اسلام آباد(صباح نیوز)سپریم کورٹ آف پاکستان نے صحافیوں کے حوالہ سے لئے گئے ازخود نوٹس میں درخواست دائر کرنے والے درخواست گزار سابق آئی جی پولیس سید ابن حسین کو طلب کرنے کے باوجود پیش نہ ہونے پر توہین عدالت کاشوکاز نوٹس جاری کرتے ہوئے آئندہ سماعت پر اسلام آباد یاسپریم کورٹ لاہور رجسٹری سے ویڈیو لنک کے زریعہ پیش ہونے کاحکم دے دیا۔عدالت نے حکم دیا ہے کہ سید ابن حسین پیش ہوکر بتائیں کہ انہوں نے عدالتی حکم پر عمل کیوں نہیں کیا اور کیاانہوں نے درخواست دائر کرنے کی ہدایت دی تھی کہ نہیں۔ جبکہ عدالتی حکم پرچکوال سے تعلق رکھنے والے تین درخواست گزار راجہ شیر بلال، ابرار احمد اورایم آصف ایڈووکیٹ پیش ہوگئے۔ عدالت نے عدالتی حکم کے باوجود پیش نہ ہونے والے2درخواست گزاروں قوسین فیصل ایڈووکیٹ اور سابق جوائنٹ سیکرٹری کابینہ ڈویژن حسن محمود کو دوبارہ نوٹس جاری کرتے ہوئے آئندہ سماعت پر پیش ہونے کاحکم دیا ہے۔
جبکہ عدالت نے قراردیا ہے کہ وہ صحافی مطیع اللہ جان کیس کی تحققیات سے مطمئن نہیں اس لئے کیس کے تفتیشی افسر ایس ایس پی انویسٹی گیشن اسلام آباد مسعود احمد کو ہٹاکرنیا تفتیشی افسر مقرر کیا جائے۔ جبکہ نئے تعینات ہونے والے آئی جی پولیس اسلام آباد سید علی ناصررضوی نے پیش ہوکرنیاتفتیشی افسر مقرر کرنے کی یقین دہانی کروائی ہے۔ عدالت نے مطیع اللہ جان کے اغواکاروں کی نشاندہی کے لئے اغواکی ویڈیو پی ٹی وی پر چلانے کا حکم دیا ہے۔عدالت نے اسدعلی طور کے گھر میں گھس کر ان کی پٹائی کرنے والے تین ملزمان کی شناخت کے لئے نقد انعام رکھنے اور اسلام آباد کے بڑے اُردو اورانگلش اخباروں میںخاکے چھپوانے کاحکم دیا ہے۔ جبکہ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے ہیں کہ کون چکوال میں مشہور آدمی بیٹھا ہے کہ اُس کی درخواست درخواست دائر ہو گئی۔ ٹی وی پر بڑے ، بڑے درس دے رہے ہوتے ہیں کہ ججز کو کیسے چلنا چاہیے، جب اِس سے سوال کی باری آتی ہے توکہتے ہیں ہم سے سوال نہ پوچھو۔کیوں پاکستان میں ہر آدمی اتنا خوفزدہ ہے۔
ایسا لگ رہا ہے کہ میڈیا سے زیاد ہم میڈیا کی آزادی میں دلچسپی لے رہے ہیں۔ پولیس کواپنی فکر ہے ان کے پیچھے گارڈ چلتے ہیں، کس سے بچانا ہے،شہریوں سے، گھر میں بیٹھیں کوئی اوردھندہ کرلیں، کیاایس ایس پی انویسٹی گیشن خوفزدہ ہیں کہ دوآدمی ان کے ساتھ ہیں، قافلے پولیس والوں کے ساتھ چلتے ہیں، ایک زمانہ تھا پولیس ہماری حفاظت کرتی تھی، اب وہ خود اپنی حفاظت کررہی ہے۔ وزارت دفا ع کوخط لکھنے میں چارسال لگے، وزارت دفاع کہاں رہتی ہے، کیا یہ پاکستان میں رہتی ہے۔ کیا ہم ایف آئی اے کو پولیس سے تحقیقات کاکہیں۔ ہم صحافیوں کے کیسز میں ہونے والی تحقیقات سے مطمئن نہیں، قابل تفتیشی افسر کاتقرر کیا جائے۔کیس کی آئندہ سماعت ایک ماہ بعد ہوگی۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس عرفان سعادت خان اور جسٹس نعیم اخترافغان پر مشتمل 3رکنی بینچ نے ایف آئی اے کی جانب سے صحافیوں کے ساتھ روارکھے جانے والے ناروا سلوک کے حوالہ سے لئے گئے ازخود نوٹس اوردیگر دائر درخواستوں پر سماعت کی۔
