سائفر کیس میں بانی تحریک انصاف اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے باعزت بری کر دیا گیا ہے۔ان کی بریت کے فیصلے کے بعد تحریک انصاف کے حلقوں میں خوشی کی ایک لہر دوڑ گئی ہے جب کہ دوسری طرف مایوسی اور افسوس نظر آرہا ہے۔ ایسے مقدمات کے فیصلوں کے بعد ایسا ہی ردعمل ہوتا ہے۔ ایک طرف خوشی ہوتی ہے تو دوسری طرف افسوس ہوتا ہے۔ لیکن اس بار شاید افسوس برسراقتدار سیاسی فریق سے زیادہ اسٹبلشمنٹ کو ہوا ہے۔ میری رائے میں یہ فیصلہ اسٹبلشمنٹ کے لیے ایک دھچکے سے کم نہیں ہے۔
اس وقت ہم جوکچھ ہوتا دیکھ رہے ہیں،اس کا انجام کیا ہوگا؟ یہ سوال بھی بہت پوچھا جا رہا ہے۔ چونکہ سائفر کیس کا فیصلہ سنا دیا گیا ہے لہذا ہم اس فیصلے پر بات کر سکتے ہیں۔ عدالتی فیصلوں پر تبصرہ اور تجزیہ کرنے کی قانونی طور پر اجازت ہے۔ ہم جج کے کنڈکٹ پر بات نہیں کر سکتے۔لیکن فیصلوں پر بات کر سکتے ہیں۔ ہر سیاسی فریق کا اس فیصلے پر اپنا اپنا رد عمل ہے۔ لیکن پھر بھی کیا یہ فیصلہ درست ہے، اس بات کا جائزہ لیا جاسکتا ہے۔
میری رائے میں یہ فیصلہ درست نہیں ہے۔ سائفر ایک خفیہ دستاویز تھی ، اسی لیے اس کو سائفر کہتے ہیں۔ اس خفیہ دستاویز کے مندرجات جلسہ عام میں بیان کیے گئے۔ اس پر صحافیوں کو بریفنگز دی گئیں،اس پر ٹی وی انٹرویوز دیے گئے، اس پر مکمل سیاست کی گئی، اس کے گم ہونے کا ایک ٹی وی انٹرویو میں اعتراف کیا گیا۔ اس کی بنیاد پر ملک کی اپوزیشن کو غدار قرار دیا گیا۔ امپورٹڈ حکومت کا بیانیہ بنایا گیا۔ تحریک عدم اعتماد کے آئینی عمل کو بیرونی مداخلت قرار دیا گیا۔ یہ سب حقائق ہیں۔ جن سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا۔ لیکن اس کے باوجود اگر عدلیہ کی نظرمیں یہ کوئی جرم نہیں تو کیا کیا جا سکتا ہے۔
وزارت عظمی کے حلف میں یہ بنیادی بات ہے کہ بطور وزیر اعظم جو اہم قومی معاملات آپ کے علم میں آئیں گے، آپ ان کو راز ہی رکھیں گے۔ آپ اس کا کسی سے ذکر نہیں کریں گے۔ آپ ان کو کسی پر ظاہر نہیں کریں گے۔
آپ ان کو خفیہ ہی رکھیں گے۔ اس حلف کے مطابق آپ منصب سے ہٹ جانے کے بعد بھی ان خفیہ معاملات کو خفیہ رکھنے کے پابند ہیں۔ یہ حلف اسی لیے ہے کہ آپ سائفر جیسے خفیہ معاملات کو خفیہ ہی رکھیں۔ آپ ان کو ظاہر نہیں کر سکتے۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر آج سائفر کو ظاہر کرنے پر عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو بری کر دیا گیا ہے تو کل کوئی اور بھی کسی خفیہ دستاویز کو پبلک کرے گا، اس کو اپنے ذاتی اور سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرے گا تو ہم اس کو بھی سزا نہیں دے سکیں گے۔
میری رائے میں اس فیصلے کے بعد آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی اہمیت ختم ہو گئی ہے بلکہ اس ایکٹ بے معنی ہو گیا ہے۔ اس فیصلے سے حساس خفیہ معلومات کو آزادانہ استعمال کا ایک لائسنس دے دیا گیا ہے۔ آپ اپنے لیے ملک کے کسی راز اور خفیہ معلومات کا استعمال کر سکتے ہیں۔
