وزیراعظم، کابینہ کو سامنے بٹھانے کی بات ججوں کے منصب کے مطابق ہے، نہ آئین و قانون کے، وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ

اسلام آباد(صباح نیوز)وفاقی وزیر قانون و انصاف اعظم نذیر تارڑ نے کہا ہے کہ ججوں کا اس طرح کی باتیں کرنا کہ کابینہ اور وزیراعظم کو سامنے بٹھا کر بات کریں گے، میرے خیال میں یہ غیر مناسب باتیں ہیں جو نہ ججوں کے منصب کے مطابق ہے، نہ میرا آئین و قانون اس کی انہیں اجازت دیتا ہے۔ئین میں تمام اداروں کے کام کرنے کے دائرہ کار واضح ہیں،

اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایرانی صدر کے انتقال پر پوری پاکستانی قوم افسردہ ہے ،صدرمملکت اور وزیراعظم نے تعزیتی پیغامات بھی جاری کئے ہیں ،وزیراعظم نے ایرانی سفارتخانے کا دورہ بھی کیا۔ایرانی صدر نے حال ہی میں پاکستان کا دورہ کیا اور دونوں ممالک کے درمیان تعاون بڑھانے پر بات کی،ایرانی صدر نے دورے میں دونوں ممالک کے درمیان تجارت پر بھی بات کی ،پاکستانی قوم اس مشکل وقت میں اپنے ایرانی بہن بھائیوں کے ساتھ کھڑی ہے ،

اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ سوشل میڈیا سے متعلق بل کے لیے وزیر اعظم نے کمیٹی بنادی ہے، ڈیجیٹل میڈیا سے متعلق اتھارٹی قائم کی جارہی ہے، ڈیجیٹل میڈیا کے حوالے سے دنیا کے کئی ممالک میں قانون سازی ہوچکی، وزیراعظم نے کابینہ کی منظوری سے کمیٹی قائم کردی۔وزیر قانون نے کہا کہ کمیٹی کی سربراہی رانا ثنااللہ کریں گے، جو حلقے تنقید کر رہے ہیں وہ ایک بار اسے پڑھ لیں، کمیٹی فریقین سے مذاکرات کے بعد تجاویز پیش کرے گی۔انہوں نے کہا کہ آئین میں تمام اداروں کے کام کرنے کے دائرہ کار واضح ہیں، سب نے اپنا کام کرنا ہے، انتظامیہ کا کام ہے کہ وہ لوگوں کے جان و مال کا تحفظ کرے، کسی کے حقوق پامال ہوں تو عدالت سے رجوع کیا جا سکتا ہے۔

وزیر قانون نے کہا کہ اگر کوئی شخص لاپتہ ہوتا ہے، اس حوالے سے کوئی درخواست جاتی ہے تو عدالت جواب طلب کرتی ہے، سرکار کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ سنجیدگی کے ساتھ جواب داخل کرے اور بتائے کہ وہ شخص اس کی حراست میں ہے یا نہیں، اگر معاملہ حل نہیں ہوتا تو قانون کے مطابق ایک ہی طریقہ ہے کہ پولیس کو ایف آئی آر درج کرنے کی ذمہ داری سونپی جاتی ہے۔انہوں نے کہا کہ ہمارے ایک دوست، شاعر احمد فرہاد شاہ کی گمشدگی کا کیس اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہے، مجھے تکلیف ہوئی جس طرح کے ریمارکس میڈیا میں رپورٹ ہوئے ہیں، رپورٹ کے مطابق ایڈیشل اٹارنی جنرل نے بڑی وضاحت کے ساتھ کہا کہ وزارت دفاع نے اپنے متعلقہ اداروں سے پوچھا ہے اور وہ کہہ رہے ہیں کہ وہ ہماری تحویل میں نہیں ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے عدالت کو بتایا کہ کیونکہ ایف آئی آر درج ہوچکی ہے، اس لیے پولیس کو وفاقی حکومت سے جس طرح کی مدد چاہیے، وہ وفاقی حکومت فراہم کرے گی، لیکن اس کے باوجود یہ کہنا کہ یہ مسئلہ اس طرح سے حل نہیں ہوگا، تفتیش سے حل نہیں ہوگا، سیکریٹری سارے آجائیں، وہ مطمئن نہیں کریں گے تو افواج پاکستان کے سینئر افسران آکے کھڑے ہوں۔وفاقی وزیر نے کہا کہ وہ اگر مطمئن نہیںکریں گے تو ہم وزیراعظم اور پوری کابینہ کو یہاں طلب کریں گے، یہ عدالتوں کے مینڈیٹ نہیں ہیں، میں بڑے ادب سے عرض کروں گا کہ عدالتوں نے آئین و قانون کے مطابق انصاف فراہم کرنا ہے، کیا ہی اچھا ہو کہ جو بھی حکم ہو وہ عدالتی حکم کے ذریعے پاس کردیا جائے اور یہ جو طریقہ ہے کہ ایک سنسنی خیز خبریں باہر نکلیں، اور زیادہ بے چینی پھیلے، ہمیشہ غیر مناسب رہا ہے۔

اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ عدالتی معاملات عدالت کے اندر حل ہوتے ہیں، یہ بلاشبہ سنجیدہ مقدمہ ہے جسے سنجیدگی کے ساتھ آگے لے کر چلنا چاہیے، قانون ایک طریقہ کار وضع کرتا ہے، درخواست آئی، اس پر جواب آئے تو اس کے دیکھنے کے بعد پھر آپ جو چاہیں حکم جاری کریں۔انہوں نے کہا کہ آئین افواج پاکستان کے بارے میں بہت واضح ہے، اسی طرح سے آئین وزیراعظم اور ان کی کابینہ کو مخصوص تحفظ فراہم کرتا ہے کہ اپنے فرائض منصبی کی انجام دہی کے دوران ان کے خلاف کوئی قانونی کارروائی شروع نہیں کی جاسکتی۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ باتیں کرنا کہ پھر کابینہ کا اجلاس یہاں ہوگا، انہیں بیٹھا کر کروایا جائے گا، میں سمجھتا ہوں کہ یہ پارلیمنٹ اور اس میں نکلی ہوئی کابینہ کو، اس کے آئینی کردار کو کم کرنے کے مترادف ہے، مجھے یقین ہے کہ عدالتی حکم نہیں ہوگا، یہ تکلیف دہ چیزیں ہیں۔وزیر قانون نے کہا کہ افواج پاکستان نے بھی اپنی آئینی حدود میں کام کرنا ہے لیکن سرحدوں کی حفاظت، سیکیورٹی چیلنجز سے نمٹنا افواج پاکستان کا ہی کام ہے، ایجنسیاں اسی لیے بنائی گئی ہیں کہ وہ ملک کے تحفظ کے لیے وہ تمام کام کریں جو وہ بہتر سمجھتے ہیں، پولیس کی اپنی صلاحیت ہے، انہیں بھی مسائل کا سامنا ہوتا ہے، لوگوں کو ڈھونڈے میں وقت لگتا ہے۔اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ ہمیں سکے کے دونوں رخ دیکھنے چاہییں، منصف بہت متحمل مزاج ہوتا ہے، اپنے قلم کی طاقت سے، عقل و شعور اور عین آئین کے مطابق مقدمے کا فیصلہ کرتے ہیں،

عدالت عظمی سے یہ ہی اصول وضع ہوا ہے کہ جب پولیس معاملے کی تفتیش کر رہی ہو تو پھر عدالتیں اس معاملے میں مداخلت نہیں کرتیں۔انہوں نے کہا کہ پولیس کو جسطرح کی مدد چاہیے، اس میں وفاقی حکومت تیار ہے لیکن اس طرح کی باتیں کرنا میرے خیال میں یہ جوڈیشل پروپرائٹری کے مطابق نہیں ہے، اس وجہ سے ایسی کیفیت دکھائی جاتی ہے کہ اداروں میں ٹکرا وہے، جیسے انتظامیہ عدالتوں کی بات سننے کو تیار نہیں ہے، جیسے عدالت ان کا مقف سننے کو تیار نہیں ہے، آج پاکستان مختلف چیلنجز سے گزر رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ملک میں اس طرح کے معاملات ہوتے رہتے ہیں، اداروں کو اپنی حدود میں رہ کر کام کرنا چاہیے، میں امید کرتا ہوں کہ ہم سب ملک میں متوازن معاشرے کی تشکیل کے لیے تحمل پیدا کریں، عدلیہ کا تو اپنا ایک کنڈکٹ بھی ہے کہ ججز اپنے فیصلوں کے ذریعے اپنی بات پہنچائیں۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ عدالتیں حکم صادر کریں، اگر اس کی تکمیل نہیں ہوتی تو اس کا ایک طریقہ ہے کہ متاثرہ فریق اپیل میں چلا جائے گا، اگر کوئی اپیل میں نہیں جائے گا تو اس پر عمل درآمد کے لیے دیگر طریقے موجود ہیں.ان کا کہنا تھا کہ میں نے صرف یہ جسارت کی ہے کہ اس طرح کی باتیں کرنا کہ کابینہ کو بھی یہاں لاکر بیٹھا دیا جائے گا اور وزیراعظم کو بھی بٹھادیں گے اور سامنے بٹھا کر بات کریں گے، میرے خیال میں یہ غیر مناسب باتیں ہیں، یہ باتیں نہ ججوں کے منصب کے مطابق ہے، نہ میرا آئین و قانون اس کی انہیں اجازت دیتا ہے،

اگر عسکری ذمہ داریاں، دفاعی، وزارتی اور وزیراعظم اور کابینہ کے کام بھی عدالتوں میں ہونے ہیں تو پھر نظام کیسے چلے گا، ہمیں اس بارے میں دوبارہ سوچنا پڑیگا۔وفاقی وزیر قانون نے کہاکہ ڈیجیٹل میڈیا کے حوالے سے دنیا کے کئی ممالک میں قانون سازی ہوچکی ہے ، وزیراعظم نے سوشل میڈیا کے حوالے سے اتھارٹی کے قیام کے لئے کمیٹی قائم کردی ہے ، کمیٹی فریقین سے مشاورت کے بعد سفارشات پیش کرے گی ۔انہوں نے کہاکہ سوشل میڈیا کے ذریعے نفرت انگیز پیغامات بھی پھیلتے ہیں ،سوشل میڈیا پر دیگر غیر قانونی اور غیر اخلاقی مواد بھی ہوتا ہے ۔