کچھ عشق کسی کی ذات نہیں … تحریر : وجاہت مسعود


برادرم سہیل وڑائچ کا اشہب قلم ان دنوں میدان وغا میں اپنے جوہر دکھا رہا ہے۔ صحافت کی ٹمٹماتی لو کو دونوں ہاتھوں سے حصار کئے بیٹھے ہیں۔ حالیہ کالم میں تین بہادر سیاسی رہنماؤ ں ، ڈاکٹر یاسمین راشد ، اعجاز چودھری اور میاں محمود الرشید کا ذکر اس موثر انداز میں کیا کہ مجھ نوحہ گر کو جارج ایلیٹ کے ناول Mill on the Floss کا کردار Edward Tulliver یاد آ گیا۔ ایڈورڈ ایک سادہ دل انسان ہے جو پھیلتے ہوئے صنعتی انقلاب اور سرمائے کے داؤ پیچ نہیں جانتا اور ایک طویل عدالتی جنگ کے بعد اپنی سب جائیداد کھو بیٹھتا ہے۔ مرنے سے پہلے وہ شدید ذہنی اذیت میں بائبل کے اپنے خاندانی نسخے پر آئندہ نسلوں کی رہنمائی کے لیے ان افراد کے نام لکھنا چاہتا ہے جو اس کی بربادی کا باعث بنے۔ شیطان صفت وکیل جان ویکم کا نام سرفہرست ہے۔وڑائچ صاحب کا کالم پڑھتے ہوئے مجھے خیال آیا کہ مستقبل کا مورخ موجودہ عہد بیان کرے گا تو فیصل واوڈا ، عمران اسماعیل ، عثمان بزدار ، عون چودھری،جہانگیر ترین اور پرویز خٹک کے ناموں کی ترتیب کیا ہو گی۔بندہ ناچیز صحافت میں حاشیے کا کردار ہے۔ کبھی تحریک انصاف کا حامی یا ہمدرد نہیں رہا اور نہ اس کا کوئی امکان پایا جاتا ہے۔ ہر اک کو رہنما تھی فقط اپنی غفلتیں۔ مجھے حمید گل کی تزویراتی گہرائی ،ہارون الرشید کی زہد و تقوی میں نچڑتی قلم کاری اور حسن نثار کی بلند آہنگی سے کیا تعلق،مجھے تو اپنے باچا خان ، حسین شہید سہروردی اور قسور گردیزی یاد ہیں۔ حسن ناصر ، شہید اللہ قیصر ، نذیر عباسی اور حمید بلوچ کے ماتم سے فرصت ہو تو آج کی تمثیل بیان کروں۔ فرخندہ بخاری ، افضل توصیف ، شاہدہ جبیں اور شہلا رضا پر گزرنے والی قیامت بیان کر لوں تو خدیجہ شاہ ، عالیہ حمزہ اور صنم جاوید تک پہنچوں۔ مجھے پرویز رشید ، مشاہد اللہ خان ، رانا ثنااللہ اور جاوید لطیف کی آزمائش بیان کرنے کا یارا ہو تو لمحہ موجود کے الجھے ہوئے تاروپود بیان کروں۔ میں جعفر تھانیسری کی کالا پانی حمید اختر کی کال کوٹھڑی ،شیخ ایاز کی ساہیوال جیل کی ڈائری نثار حسین کی ضمیر کے قیدی میجر آفتاب احمد کی اٹک قلعے سے اور آصف بٹ کی کئی سولیاں سرراہ تھیں جیسی کتابوں کی قرات مکمل کر لوں تو جاوید ہاشمی کی میں باغی ہوں بھی پڑھ لوں گا۔ عمران خان صاحب کی قید تنہائی کے کچھ مناظر دیکھ کر مجھے پنڈی جیل میں بھٹو صاحب کی موت کی کوٹھڑی اور بان کی چارپائی پر رکھا چوخانہ کھیس کے نیچے ان کا جسد خاکی یاد آیا۔ سکھر جیل میں بینظیر بھٹو سے بدسلوکی یاد آئی۔ راؤ فرمان ، لیفٹیننٹ جنرل جہانزیب ارباب اوربریگیڈیئر امتیاز بلا کی رعونت تازہ ہوئی۔ عدالت عظمی کے سربراہ قاضی فائز عیسی کی نرم گفتاری دیکھتا ہوں توجسٹس منیرکے فشار خون کی بلندی ،افتخار محمد چودھری کی خود نمائی ، آصف سعید کھوسہ کی ادبی حوالوں میں لتھڑی بے انصافی اور ثاقب نثار کی ذاتی عداوتیں حافظے پر بے چہرہ پرچھائیوں کی طرح لرز اٹھیں۔ جارج ایلیٹ نے ایک گھرانے سے ناانصافی کو ناول میں ڈھالا تھا۔ ہمیں تو ایک قوم کا مسلسل المیہ درپیش ہے۔ حیرت ہے کہ کچھ لوگ ووٹ کو عزت دو کا بیانیہ ترک کرنے پر طعنہ زن ہیں۔ یہ حق تو انہیں زیب دیتا ہے جنہوں نے کبھی ووٹ کو عزت دینے کی لڑائی لڑی ہو۔ ابوالکلام آزاد نے کیا خوب کہا تھاکہ کنارے پر بیٹھ کر فقرے بازی کرنے والے کبھی منجدھار میں اتر کر اپنے دست و بازو کی آزمائش بھی کریں ۔آئین کی بالادستی کی بات کرنے والے تب خاموش رہے جب کسی نے اٹھارہویں آئینی ترمیم کو چھ نکات سے زیادہ خطرناک قرار دیا تھا۔ درویش کے مہربان جانتے ہیں کہ اسے سیاست میں مذہبی اصطلاحات استعمال کرنے سے چنداں شغف نہیں۔ وجہ یہ کہ عقیدہ انفرادی ضمیر کا غیر مشروط حق ہے جبکہ جمہوری سیاست دلیل ، اختلاف اور مکالمے سے عبارت ہے۔ عقیدے اور سیاست کو خلط ملط کرنے سے عقیدہ بے توقیر ہوتا ہے اور سیاست بے دست و پا ہو جاتی ہے۔ آج مگر بوجوہ تحریک انصاف کے نعرے ریاست مدینہ کا حوالہ دینا پڑ رہا ہے۔ ریاست مدینہ کے بنیادی خدوخال میں مساوات کا اصول کارفرما تھا ۔ بتایا جائے کہ پاکستان کی جیلوں میں قید لاکھوں قیدیوں میں سے کسے ورزش کرنے کی مشین فراہم کی گئی ہے۔ عدالت کے حکم پر کسی شہری کو گرفتار کرنے پر حساس عسکری تنصیبات پر حملہ آور ہونا ریاست مدینہ کے تصور انصاف پر کس طرح پورا اترتا ہے ۔ لگے ہاتھوں یہ بھی بتا دیا جائے کہ 2018کے انتخابی منشور میں تحریک انصاف نے کبھی ریاست مدینہ کا ذکر کیا؟ کیا قانون کی بالادستی کی مالا سمرنے والوں نے کبھی گمشدہ افراد کا معاملہ اٹھایا۔ زندگی کی جملہ جدید سہولتوں سے فائدہ اٹھانے والے کیا وہی لوگ نہیں جو امریکا میں بازو لہرا کر اعلان کرتے تھے کہ میں فلاں فلاں قیدی کے کمرے سے ایئر کنڈیشنر اتار لوں گا۔ یہ تو پوچھ لینا چاہیے کہ کسی قیدی کے حقوق جیل کے قواعد و ضوابط کے تابع ہیں یا ان پر سربراہ حکومت کا فرمان شاہی منطبق ہوتا ہے۔ محترم سہیل وڑائچ تین سیاسی قیدیوں کی ابتلا بیان کر کے اپنا فرض اداکر رہے ہیں۔ اب انہیں یہ بھی بتا دینا چاہیے کہ کیا فروری 2018 میں جاری کیا گیا باجوہ ڈاکٹرائن متعلقہ اہلکار کے حلف کی خلاف ورزی نہیں تھی۔ جسے فروری 2021میں سیاسی مداخلت ترک کرنے کا دعوی ہے وہ یہ بھی بتائے کہ اپریل 2021میں انتشار پسندٹولے کے نمائندوں عقیل ڈھیڈی اور مفتی منیب الرحمن کے ساتھ کس اختیار کے تحت معاہدہ کیا تھا۔ صحافت کسی سیاسی جماعت کی حمایت یا مخالفت کا معاملہ نہیں ، تاریخ کے پیچ و خم پر آنکھ رکھتے ہوئے دستور کی بالادستی ، قانون کی حکمرانی اور شفاف جمہوریت کے لیے آواز اٹھانے کا نام ہے۔

اے حریفان غم گردش ایام آو

ایک ہی غول کے ہم لوگ ہیں ہارے ہوئے لوگ

بشکریہ روزنامہ جنگ