اسلام آباد(صباح نیوز)سپریم کورٹ آف پاکستان نے مبارک احمد ثانی قادیانی کیس میں نظرثانی درخواستوں پر فریقین کے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا۔ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ فریقین کے تحریری دلائل پڑھ کر اور غوروفکر کر کے جتنا جلد ہوسکا فیصلہ کریں گے، اگرضرورت محصوس ہوئی تو کیس دوبارہ سماعت کے لئے بھی مقررکیا جاسکتا ہے۔کیس کی سماعت کے دوران شدید بدنظمی بھی دیکھنے میں آئی جب ڈاکٹر عمار خان ناصر دلائل دینے کے لئے روسٹرم پر آئے تو کمرہ عدالت میں موجود درخواست گزار اور علماء کی جانب سے انفرادی دلائل سننے کے معاملہ کی مخالفت کی گئی جس کے بعد عدالت نے انفرادی دلائل نہ سننے کا فیصلہ کیا۔عدالت نے جماعت اسلامی پاکستان ، جمیعت علماء اسلام (ف)اور ملی یکجہتی کونسل کے وکلاء کو بھی سننے سے انکار کردیا اور کہا کہ ان کی جانب سے جمع کروایا گیا تحریری جواب پڑھ لیں گے۔جبکہ دوران سماعت جسٹس عرفان سعادت خان نے ایک موقع پر پہلا اوردوسرا کلمہ پڑھ کرسنایا اورکہا کہ ہم تینوں جج مسلمان ہیں۔ جبکہ ایک موقع پر جسٹس عرفان سعادت خان کے ریمارکس پر کمرہ عدالت میں موجود علماء اورمذہبی جماعتوں کے کارکنوں کی جانب سے تالیاں بھی بجائی گئیں اورسبحان اللہ اور اللہ اکبر کی آوازیں بھی بلند کی گئیں۔
جبکہ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے ہیں کہ آئین اورقانون بدلنا میرا کام نہیں وہ سپریم کورٹ کے برابر میں واقع پارلیمنٹ کا کام ہے، ہم صرف آئین اورقانون کی تشریح کرسکتے ہیں۔ جو ڈنڈا، بندوق اوربم اٹھاتا ہے اس کے پاس دلائل نہیں ہوتے۔ کتنا خوبصورت دین ہے سب کو داخل ہونے کی دعوت دیں۔ پیغمبر ۖکادرجہ بہت بڑا ہے وہ کفار کے لئے بھی ہے انہیں سمجھ آئے یا نہ آئے۔ ہم نے قرآن وسنت کے حوالہ سے دلائل طلب کئے تھے، قانون کی تشریح کااختیار اسلامی نظریاتی کونسل کونہیں۔ مجھے یہ تشویش کی بات لگتی ہے کہ کسی فیصلے سے قرآنی آیت حذف کروں۔ 3سال بعد کیوں ایف آئی آردرج ہوئی۔پہلے ہم اداروں کو اہمیت دیں گے اورادارے کی رائے کوترجیح دیں گے، ایک، ایک کودیکھیں گے تومعاملہ کبھی ختم نہیں ہوگا۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس عرفان سعادت خان اور جسٹس نعیم اخترافغان پر مشتمل 3رکنی بینچ نے مبارک احمد ثانی قادیانی کیس میں صوبہ پنجاب ، محمد حسن معاویہ، جمعیت علماء اسلام (ف)، تحریک تحفظ ناموس رسالت ۖ پاکستان، پاکستان مرکزی مسلم لیگ اوردیگر کی جانب سے دائر نظرثانی درخواستوں پر سماعت کی۔ عدالتی وقفہ سے قبل کیس کی سماعت شروع ہوئی توایڈیشنل پراسیکیوٹرجنرل پنجاب احمد رضا گیلانی نے کیس کا 6فروری کاحکمنامہ پڑھ کرسنایا ۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ پانچ اسلامی اداروں جامعہ دارلعلوم کراچی،دارلعلوم جامعہ نعیمیہ کراچی ، جامعہ سلفیہ فیصل آباد ، جامعہ امدادیہ اور انجمن خدادادالقران کی جانب سے مشترکہ جواب جمع کروایا گیا ہے اور باقی پانچ نے الگ ، الگ جواب جمع کروایا ہے۔ چیف جسٹس کا روسٹرم پر درجنوں وکلاء کے اکٹھا کھڑے ہونے پر کہنا تھا کہ اتنے وکیل کھڑے ہونے کاکیافائدہ ہے۔ سید حبیب الحق شاہ کا پیش کرکہنا تھا کہ وہ مفتی منیب الرحمان اور مفتی تقی عثمانی کی جانب سے پیش ہورہے ہیں۔ چیف جسٹس کااس دوران جماعت اسلامی کے وکیل جسٹس (ر)شوکت عزیز صدیقی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ پہلے مشترکہ جواب دیکھ لیتے ہیں پھر الگ، الگ والادیکھ لیں گے۔ چیف جسٹس کا کہناتھا کہ 10علمی اداروں کو بھیجا تھا پہلے ان کا جواب دیکھ لیں اس کے بعد پھر سب ک جواب دیکھیں گے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ پہلے ہم اداروں کو اہمیت دیں گے اورادارے کی رائے کوترجیح دیں گے، ایک، ایک کودیکھیں گے تومعاملہ کبھی ختم نہیں ہوگا۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اداروں کے وکیل کون ہیں۔جسٹس نعیم اخترافغان کاکہنا تھا کہ 10اداروں کی نمائندگی ہے توسامنے آجائیں۔ عمران شفیق ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ جامعہ سلفیہ کی جانب سے میں ہوں۔ اس موقع پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ایک ، دوکیسز رہتے ہیں وہ پہلے سن لیں اُس کے بعد تسلی سے اس کیس کوسنیں گے۔اس دوران چیف جسٹس کا جے یوآئی (ف)کے وکیل سینیٹر کامران مرتضیٰ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ اگرآپ نے مفتی محمود کی قومی اسمبلی تقریر نہیں پڑھی توپھر آپ گھر جائیں۔وقفہ کے بعد معمول کے کیسز ختم کرنے کے بعد دوبارہ مبارک احمد ثانی کیس کی سماعت شروع ہوئی ۔ اس موقع پر پانچ اداروں کا مشترکہ جواب پڑھا گیا۔ چیف جسٹس کا وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ دو، تین سوال پوچھ سکتاہوں، جواب میں مذہب کا لفظ کیوں استعمال کیا اوردین کالفظ کیوں استعمال نہیں کیا۔ اس پر وکیل کاکہناتھا کہ یہ سوال دے دیں اس کا تفصیلی تحریری جواب آجائے گا۔ اس موقع پر مرکزی جمعت اہلحدیث اسلام آباد کے امیر مولانا حافظ مقصود احمدنے پیش کر جواب دیا کہ لااکراہ فی الدین کا مطلب دین اسلام ہے،قرآن میں دین کالفظ ہی استعمال ہوا ہے۔حافظ مقصود احمد کاکہناتھا کہ نماز اُردو کالفظ ہے اور صلاة عربی میں ہے، یہ بہتر ہے کہ روزے اور نماز کے لئے صلاة اورصوم کالفظ استعمال کریں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ عربی، فارسی اورترکی زبان کے نچوڑ پر اُردوزبان بنائی گئی ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ علماء شروع سے نماز کو صلاة کہتے تولوگ بھی اسے صلاة ہی کہتے۔چیف جسٹس کا حافظ مقصود احمد کومخاطب کرتے ہوئے کہناتھا کہ آپ نے آج کااخبار پڑھا، ایک لڑکیوں کے اسکول کوآگ لگادی گئی،کیا علماء نے اس کی مذمت کی۔
اس پر حافظ مقصود احمد کاکہنا تھا کہ سارے علماء اس کی مذمت کرتے ہیں، قراآن مجید کسی پر ظلم اورزیادتی کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ چیف جسٹس کاکہناتھاکہ اسکول کو آگ لگانے کا واقعہ رزمک وزیرستان میں پیش آیا اور مقصد کیا ہے،بچیوںکو تعلیم نہ دو۔حافظ مقصود احمد کاکہناتھا کہ ہمارے ہاں اسلام آباد میں بے شمار مدارس بنے ہوئے ہیں۔ چیف جسٹس کاکہناتھاکہ اسلامی نظریاتی کونسل کی جانب سے کون پیش ہوا ہے۔ اس پر اسلامی نظریاتی کونسل کے ڈائریکٹر جنرل ریسرچ انعام اللہ پیش ہوئے۔ چیف جسٹس نے سوال کیا کہ اسلامی نظریاتی کونسل کے کتنے ارکان ہیں۔اس پر ڈی جی ریسرچ نے بتایا کہ اس وقت 8ارکان ہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم نے قرآن وسنت کے حوالہ سے دلائل طلب کئے تھے، قانون کی تشریح کااختیار اسلامی نظریاتی کونسل کونہیں یا توآپ خود سپریم کورٹ بن جائیے، جب ہم حدود کی بات کرتے ہیں تو ایک دوسرے کی حدودسمجھتے ہیں، ہمیں قانونی بات سمجھانے کااسلامی نظریاتی کونسل کوکوئی اختیار نہیں۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ مجھے یہ تشویش کی بات لگتی ہے کہ کسی فیصلے سے قرآنی آیت حذف کروں۔ چیف جسٹس کا اسلامی نظریاتی کونسل کے سابق رکن سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ یا قانونی باتیں کریں یا دینی باتیں کریں، تعزیرات پاکستان کا معاملہ ہمارے اوپر چھوڑ دیں۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ قرآن وسنت کی کوئی غلطی کی وہ بتادیں، آئین کی کون سی شق آپ کو تعزیرات پاکستان کا دائرہ اختیار دیتی ہے۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ تعزیرات کامعاملہ وکیلوں، اٹارنی جنرل اور ایڈووکیٹ جنرلز کاکام ہے، یہ توگناہ نہیں ہوسکتا کہ قرآن شریف کی آیت کیوں لکھی۔ چیف جسٹس کا کہناتھا کہ پیغمبر ۖکادرجہ بہت بڑا ہے وہ کفار کے لئے بھی ہے انہیں سمجھ آئے یا نہ آئے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کیا قرآن شریف کے علاوہ دنیا کی کوئی کتاب ہے جو کسی نے حفظ کر لی، لاکھوں حفاظ دنیا میں ہوں گے،یہ خصوصیت ہے کہ قرآن شریف کے علاوہ کسی کتاب کو حفظ ہی نہیں کرسکتے، قرآن شریف بچے اور کم عمر کے لوگ بھی حفظ کرسکتے ہیں۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ عربوں میں بہت سارے قرآن شریف ہیں وہ زیر، زبر نہیں لکھتے انہیں پتا ہے کیسے پڑھنا ہے، وہ قرآن مجید کم ازکم میں نہیں پڑھ سکتا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ مجھے مجبور نہ کریں کہ مجھے وہ کتاب پڑھنا پڑے جس کا تنازعہ ہے اور میں نے پڑھی نہیں، جب قرآ ن موجود ہے تو دوسری کتابیں پڑھنے کی کیا ضرورت ہے۔چیف جسٹس کی ہدایت پر آئین میں موجود مسلم اورغیر مسلم کی تعریف پڑھی گئی۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آئین اورقانون بدلنا میرا کام نہیں وہ سپریم کورٹ کے برابر میں واقع پارلیمنٹ کا کام ہے، ہم صرف آئین اورقانون کی تشریح کرسکتے ہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا کہ اپنے نفس کے خلاف سب سے پہلے جہاد کریں جو ہم نے چھوڑدیا ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے ڈائریکٹر ریسرچ نے بتایا کہ علامہ محمد راغب حسین نعیمی کو نیا چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل بنایا گیا ہے، 8ممبرز موجود ہیں اور12ممبرز کی آسامیاں ابھی خالی ہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ مغرب میں پراپیگنڈا کیا جاتا ہے کہ اسلام دنیا میں تلوار سے پھیلا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ جو ڈنڈا، بندوق اوربم اٹھاتا ہے اس کے پاس دلائل نہیں ہوتے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ نے بھی بہت مرتبہ دوسرے اداروں کے اختیار میں تجاوز کیا ہے میں اس کو تسلیم کرتا ہوں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کتنا خوبصورت دین ہے سب کو داخل ہونے کی دعوت دیں۔ اس دوران زیر بحث کتاب تفسیر صغیر کاٹائٹل وکیل کی جانب سے چیف جسٹس کوعدالت میں لہرا کردکھایا گیا۔
چیف جسٹس کا کہناتھا کہ کوئی اپنے گھر میں چاردیواری میں کوئی چیز کررہا ہے تو کیا ریاست یاکسی شخص کوجھانک کردیکھناچاہیئے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ مفتی شیر محمد اس حوالہ سے دلائل لکھ کردیں۔اس موقع پر ڈاکٹر عمار خان ناصر نے پیش ہوکربتایا کہ انہوں نے مختلف علماء کی رائے جمع کروائی ہے۔ اس دوران درخواست گزار اوردیگر علماء اور مذہبی جماعتوں کے وکلاء اور کارکنوں کی جانب سے ڈاکٹر عمار خان ناصر کو سننے پر اعتراض کیا گیا اور شورشرابہ کیا گیا۔ اس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اگر عدالت پر حاوی ہونا چاہتے ہیں تو پھر میں کیس نہیں سنوں گا، ہم سب کو انفرادی طور پر نہیں سنیں گے، اگر وکیل صبح سے بیٹھے ہیں تو بڑااحسان کررہے ہیں، گھر جایئے۔ اس موقع پر جماعت اسلامی کے نائب امیر ڈاکٹر فرید احمد پراچہ کا پیش ہوکرکہناتھا کہ میں جماعت اسلامی کی نمائندگی کررہا ہوں، ڈاکٹر عمار خان ناصر بے شک ڈاکٹر جاوید احمد غامدی کاحوالہ دیںمولانا سید ابو الاعلی مودودی کاحوالہ کس لئے دے رہے ہیں۔ چیف جسٹس کا کہناتھاکہ ہم کسی کوانفرادی طورپر نہیں سنیں گے۔
ایک وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے جسٹس عرفان سعادت خان کا کہنا تھا کہ جب کہا کہ انفرادی طور پر نہیں سنیں گے تووکیل صاحب تشریف رکھیں ۔ چیف جسٹس کا علماء کو مخاطب کرتے ہوئے کہناتھا کہ یہ آپ کی عدالت ہے یہ کوئی دشمنوں کی عدالت تو نہیں ہے، انگلی اٹھا، اٹھا کرٹوکئے نہیں۔ چیف جسٹس کا کہناتھا کہ کسی عالم نے بدتمیزی نہیں کی، وکیل ایسا کررہے ہیں۔جسٹس عرفان سعادت خان کا وکلاء اور علماء کومخاطب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ براہ مہربانی عدالت کے تقدس کو پامال نہ کریں۔اس موقع پر شوکت عزیز صدیقی کا پیش ہوکرکہناتھاکہ میں جماعت اسلامی کی نمائندگی کررہا ہوں،مجھے نوٹس ہے میں سب سے پہلے آیا ہوں۔اس پر چیف جسٹس کاشوکت صدیقی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہناتھاکہ ہم آپ کو نہیں سنیں گے ،سیاست باہر ہوتی ہے ہم دینی مسائل سنیں گے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ علماء کرام نے فرمایا کہ دونوں فریقین کو سن کرفیصلہ کریں۔چیف جسٹس کاشوکت صدیقی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ نے جواب جمع کروایا ہے ہم پڑھ لیں گے۔ اس موقع پر جسٹس عرفان سعادت خان کا کہنا تھا کہ ہم تینوں جج مسلمان ہیں اورانہوں نے پہلا اوردوسرا کلمہ اُردو ترجمہ کے ساتھ پڑھ کرسنایا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم نے اپنے حکم میں تحریری جواب مانگا تھا کسی کو بولنے کاحق نہیں دیا تھا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اس بات پر اتفاق ہے کہ ہم تنظیموں کوسنیں گے اور انفرادی طور پر لوگوں کو نہیں سنیں گے۔
اس موقع پر پنجاب حکومت کی جانب سے پیش ہوتے ہوئے ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل احمد رضا گیلانی کا کہناتھ کہ اللہ تعالیٰ کاحکم ہے جو طہارت اورپاکی میں نہیں وہ قرآن مجید کو نہ چھوئے۔ احمد رضا گیلانی کاکہنا تھا کہ فیصلے میں آئین کے آرٹیکل 20کا حوالہ غیر متعلقہ ہے اور یہ کیس میں اپلائی نہیں کرتا۔ درخواست گزار کے وکیل برھان معظم پیش نہ ہوئے جبکہ ان کے معاون وکیل رائو شاہد نے پیش ہوکرکہا کہ انہیں وقت دے دیں ایک دن کا وقت دے دیں ان کے سینئر وکیل پیش ہوکردلائل دیں گے۔ اس پر چیف جسٹس نے وقت دینے کی استدعا مسترد کردی اوررائوشاہد کو ہدایت کی کہ وہ دلائل دیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ نظرثانی میں درخواست گزار وہ چیز دائر نہیں کرسکتے جو پہلے دائر نہیں کی گئی، وہ علماء کرسکتے ہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ فوجداری مقدمات میں ایک لائن لکھنی ہوتی ہے ، غلطی دکھا دیں ، اُن کی بات غلط آپ کی بات منظور۔ چیف جسٹس کا کہناتھا کہ جرم کی سزامیں اضافہ 2021میں ہوا۔ چیف جسٹس کا وکیل کومخاطب کرتے ہوئے کہناتھا کہ اب میں آپ پر جرمانہ کروں گا،اگر آپ نے قانون بنانا ہے بناتے رہیں۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ وکیل اپنے آپ کو کائل کرتا ہے یا جج کو، دیباچہ سے جرم نہیں بنتا بلکہ سیکشن سے جرم بنتا ہے۔ اس پر وکیل کا کہناتھا کہ میں درخواست واپس لے رہا ہوں میراوکالت نامہ واپس کردیں۔ اس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ وکیل مرضی سے آسکتا ہے لیکن عدالت کی مرضی کے بغیر وکالت نامہ واپس نہیں لے سکتے۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ پنجاب ہولی قرآن پرنٹنگ اینڈریکارڈنگ ایکٹ 2011کے سیکشن7میں جرم پہلے بھی تھا تاہم 2021میں سزامیں اضافہ کیا گیا۔ مبارک احمد ثانی کے وکیل شیخ عثمان کریم الدین کا کہنا تھا کہ سیکشن 7میں 2021میں ترمیم ہوئی 2019میںترجمہ کرنا جرم تھا تاہم باقی چیزیں جرم نہیں تھیں۔ وکیل کاکہناتھاکہ تین سال بعد سپلمنٹری بیان میں مجھے نامزد کیا ۔ وکیل کا کہنا تھا کہ ایف آئی آر میں تین ملزمان نامزدتھے جن میں خالد شاہ، چوہدری منور اور مرزافضل شامل ہیں۔ چیف جسٹس نے ایڈیشنل پراسیکیوٹرجنرل سے سوال کیا کہ کیا تین سال بعد نام دے سکتا ہے، کیا قانون اس کی اجازت دیتا ہے، پراسیکیوٹر کو فیئر ہونا چاہیئے جہاں ملزم کو فائدہ ملتا ہے اس کودیں، میرااورآپ کانام بھی دے دیتے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ3سال بعد کیوں ایف آئی آردرج ہوئی۔ شیخ عثمان کریم الدین کاکہنا تھا کہ احمدیہ کمیونٹی کے پرائیویٹ کالج میں تقریب منعقد ہوئی، درخواست گزار وہاں موجود نہیںتھا، درخواست گزار12، 13سال سے 400کلو میٹر دور سے آکر کمیونٹی کے افراد کے خلاف مقدمات درج کروارہا ہے اورانہیں تنگ کررہا ہے۔اس پر جسٹس عرفان سعادت خان کاجذباتی انداز میں کہنا تھا کہ اگر ایک آدمی تحفظ ختم نبوت اوررسالت ۖکادفاع کررہا ہے توکیا اس کی تحسین نہ کی جائے اورکیااُس کی مذمت کی جائے۔ اس موقع پر کمرہ عدالت میں موجود علماء اور مذہبی جماعتوں کے کارکنوں کی جانب سے تالیاں بجائی گئیں اوربااۖاز بلند سبحان اللہ اوراللہ اکبر کہا گیا۔ ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل پنجاب کا کہناتھا کہ مسلمان ہی قرآن مجید کا پبلشر اورپرنٹر ہوسکتا ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کیا سارا فوجداری قانون ہم مسترد کردیں، کیا آپ کی حکومت سوئی ہوئی ہے، خود ہی جاکرایف آئی آر کاٹ دیں۔ اس موقع پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل ملک جاوید اقبال وینس نے پیش ہوکربتایا کہ وہ پنجاب حکومت کے مئوقف کی حمایت کرتے ہیں۔ اس موقع پر درخواست گزار محمد حسن معاویہ نے پیش کرکہا کہ اسے دومنٹ بولنے کی جازت دی جائے، چلیں ایک منٹ بولنے کی اجازت دی جائے۔
جسٹس عرفان سعات خان کادرخواست گزار کومخاطب کرتے ہوئے کہناتھا کہ آپ کے وکیل نے کہا ہے کہ وہ تحریری دلائل جمع کروائیں گے پھر آپ کو کیوںبولنے کی اجازت دی جائے۔چیف جسٹس کی جانب سے بولنے کی اجازت ملنے پر حسن معاویہ کا کہنا تھا کہ 23مارچ2019کو انہوں نے نام کے ساتھ پرنسپل مدرسة الفظ کو ایف آئی آر میں نامزد کیا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ خود کوئی جرم نہیں کرسکتی بلکہ کوئی فرد کرسکتا ہے، ہم فوجداری عدالت نہیں بلکہ نظرثانی سن رہے ہیں۔محمد حسن معاویہ کا کہنا تھا کہ میں نے ایف آئی آرکے اندراج کے لئے 15درخواستیں دیںاورچیف جسٹس تک پہنچنے میں 13سال لگے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کامران مرتضیٰ اور شوکت صدیقی نے جواب داخل کروادیا ہے اسے دیکھ لیں گے۔ چیف جسٹس نے تمام اداروں، علماء اور وکلاء کا معاونت پر شکریہ ادا کیا۔ اس دوران عمران شفیق ایڈووکیٹ کا پیش ہوکرکہنا تھا کہ میں ملی یکجہتی کونسل کی جانب سے پیش ہورہا ہوں، ملی یکجہتی کونسل 23مذہبی جماعتوں پر مشتمل تنظیم ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اگر ملی یکجہتی کونسل نے جواب جمع کروایا ہے تواسے پڑھ لیں گے اورکوئی چیزسمجھ نہ آئی تو ہم دوبارہ کیس کی سماعت رکھ لیں گے۔ چیف جسٹس کا فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ غوروفکرکر کے جتنا جلد ہوسکا فیصلہ کریں گے۔