ایسے مقدمات میں ملک کی اہمیت کو بھی سامنے رکھنا ہوتا ہے۔ میری نظر میں یہ فیصلہ ٹرائل میں ٹیکنیکل خامیوں کی بنیاد پر کیا گیا ہے۔ حقائق سے زیادہ ٹیکنیکل چیزوں کو اہمیت دی گئی ہے۔ مجھے اس منطق میں وزن نظر نہیں آیا ہے کہ عدالت اس بات میں پھنس گئی کہ اگر سائفر گم ہوگیا ہے تو پھر عمران خان کی تحویل میں ہونے کا کیس کیسے ہے۔ سادہ سی بات ہے کہ گم بھی انھی سے ہوا کیونکہ وہ ان کے پاس ہی تھا۔ گم ہوجانا زیادہ بڑا جرم ہے۔ لیکن عدالت نے اس معاملے کو حقیقت سے زیادہ ٹیکنیکل گرانڈ پر ہی دیکھا گیا ہے۔
اسی طرح امریکا سے تعلقات خراب کرنے پر بھی عدالت کا استدلال محدود نوعیت کا ہے۔ عدالت کے مطابق جب تک دوسرا ملک آپ کے خلاف کوئی عملی قدم نہ اٹھائے تب تک تعلقات خراب ہونے کی بات کو قبول نہیں کیا جا سکتا۔ سفارتی اصول و ضوابط اور ملکوں کے درمیان تعلقات کی حساسیت اور اہمیت کے کئی پہلو ہوتے ہیں۔
کیا سائفر کو پبلک کرنے پر جب تک امریکا ہم پر حملہ نہ کر دیتا، تب یہ یقین نہیں آسکتا کہ تعلقات خراب ہوئے ہیں۔ مجھے یہ استدلال سمجھ نہیں آیا۔ عدالت شاید ڈپلومیسی کے طریقہ کار سے واقف نہیں۔ ممالک کے درمیان ناراضگی کے کئی پہلو ہوتے ہیں۔ عمران خان کو بائیڈن کا فون نہ آنا بھی ناراضگی تھی۔ اب سائفر فیصلے کے حوالے سے جو نقطہ اٹھایا گیا، اس کے مطابق تو فون نہ آنا ناراضگی نہیں مانا جا سکتا۔بہر حال میں پھر سمجھتا ہوں حقیقت سے زیادہ ٹیکنیکل باتوں کو اہمیت دی گئی ہے۔
پاکستان کے نظام انصاف کا یہی مسئلہ ہے۔ یہاں مجرم بچ جاتے ہیں، بات صرف عمران خان کی نہیں، روزانہ عدالتوں میں مجرم بری ہوتے ہیں۔ قاتل بچ جاتے ہیں، ڈاکو بچ جاتے ہیں۔ شاید شہادت کے نظام کو اتنا پیچیدہ بنا دیا گیا ہے ،کو ئی بھی کیس ثابت ہی نہیں ہو سکتا۔ اسی لیے جب ملک میں دہشت گردی بڑھ گئی تھی تو پورے ملک کی سیاسی قیادت اس نتیجے پر پہنچ گئی تھی موجودہ نظام عدل دہشت گردوں کو سزائیں نہیں دے سکتا۔
اس لیے ایک متوازی نظام عدل کی ضرورت ہے۔ یہ متوازی نظام عدل ملٹری کورٹس کی شکل میں بنایا گیا کیونکہ سب کو یقین تھا کہ ہمارا نظام نظام دہشت گردوں کو سزا دینے کے قابل نہیں۔ بعد میں بھی اسٹبلشمنٹ کو یہ گلہ رہا کہ جن دہشت گردوں کو ملٹری کورٹس سے سزائیں دی گئیں انھیں بعد میں پشاور ہائی کورٹ نے بری کر دیا۔ اس لیے ہمارے نظام عدل میں ملزمان کا بچ جانا کوئی نئی بات نہیں، یہ بنیادی خامی سب کے سامنے ہے۔
سائفر کیس کے فیصلے کے پاکستان کی سیاست پر بہت منفی اثرات ہوںگے۔سب کو حوصلہ ملے گا کہ اگر کسی سیکرٹ ڈاکومنٹ کو گم کردیا جائے، پاس رکھ لیا جائے، کچھ نہیں ہوگا۔اب تو حلف میں یہ بات بھی ختم کر دینی چاہیے کہ آپ معلومات کو خفیہ رکھیں گے۔ کیونکہ جب خفیہ نہ رکھنے کی کوئی سزا ہی نہیں ہے تو خفیہ رکھنا کیوں ضروری ہے۔
پاکستان میں اگر یہ کہا جاتا ہے کہ اسٹبلشمنٹ تحریک انصاف کے خلاف ہے تو یہ بھی کہا جاتا ہے کہ عدلیہ تحریک انصاف کے ساتھ ہے۔ یوں عدلیہ کے غیر جانبدار ہونے کا تاثر کمزور ہو رہا ہے۔ یہ کوئی اچھاتاثر نہیں۔
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس