بجٹ کے بعد تصادم کا خطرہ : تحریر مزمل سہروردی


پاکستان کے سیاسی منظر نامہ میں سب ٹھیک نہیں ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ حکومت ختم ہونے کا کوئی امکان ہے۔ عددی طور پر ملک کی ساری حکومتیں محفوظ ہیں۔ مرکز میں حکومت گرنے کا کوئی امکان نہیں۔ سنی اتحاد کونسل پارلیمان میں کوئی بھی تبدیلی لانے کی کسی پوزیشن میں نہیں ہے۔

پنجاب میں ن لیگ کی حکومت بہت محفوظ ہے۔ انھیں کسی کی کوئی ضرورت نہیں۔ ان کے پاس مکمل اکثریت ہے، اس لیے مرکز میں اگر ن لیگ اور پیپلز پارٹی کا اتحاد ٹوٹ بھی جائے تب بھی پنجاب میں مریم نواز کی حکومت کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ سندھ میں پیپلزپارٹی محفوظ ہے۔ مکمل اکثریت موجود ہے۔ کے پی میں گنڈا پور کی حکومت موجود ہے۔

اسے بھی کوئی خطرہ نہیں۔ بلوچستان میں اگرچہ اتحادی حکومت ہے۔ لیکن وہاں تحریک انصاف اور سنی اتحاد کونسل کا کوئی کردار نہیں ہے۔ کھیل اگر ن لیگ اور پیپلزپارٹی سے نکلے گا بھی تو جے یو آئی ان ہو جائے گی۔ تحریک انصاف کا کوئی چانس نہیں۔
اس لیے سمجھنے کی بات یہ ہے کہ ملک میں پارلیمانی پوزیشن ایسی ہے کہ اس میں تحریک انصاف کوئی بڑی تبدیلی نہیں لا سکتی۔ تحریک انصاف کی سب الیکشن پٹیشن منظور بھی ہو جائیں تب بھی صوبائی حکومتوں کے بالخصوص پنجاب کے منظر نامہ میں کوئی تبدیلی نہیں ہوگی۔

اس لیے حکومتیں محفوظ ہیں۔ لیکن پھر بھی خطرات موجود ہیں۔ یہی بات سمجھنی کی ہے کہ حکومتیں محفوظ ہیں۔ لیکن پھر بھی سب ٹھیک نہیں ہے۔ یہی سمجھنے کی بات ہے کہ پارلیمان میں استحکام موجود ہے۔ لیکن پھر بھی عدم استحکام ہے۔ سمجھنے کی بات ہے کہ سڑکوں پرکوئی احتجاج نہیں ہو رہا ہے۔ سڑکیں سکون میں ہیں پھر بھی عدم استحکام ہے۔ سمجھنے کی بات ہے کہ کوئی آئینی بحران نہیں ہے۔ پھر بھی عدم استحکام ہے۔انتخابی نتائج کے بعد سب سیاسی جماعتوں نے پارلیمان میں حلف اٹھا لیا ہے۔ پھر بھی عدم استحکام ہے۔ آخر کیوں؟

جب کسی حکومت کو کوئی خطرہ نہیں۔ پھر کیوں کہا جا رہا ہے کہ سب ختم ہو رہا ہے۔ لوگ کیوں حکومت ختم ہونے کی، نظام ختم ہونے کی تاریخیں دے رہے ہیں۔ ایسا کیوں کہا جا رہا ہے کہ سب ختم ہو رہا ہے۔ ایک طرف موجودہ حکومت اور نظام کو مقتدر حلقوں کی بھی مکمل حمایت حاصل ہے پھر بھی ایسی باتیں کی جا رہی ہیں کہ یہ نظام چل نہیں سکتا۔ یہ بھی پہلی دفعہ دیکھا جا رہا ہے کہ مقتدرہ کی حمایت کے باوجود نظام کمزور نظرآرہا ہے۔ کیا اسٹبلشمنٹ کے پاس بھی اب نظام کو طاقت بخشنے کی طاقت ختم ہو گئی ہے۔ کیا پارلیمانی عددی اکثریت بھی نظام کی طاقت نہیں ہے۔ کیا کمزوری ہے۔

کیا آج عدلیہ سے عدم استحکام ہو رہا ہے۔ کیا عدلیہ کے فیصلوں نے ملک میں سیاسی عدم استحکام پیدا کر دیا ہے۔ یہ تاثر بھی کچھ اچھا نہیں ہے۔ عدلیہ کے فیصلے تو آئین وقانون کی طاقت بنتے ہیں۔

عدلیہ کے فیصلے تو نظام کی مضبوطی کا باعث بننے چاہیے۔ عدلیہ کے فیصلے تو سیاسی استحکام کا باعث ہوتے ہیں اب کہا جا رہا ہے کہ عدلیہ سے نظام کو خطرہ ہے۔ عدلیہ عدم استحکام پیدا کر رہی ہے۔ یہ عجیب صورتحال ہے۔ اس سے پہلے تو ہم نظام کو کمزور کرنے اور لپیٹنے کا الزام اسٹبلشمنٹ پر لگاتے تھے لیکن اب یہ الزام عدلیہ پر لگ رہا ہے۔ کیوں سیاسی قوتیں ایسا ماحول بنا رہی ہیں جس میں یہ بیانیہ بنایا جا رہا ہے کہ عدلیہ کی وجہ سے عدم استحکام ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ اسٹبلشمنٹ اور عدلیہ میں خلیج نظر آرہی ہے۔ یہ خلیج نظام کی کمزوری کی بنیادی وجہ بن رہی ہے۔ آج سے پہلے اداروں کی اس طرح کی لڑائی سامنے نہیں آئی ہے۔ آج سے پہلے اداروں نے ایک دوسرے کا ایک حد تک احترام کیا ہے۔ آج وہ احترام نظر نہیں آرہا۔ اسٹبلشمنٹ اور عدلیہ کے درمیان روایتی محاذ آرائی نے سارے نظام کو مفلو ج کر دیا ہے۔کسی کو سمجھ نہیں آرہی کہ اس محاذ آرائی کا اختتام کیا ہوگا۔

