتایا کہ بی جے پی کے اتحادیوں نتیش کمار اور چندرابابونائیڈو جیسے رہنما جمہوری اصولوں کی بنا پر مسلمانوں اور سب اقلیتوں کے تحفظ پر زور دیتے ہیں۔ ایک سینئر ایڈیٹر احمد جاوید کا کہنا ہے کہ مجلس اتحاد المسلمین کی پارٹی کی جیت بھی قابل ذکر ہے مسلمانوں کیلئے ان کی ادبی، تعلیمی اور رفاہی خدمات کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ سینئر صحافی ایڈیٹر کیرن ساہنی ایک اور زاویے سے جائزہ لیتے ہیں کہ الیکشن 2024 نے انڈیا کی سیاست کا رُخ پھر وفاقی سیاست کی طرف موڑ دیا ہے۔ بی جے پی نے 240سیٹیں جیتی ہیں۔ مگر بہت کم ووٹوں سے اور جو ہاری ہیں ان میں فرق بہت زیادہ ہے۔ ووٹر نے بی جے پی کے تحکمانہ انداز حکمرانی کو مرکز اور صوبوں میں مسترد کردیا ہے۔ کیرن بھی مسلمان شہریوں کے تدبر کو کلیدی حیثیت دے رہے ہیں۔ 80فی صد غریب بھارتی چاہتے ہیں کہ حکمرانی فلاحی ریاست کے اصولوں پر ہو۔ مودی کو اپنی خارجہ پالیسی خاص طور پر ہمسایوں سے نفرت کی بنیاد بدلنا ہوگی۔ مفاد پرست عناصر اب بھی پاکستان سے تعلقات معمول پر لانے میں رکاوٹ ہوں گے۔ انڈیا نے سری لنکا کی مدد کی ہے ۔گزشتہ دو برس میں 5ارب ڈالر کا قرضہ دیا ہے۔ پاکستان سے بھی اگر اچھے تعلقات ہوجاتے ہیں تو بھارت کو پاکستان کی مالی مدد کرنے میں کوئی حرج نہیں ہوگا۔ یادر ہے کہ مودی اور نواز شریف میں پہلے بھی کچھ مفاہمت رہی ہے ہندوستان سے ہی قلمکار علیزے نجف نے انصاف ٹائمز کے چیف ایڈیٹر سیف الرحمن کے تجزیے سے نوازا ہے۔ ان کے مطابق لوک سبھا انتخاب 2024 یا حقیقی اعتبار سے عوامی، جمہوری، وفاقی،سماج وادی آئین و سرمایہ دارانہ ہندو توا ری پبلک کے بیچ ریفرنڈم کا جشن ختم ہوا۔ ملک نے برہمن وادی۔ سرمایہ دارانہ ہندو توا ری پبلک کو خارج کردیا ہے۔ مودی کی حکومت، نتیش کمار اور نائیڈو جیسے مضبوط لیڈروں کے کاندھے پر ٹکی ہوگی۔ تو دوسری طرف اپوزیشن بھی بہت مضبوط ہے اور اکثریت کے بالکل قریب۔ جمہوری ملک کیلئے خوش آئند ہے کہ بر سر اقتدار حلقہ کمزور اور حزب اختلاف مضبوط ہے۔

آج اتوار ہے۔ اپنے بیٹوں بیٹیوں، پوتوں پوتیوں نواسوں نواسیوں بہوؤں دامادوں کے ساتھ دوپہر کے کھانے پر تبادلۂ خیال کا دن۔بھارت کے الیکشن پر ضرور بات کریں۔ پاکستان میں بھی حکمران پارٹی کمزور اور اپوزیشن مضبوط ہے۔ مگر یہاں الیکشن کمیشن بھارت کی طرح با اختیار اور غیر جانبدار نہیں ہے۔ عدالتیں بھی وہاں کی طرح آزاد نہیں ہیں۔ انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کھلم کھلا ہورہی ہیں۔ میڈیا پر مضحکہ خیز پابندیاں ہیں۔

پاکستان کو اپنی ’ انڈیا پالیسی‘ بہت سوچ سمجھ کر تشکیل دینا چاہئے۔ بہتر تو یہ ہے کہ پارلیمنٹ میں کھل کر بھارتی انتخابات کے نتائج اور نئی حکومت کی پاکستان پالیسیوں پر بحث ہو۔ پھر طے کیا جائے کہ پاکستان کی آئندہ ’انڈیا پالیسی‘ کیا ہو۔ پاکستان کی یونیورسٹیوں میں بھی بھارت، ایران کے انتخابات افغانستان کی اقتصادی صورت حال پر تبادلۂ خیال ہو ۔امریکہ چین جلد ہی بھارت کی نئی حکومت سے رابطے کرکے خطے کی سیاست سے متعلق پالیسیاں طے کریں گے۔ دونوں کو پاکستان کی حساس شراکت کی ضرورت ہے۔ انڈیا پالیسی پورے پاکستان کی پالیسی ہو، کسی ادارے یا فرد واحد کی نہیں۔

بشکریہ روزنامہ جنگ