میری ٹِنڈ کرا دینا اگر…! ‘‘ : تحریر تنویر قیصر شاہد’’


یکم جون2024کی شام ، جب بھارت میں سات مراحل میں عظیم الجثہ انتخابات اختتام کو پہنچ رہے تھے ، ہر کوئی قیافے لگا رہا تھا کہ مودی جی کی قیادت میں حکمران اتحاد (NDA) اور بی جے پی بھاری اکثریت سے جیت رہی ہے۔

عالمی میڈیا کی بھی تقریبا یہی رائے تھی ۔ ایسے میں دہلی سے ایک منفرد آواز نے سبھی کو چونکا دیا ۔ یہ آواز نئی دہلی سے ایم ایل اے سمانتھا بھارتی کی تھی ۔ سمانتھا بھارتی، اروند کجریوال کی معروف سیاسی اور مقتدر پارٹی (AAP) کے منتخب رکن ہیں ۔ انتخابات میں AAP اور درجن سے زائد اپوزیشن اتحاد (INDIA) کے پلیٹ فارم سے لوک سبھا کا انتخاب لڑ رہے تھے ۔

ان کے مقابل بی جے پی کی امیدوار بنسوری سوراج تھیں ۔ یہ مقابلہ خاصا مشکل کہا گیا کہ بنسوری سوراج صاحبہ مشہور بی جے پی لیڈر اور سابق مرکزی وزیر اطلاعات، آنجہانی سشما سوراج، کی صاحبزادی ہیں ۔ سمانتھا بھارتی نے للکارتے ہوئے کہا تھا: میری ٹِنڈ کرا دینا اگر نریندر مودی اکیلے ہی تیسری بار وزیر اعظم منتخب ہو جائیں !میرے یہ الفاظ لکھ لیں ، جب 4 جون 2024 کو بھارتی انتخابات کے حتمی نتائج کا اعلان ہوگا تو مودی جی کی بھاری اکثریت سے جیت کے سبھی قیافے غلط ثابت ہوں گے ۔ ہم دہلی کی بھی ساری سیٹیں جیت جائیں گے۔
4جون کو بھارتی لوک سبھا کے انتخابی نتائج سامنے آ گئے ۔ سمانتھا بھارتی ایسے بڑھک باز مگر ٹِنڈ کروانے سے بچ گئے ہیں۔ ان کی پیشگوئی کچھ درست اور کچھ غلط ثابت ہوئی ہے ۔دہلی کی ساری سیٹیں سمانتھا بھارتی کی پارٹی (AAP) جیت نہیں سکی ہے ۔ یہ سیٹیں بی جے پی سمیٹ کر لے گئی ہے ۔بی جے پی مگر ، اپنے دعووں کے مطابق ، اکیلے ہی اتنی سیٹیں جیت نہیں پائی ہے کہ تنہا تیسری بار حکومت بنا سکے ۔

بی جے پی اور مودی جی کو اِس بار اپنے اتحادیوں (NDA) کی احتیاج سے حکومت بنانا پڑے گی کہ بی جے پی صرف240سیٹیں جیت پائی ہے۔ حکمران اتحاد (این ڈی اے)کی سیٹیں293ہیں۔ بی جے پی کامخالف اتحاد(INDIA)233سیٹیں جیت کر بی جے پی اور مودی کو للکار رہا ہے ۔ مودی جی اب اپنے دو بڑے اتحادیوں ( نتیش کمار اور چندرا بابو نائیڈو) کے ترلے منتوں اور انہیں کابینہ میں اہم وزارتیں بطورِ رشوت دے کر ہی وزارتِ عظمی کی کرسی پر بیٹھ سکیں گے ۔

بھارتی لوک سبھا کے انتخابات ، جو مسلسل 6ہفتے جاری رہے، سے قبل ہی بلند آہنگ سے کہا جارہا تھا کہ نریندر مودی تیسری بار بھی بھاری اکثریت سے الیکشن جیت کر تیسری بار پھر دنیا کی سب سے بڑی جمہوریہ کے چیف ایگزیکٹو بن جائیں گے ۔ بھارتی میڈیا کی اکثریت ( جسے مودی جی کے مخالفین اور نقاد گودی میڈیا بھی کہتے ہیں) بھی بیک زبان یہی راگ الاپ رہا تھا ۔ ایسا مگر ہو نہیں سکا ہے ۔

مودی صاحب کو دھچکا لگا ہے ۔بھارتی ووٹروں نے مودی جی اور بی جے پی کی بھاری اکثریت کے سبھی خواب غارت کر ڈالے ہیں ۔ مودی جی نے پھر بھی انتخابی نتائج سامنے آنے پر بی جے پی کے ہیڈ کوارٹر پہنچ کر فاتحانہ خطاب کیا ۔ کہا: ہم بی جے پی نے اکیلے ہی اتنی سیٹیں جیتی ہیں کہ ہمارا مخالف اتحاد(INDIA) مل کر بھی اتنی سیٹیں نہیں جیت سکا ہے ۔

ہم ہی تیسری بار حکومت بنائیں گے ۔ مودی جی کچھ غلط بھی نہیں کہہ رہے ہیں ۔ لیکن اب وہ حکومت سازی کے لیے مطلقا اپنے اتحادیوں کے محتاج بن کر رہ گئے ہیں ۔ مودی کے مخالف اتحاد کے قائد ، کانگریس کے راہل گاندھی، اور مغربی بنگال کی وزیر اعلی، ممتا بینر جی، مطالبہ کررہے ہیں کہ مودی کو اب مستعفی ہوجانا چاہیے۔