اس محاذ آرائی میں کون کہاں کھڑا ہے۔ یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ اس وقت حکمران اتحاد کی تمام جماعتیں روایتی اسٹبلشمنٹ کے ساتھ ہیں۔ پارلیمان میں اکثریت کی وجہ سے پارلیمان بھی اسٹبلشمنٹ کے ساتھ روائتی کھڑی نظرآ رہی ہے۔ اس لیے ہم پارلیمان سے عدلیہ پر حملے پہلے بھی دیکھتے رہے ہیں۔ اب بھی ایسا دیکھنے کو ملے گا۔ جیسے جیسے محاذ آرائی بڑھے گی ویسے ویسے پارلیمان سے محاذ آرائی کا جواب دیا جائے گا۔

میں سمجھتا ہوں صرف حکمران اتحاد ہی نہیں دیگر سیاسی جماعتیں بھی عدلیہ سے خوش نہیں۔ دیکھا جائے تو مولانا فضل الرحمن بھی عدلیہ کے کردار سے خوش نہیں۔ یہ درست ہے کہ وہ اسٹبلشمنٹ سے بھی خوش نہیں۔ لیکن وہ عدلیہ سے بھی خوش نہیں۔ وہ عدلیہ کے خلاف پارلیمان میں آواز بن سکتے ہیں۔ مجھے نہیں لگتا وہ کسی نازک مرحلہ پر عدلیہ کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔ ایمل ولی خان بھی عدلیہ سے خوش نہیں ہیں۔

ان کے بیانات کی وجہ سے حال ہی میں انھیں پشاور ہائی کورٹ کی جانب سے توہین عدالت کا نوٹس بھی دیا گیا تھا۔ اس لیے گو کہ وہ حکمران اتحاد کا حصہ نہیں ہیں۔ لیکن مجھے نہیں لگتا کہ عدلیہ کے ساتھ ہیں۔ اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ ا سوقت ملک کی زیادہ تر سیاسی جماعتیں بلکہ اکثریتی طور پر سیاسی جماعتیں عدلیہ کے ساتھ کھڑی نظر نہیں آتی ہیں۔ بلکہ انھیں عدلیہ کے کردار پر سخت تحفظات ہیں۔

دوسری طرف عدلیہ کے اپنے اندر تقسیم بھی واضح ہے۔ لیکن عدلیہ کی اکثریت تحریک انصاف کے ساتھ کھڑی نظر آتی ہے۔ عدلیہ اور تحریک انصاف ایک صف میں کھڑے نظر آرہے ہیں۔ اسی لیے ان کے دشمن بھی اکٹھے ہیں ۔ یہ بھی اکٹھے ہیں۔ لیکن کیا تحریک انصاف اکیلی عدلیہ کے لیے یہ لڑائی لڑ سکتی ہے۔ پارلیمان میں شور تو مچا سکتی ہے۔ لیکن پارلیمان سے قانون سازی اور قراداد کو نہیں روک سکتی۔ پارلیمان میں شور تو مچا سکتی ہے۔ احتجاج کر سکتی ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اکثریت ان کے پاس نہیں ہے۔

یہ کہا جا رہا ہے کہ بجٹ کے بعد اس محاذ آرائی کا فائنل راؤنڈ ہوگا۔ ایسی خبریں آرہی ہے کہ بجٹ کے بعد تصادم شدید ہوگا۔ صف بندی کی جا رہی ہے۔ اگر اس دوران کوئی سیز فائر ہو گیا تو ٹھیک ہے۔ ورنہ بات اب تصادم تک پہنچ گئی ہے۔

اس تصادم کی کیا شکل ہوگی۔ ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔ لیکن لوگ ایمرجنسی کی بات کر رہے ہیں۔ لیکن اس کا آئینی راستہ کیسے نکلے گا۔ عدلیہ اس کو کیسے لے گی۔ عدلیہ اس کو ختم کر دے گی۔ تاہم یہ تصادم ملک کے لیے اچھا نہیں ہوگا۔ جب ہر طرف عدم استحکام ہے صرف دو اداروں کی محاذ آرائی نے سب کچھ خطرہ میں ڈال دیا ہے۔

اس لیے مجھے لگتا ہے کہ اگر دونوں طرف سے کوئی مثبت اقدام نہ کیے گئے تو بات روز بروز تصادم کی طرف بڑھ رہی ہے۔ برداشت دونوں طرف ختم ہو رہی ہے۔ دونوں کے اپنے اپنے گلے اور شکایات ہیں۔ لیکن دونوں ہی اپنے اپنے موقف سے پیچھے ہٹنے کے لیے تیار نہیں۔ یہی خطر ناک بات ہے۔

بشکریہ روزنامہ ایکسپریس