بی جے پی ، این ڈی اے اور مودی جی کے درجن سے زائد سیاسی و انتخابی مخالفین نے اتحاد بنا کر نریندر مودی کو شکست دینا چاہی۔ اس کوشش میں وہ کسی قدر کامیاب رہے ہیں ۔ لوک سبھا کے اِن انتخابات میں مودی کی قیادت میں بی جے پی کا نعرہ تھا:اب کی بار 400پار۔ یعنی اِس بار لوک سبھا کے انتخابات میں بی جے پی 400سے زائد سیٹیں حاصل کر لے گی ( لوک سبھا یعنی بھارتی قومی اسمبلی کی کل سیٹیں 543 ہیں)۔ چار سو پار کا بی جے پی اتحاد کا خواب مگر پورا نہیں ہو سکا ہے۔

وہ 300کا ہندسہ بھی پار نہیں کر سکاہے ۔ مودی اور بی جے پی کو حکومت سازی کے لیے 272سیٹیں چاہئیں ۔ یوں بی جے پی اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر اِس بار بھی حکومت بنا تو سکے گی مگر بڑی ہی مشکلات کے ساتھ ۔ حکومت بنا کر کوئی بھی قانون بنانے یا کسی قانون میں ترمیم کے لیے مودی اور بی جے پی کو اپنے مخالفین کی سخت اشیر واد کی ضرورت پڑتی رہے گی ۔

بھارتی اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے بیک زبان کہا گیا تھا کہ اگر اِس بار مودی کو چار سو سے پار نشستیں ملیں تو وہ بھارتی سیکولرازم کا ناک نقشہ بدل کر اِسے خالص ایک ہندو ریاست بنا دیں گے، اس لیے مودی سے بچیں ۔نتائج سامنے آئے ہیں تو لگتا ہے کہ بھارتی عوام نے مودی کی مخالف جماعتوں کے پیغام پر سنجیدگی سے کان دھرا ہے ۔اِسی لیے تو کانگریسی رہنما، راہل گاندھی، نے انتخابی نتائج سامنے آنے پر اپنے اتحادیوں کے ساتھ دمکتے چہروں سے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے : ہم نے بھارتی عوام کے تعاون سے بھارتی سیکولر آئین کو بچا لیا ہے ۔ اب مودی جی بھارتی آئین، مقبوضہ کشمیر اور بھارتی اقلیتوں سے جو سلوک چاہیں گے، کرنہیں سکیں گے ۔

مودی کی مخالف بھارتی سیاسی جماعتوں کو بھی شاباش کہ انہوں نے حسبِ سابق لوک سبھا کے انتخابی نتائج کو نہ صرف تسلیم کیا ہے بلکہ دھاندلی اور بے ایمانی کے الزامات بھی نہیں لگائے ۔ نہ آر ٹی بیٹھنے کا شور مچایا ہے ، نہ فارم 45میں ادلی بدلی کے خلاف احتجاجات کیے ہیں اور نہ ہی ہماری طرح یہ کہا ہے کہ فارم 45اور فارم47میں بے حد تفاوت ہیں ۔

ہم جب اپنی منجی کے نیچے ڈانگ پھیرتے ہیں ، اپنے الیکشن کمیشن ، انتخابی نتائج کی تاریخ اور اپنے انتخابی فیصلہ سازوں کی جانب دیکھتے ہیں تو بھارتی انتخابات پر انگشت نمائی کی گنجائش ختم ہو کررہ جاتی ہے ۔ اِس کا مگر یہ معنی اور مطلب بھی نہیں ہے کہ تازہ بھارتی انتخابات خامیوں (Flaws) سے یکسر پاک ہیں۔ مودی جی، انڈین اسٹیبلشمنٹ اور ارب پتی بھارتی سرمایہ داروں نے نریندر مودی اور بی جے پی کا بھرپور اور کھل کا ساتھ دیا ہے ۔ مودی جی نے اپنے کئی مخالفین کو انتخابات میں سر ہی نہیں اٹھانے دیا ۔

اِس ضمن میں کلاسیکل مثال دہلی کے نوجوان وزیر اعلی، اروند کجریوال ، کی ہے جنہیں انتخابات سے پہلے ایک سنگین الزام کے تحت گرفتار کر لیا گیا تھا ۔ سابق بھارتی وزیر اعظم ، من موہن سنگھ ، نے بھی کہا ہے : مودی جی نے انتخابات جیتنے کے لیے اپنے سیاسی مخالفین بارے جو زبان استعمال کی ہے، اس نے بھارتی وزیر اعظم کے عہدے کو رسوا کیا ہے ۔

مکمل انتخابی نتائج آنے سے قبل پہلے ہی نریندر مودی جی کامل اطمینان کے ساتھ کنیا کماری (ریاست تامل ناڈو) کی چٹان پر سوامی ویوک نندہ کی یاد میں بنی عبادتگاہ میں جومراقبہ کررہے تھے ، ایسے سبھی مراقبے زمین بوس تو ہو گئے ہیں ، لیکن یہی مودی جی کل 8جون کو پھر بھارتی وزارتِ عظمی کا حلف اٹھا رہے ہیں ۔

بشکریہ روزنامہ ایکسپریس