دوران سماعت آئی جی پولیس اسلام آبادسید علی ناصر رضوی، ایس ایس پی انویسٹی گیشن اسلام آباد مسعود احمد، ایڈیشنل اٹارنی جنرل چوہدری عامر رحمان،ایڈیشنل اٹارنی جنرل ملک جاوید اقبال وینس، بیرسٹر صلاح الدین احمد، حیدروحیدویڈووکیٹ ، شاہ خاور ایڈووکیٹ ، صحافی ابصار عالم حیدر، مطیع اللہ جان، اسد علی طور اوردیگر پیش ہوئے۔ چوہدری عامر رحمان نے بتایا کہ کیس کی آخری سماعت 2اپریل کو منعقد ہوئی تھی۔ چیف جسٹس کا ایڈووکیٹ آن ریکارڈ انیس محمد شہزاد سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ کے کلائنٹس کدھر ہیں، سید ابن حسین کدھرہیں۔ ایڈووکیٹ آن ریکارڈ سید رفاقت حسین شاہ کا کہنا تھا کہ مجھے حیدر وحید ایڈووکیٹ نے وکالت نامہ بھجوایا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سید اب حسین کہاں ہیں، حسن محمود کدھر ہیں، راجہ شیر بلال کدھر ہیں۔اس پر کمرہ عدالت عدالت میں موجود راجہ شیر بلال کا کہنا تھا کہ وہ موجود ہیں۔
چیف جسٹس کا راجہ شیربلال کو مخاطب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ سامنے آئیں، آپ کون ہیں،ہم توہین عدالت سوچ رہے ہیں، کس کے کہنے پر درخواست دائر کی۔ اس پر راجہ شیر بلال کا کہنا تھا کہ میں درخواست دائر نہیں کی، میں زمیندار ہوں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ابرار احمد ہیں۔ اس پر کمرہ عدالت میں موجود ابراراحمد نے روسٹرم پرآکر کہا کہ میں نے درخواست دائر نہیں کی۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ قوسین فیصل ایڈووکیٹ کدھر ہیں، ہم نے ان کو پیش ہونے کاحکم دیا، اُس کی مرضی نہیں چلے گی کہ جب ٹہلتا ہواآجائے، ہم نے اپنا شعبہ ٹھیک کرنا ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ایم آصف ایڈووکیٹ کدھر ہیں۔ اس پر کمرہ عدالت میں موجود ایم آصف ایڈووکیٹ بھی پیش ہوگئے۔
چیف جسٹس کا درخواست گزاروں سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کیا آپ ایڈووکیٹ آن ریکارڈ اور سپریم کورٹ کے وکیل کے خلاف پرچہ کٹوائیں گے۔ ایم آصف ایڈووکیٹ نے بتایا کہ وہ کبھی چکوال بار ایسوسی ایشن کے صدر نہیں رہے۔ چیف جسٹس کا حیدر وحید سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ مسٹر حیدروحید! آپ نے بہت کچھ کی وضاحت کرنی ہے۔ حیدر وحید کاکہنا تھا کہ مجھے اے اوآر احمد نواز چوہدری مرحوم نے وکیل کیا تھا۔ چیف جسٹس کا حیدر وحید سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ کیا اے اوآر نے فیس ادارکی ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کیسے جعلی ناموں کے ساتھ درخواست دائر کی۔
حیدر وحید کا کہنا تھا کہ اے اوآراحمد نوازچوہدری فوت ہو گئے ہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ وکیل اے اوآر کو منتخب کرتا ہے نہ کہ اے اوآر وکیل کو منتخب کرتا ہے، آپ کو چکوال والے کلائنٹس ملے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ 13ستمبر2022کو درخواست دائر ہوئی تھی، کیا کوئی مشہور لوگ چکوال میں رہتے ہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ٹی وی پر بڑے ، بڑے درس دے رہے ہوتے ہیں کہ ججز کو کیسے چلنا چاہیے، جب اِس سے سوال کی باری آتی ہے توکہتے ہیں ہم سے سوال نہ پوچھو، ہم صحافیوں کی فلاح وبہبود کے لئے مستعد ہیں، گٹس نہیں کہ آکر عدالت میں سچ بولیں، ہر کوئی ملک کی تباہی میں شامل ہے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ بطور وکیل میری27سالہ پریکٹس کے دوران کوئی ایک کیس بھی ایسا نہیں ہو گا جس میں مئوکل سے نہ ملاہوں، بوگس درخواست گزار لائے خود درخواست دائر کردیتے، کون چکوال میں مشہور آدمی بیٹھا ہے کہ اُس کی درخواست درخواست دائر ہو گئی، کیوں پاکستان میں ہر آدمی اتنا خوفزدہ ہے، گالیاں دینا حق ہے، جھوٹ بولنا بھی میراحق ہے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ احمد نوازچوہدری کے دستخط پنجاب فارنزک سائنس لیبارٹری کوتصدیق کے لئے بھجوادیتے ہیں۔ اس موقع پر چیف جسٹس نے کمرہ عدالت میں موجود تینوں درخواست گزاروں کے شناختی کارڈ سپریم کورٹ عملے کو کہہ کرسیکورٹی اہلکاروں سے منگوائے جس کے بعد ان کے دستخط درخواست کے ساتھ میچ کئے گئے تاہم وہ میچ نہ ہوئے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ایسا لگ رہا ہے کہ میڈیا سے زیاد ہم میڈیا کی آزادی میں دلچسپی لے رہے ہیں۔
چیف جسٹس کاصحافیون کے وکیل صلاح الدین احمد سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ مجھے بتائیں کہ کیوں آپ ان کیسز کے حوالہ سے دلچسپی نہیں لے رہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ جو لوگ اپنے ،اپنے ایجنڈا پر چل رہے ہیں وہ عجیب ، عجیب خبریں چلا دیتے ہیں، کوئی ایک خبر کے بارے میں موبائل اٹھا لو اوردنیا بھر کی باتیں کرو، سچ ہے یاجھوٹ ہمارے ذرائع ہیں نہیں بتائیں گے، کوئی ذرائع نہیں، بس خبربنادی۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ دنیا میں ایسا ہوتوہتک عزت میں جیبیں خالی کردیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ایف آئی اے جتنے ایکشن لے رہی تھی وہ توہم نے سارے رکوادیئے یا کوئی کوئی کچھ رہ گیا ہے۔ صلاح الدین احمد کا کہنا تھا کہ میں مطیع اللہ جان اورابصار عالم کاوکیل ہوں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ عدالت اس طرح استعمال نہیں ہو گی، اگر صحافیوں کے خلاف کوئی جرم ہوا ہے تواس کے نتائج ہوں گے، سائیڈ بدل لی، ہم توبینیفشری نہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کیوں اب عدالت حملے کی زد میں ہے، کیاآپ جھوٹ کاتحفظ کرنا چاہتے ہیں، یاثابت کریں یا معافی مانگیں کہ میں غلط ہوں، آپ کہیں میڈیا سچائی پر مبنی درست خبریں چلائے گا ورنہ معاشرے میں مکمل قیاس ہوگا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ یہ بھی چلادیا کہ ہمارے کہنے پر ہی نوٹس جاری ہوا، مکمل جھوٹ ، کیوںآپ اس کی مذمت نہیں کرتے ، کیونکہ آپ نے میڈیا سے اچھے تعلقات رکھنا ہیں۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ غلطی ہوجاتی ہے مگرغلطی مانو گے نہیں، صحافیوں میں سچ کی تلاش کی لگن ہونی چاہیئے جو کہ بہت پہلے ختم ہوچکی ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کیسے آگے بڑھیں، دونمبر درخواست آئی، غائب ہوگئی۔ چیف جسٹس کا کہنا تھاکہ سید ابن حسین کی درخواست میں حاضر تین درخواست گزاروں کے دستخط درخواست پر موجود دستخط سے مماثلت نہیں رکھتے ۔
چیف جسٹس کا کہنا تھاکہ سابق آئی جی پولیس سید ابن حسین بڑے آدمی ہیں ان کو ہم توہین عدالت کانوٹس دیتے ہیں۔ چیف جسٹس کاایڈیشنل اٹارنی جنرل ملک جاوید اقبال کو مخاطب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ کیا وہ قوسین فیصل ایڈووکیٹ کو جانتے ہیں ، کیا وہ جوان ہیں یا بوڑھے آدمی ہیں۔ اس پر ملک جاوید اقبال کاکہنا تھا کہ وہ انہیں جاتے ہیں وہ جواب آدمی ہیں اورراولپنڈی میں ہوتے ہیں۔ چیف جسٹس کا اے اوآر محمد عثمان کو مخاطب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ یہ آپ نے دونمبر درخواست دائر کی ہے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کیا سپریم کورٹ کو استعمال کیا گیا ہے، وہ زمانے چلے گئے جب اس طرح کی درخواستیں دائر ہوتی تھیں۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ایک درخواست گزار کابینہ ڈویژن سے ریٹائرڈ جوائنٹ سیکرٹری ہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھاکہ پتا نہیں ایک وکیل کیوں پیش نہیں ہورہے، اس کے نتائج ہونا چاہیں، کوئی ایڈووکیٹ آن ریکارڈ خود ایسا نہیں کررہا ہوگا بلکہ کوئی پیچھے ہوگا، کوئی شرارتی آدمی کیوں ایسا کرے گا۔ چیف جسٹس کاحیدر وحید سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ کیا آپ سے بیان حلفی لیں، کون یہ سارا کچھ کررہا ہے، کیاآپ کو پتا ہی نہیں پاکستان میں ہوتا کیا ہے، اب ہیڈز رول ہوں گے، پرانی بات کوکیوں چھوڑیں۔
چیف جسٹس کا حیدروحید سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ کا20سالہ وکالت کاتجربہ ہے بتائیں اس کے پیچھے کون ہوسکتا ہے، معمولی سی بات کاجواب نہیں دے سکتے تو پھر آپ ٹی وی پر آنا چھوڑ دیں۔ اس موقع پر صحافی ابصار عالم نے حیدر وحید سے سوال کیا کہ یہ نیکی کس کے لئے کی تھی، کیا وہ شخص آیا تھا، یہ کیس مفت کیا یا فیس لی تھی، کیس کی سماعت کے لئے اسلام آباد آئے ، رہائش کے انتظامات کس نے کئے، ٹکٹ کس نے لے کردیئے ، اگر مفت کیس کرتے ہیں تو ہمارے کیس ہوتے رہتے ہیں ہم بھی آپ سے رابطہ کریں۔ حیدر وحید کاکہنا تھا کہ ایک درخواست گزار سے بات ہوئی تھی۔
سید رفاقت حسین شاہ کا کہنا تھا کہ 11مارچ 2024کو احمد نوازچوہدری کی وفات کے بعد حیدر وحید کے توسط سے وکالت نامہ آیا تھا، میرے پاس دستخط شدہ وکالت نامہ آیا تھا۔ اس پر حیدر وحید کاکہنا تھا کہ میں نے کوئی وکالت نامہ نہیں بھیجا۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ احمد نوازچوہدری اور سید رفاقت حسین شاہ دونوں کے وکالت ناموں پرایک ہی شخص کے دستخط ہیںاورساتھ ان کا موبائل نمبر بھی لکھا ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھاکہ بس ٹھیک ہے کہ جی مٹی پائو آگے چلو، یہ ہمارا رویہ ہو گیا ہے، کیوں پہلے درخواست دائر نہیں کی، یہ درخواست صلاح الدین کی درخواست کو کائونٹر بلاسٹ کرنے کے لئے دائر کی گئی، کسی نے توآپ سے کام کروایا ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ 2021 میں میں نے جسٹس جمال خان مندوخیل نے اس کیس کانوٹس لیا اور پھر ہمارے ہاتھوں سے یہ کیس چھین کر کسی اوربینچ کے سامنے لگادیا گیا، صحافی عدالت آئے کہ ہم پر حملے ہورہے ہیں، پھر ہم سے کیس چھین لیا گیا۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ مذاق بنایا ہوا ہے ہر چیز کا، کس سے ہدایات مل رہی ہیں، آپ کو نہیں پتا، رفاقت حسین شاہ جھوٹ بول رہے ہیں،کوئی سچ نہیںبول رہا۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ پریس ایسوسی ایشن کے سابق صدر امجد نذیر بھٹی، عبدالقیوم صدیقی، عمران شفقت، عامر میر اور اسد علی طور نے تحریری درخواست دی تھی۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم سچ سے کیوں اتنے خوفزدہ ہیں۔ ایڈووکیٹ آن ریکارڈ انیس محمد شہزاد کاکہنا تھا کہ درخواست واپس لینے کی ہدایات بھی حیدر وحید نے دیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ درخواست واپس لینے کے لئے عدالت کی اجازت کی ضرورت ہوتی ہے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ میں ہرکسی کا بوجھ نہیں اٹھاسکتا، ہر کوئی ٹریڈ یونین ہے، دنیا میں ایسے ہوتا ہے کہ وکلاء کی ٹریڈ یونین بن جاتی ہے، نہ صحافی ہماری مدد کررہے ہیں اورنہ وکلاء ہماری مدد کررہے ہیں۔ چیف جسٹس کاابصارعالم کومخاطب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ابصار صاحب ! آپ کو کتنی گولیاں لگی تھیں۔ اس پر ابصارعالم نے روسٹرم پر آکر بتایا کہ انہیں پیٹ میں ایک گولی لگی تھی۔ اس موقع پر ایڈیشل اٹارنی جنرل چوہدری عامر رحمان نے بتایا کہ پیکا قانون کے تحت آنے والے جرائم کے حوالہ سے حکومت نے نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی بنائی ہے، ایف آئی اے کاکوئی کردار پیکاقانون کے حوالہ سے نہیں ہوگا۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم اس نوٹیفیکیشن کودیکھیں گے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آپ لوگ بس گیم کھیل رہے ہیں۔ چوہدری عامر رحمان کا کہنا تھا کہ سابقہ دورحکومت میں عامر میر کے خلاف درج ہونے والا مقدمہ ایف آئی اے نے واپس لے لیا ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کوئی وزیر ہو گا، کوئی سیکرٹری ہوگا کوئی نام تولے لیں۔ چوہدری عامر رحمان کا کہناتھا کہ اسد طور کے گھر میں داخل ہوکران کی پٹائی کرنے والے دوملزمان کے خاکے شناخت کے لئے وزارت داخلہ اوروزارت دفاع کوبھجوائے ہیں، ہم اس معاملہ کا تعاقب کررہے ہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ سرکار مناسب انداز میں تحقیقات کررہی ہے کہ نہیں، بتادیں اس میں کیاکمی بیشی ہے ہم حکم دے دیتے ہیں۔ چوہدری عامر رحمان کا کہنا تھا کہ ابصارعالم کیسے ملزمان زین ریاض اور شاہنواز کو جب انٹرپول گرفتار کرے گی توپھر ہم انہیں پاکستان لانے کے لئے ٹیم بھجوائیں گے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ مطیع اللہ جان کا کیس کیوں ابھی تک اس کاسراغ نہیں لگایاگیا ، یہ توآپ کی نالائقی ہوئی، اس میں ویڈیو ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ مطیع اللہ اس لئے رہا ہوئے کہ ریکارڈنگ آگئی تھی، اس میں توکچھ کیا ہی نہیں، میں توکہتا ہے کہ اس کیس کاسراغ لگاہوا ہے۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کون تحقیقات کررہاہے ، بلائیں اُس کو ، کیوں سراغ نہیں لگایا گیا، دنیا نے ریکارڈنگ دیکھی، کیا ایس ایس پی انویسٹی گیشن اپنی وردی کھونا چاہتے ہیں، کیاآپ تعلیم یافتہ ہیں، آپ کیا بات کررہے ہیں، فوری طور پر اِس کو فارغ کریں، ہم اِس کے خلاف ایکشن چاہتے ہیں، ہم اِس کو توہین عدالت کانوٹس دیں گے، 13سال پولیس میں ہو گئے، جھوٹ بولنے آتے ہو، بیوقوف بنانے کاطریقہ آپ سے سیکھیں، میں اس نااہل افسر سے مطمئن نہیں، یہ اپنی یونیفارم کی بے عزتی کررہاہے، کیوں یہ عدالت میں جھوٹ بول رہا ہے کہ کوئی ویڈیو نہیں ہے، انہوں نے رپورٹ نہیں پڑھی کیا یہ عدالت میں ٹہلنے آئے ہیں، کتنی گاڑیاں تھیں۔
اس پر ایس ایس پی انویسٹی گیشن مسعود احمد کا کہنا تھا کہ 3گاڑیاں تھیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کچھ ملاآپ کو، جواب دیں، کیوں ہمارے سامنے بُت بنے کھڑے ہیں، آپ ہمارا مذاق اڑارہے ہیں میرا خیال ہے یہ آدمی ملوث ہے ، یہ لگتا ہے ملزم سے ملاہوا ہے یہ ایماندراتحقیقاتی افسر نہیں، یہ ذاتی مفادات کا تحفظ کررہاہے، استعفیٰ دے کرگھر جائو ، کدھر سے دبائوآرہا ہے، آپ بھی قبر میں جائو گے میں بھی قبر میں جائوں گا۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ 11بجے کون سانماز کاوقت ہوتا ہے کہ پولیس والے نماز پڑھنے گئے ہوئے تھے، کون سی نماز 11بجے پڑھتے ہیں ہمیں بھی بتادیں، جھوٹ بولنے پران کوتوہین عدالت کانوٹس دیں، اس میں لگ رہا ہے جان کرخراب کررہے ہو، اپنے کرتوت سے ضائع کردیا، ہماری آنکھوں میں دھول ڈال رہے ہیں، مکمل نااہلی ہے یا ملوث ہیں۔ اس پر چوہدری عامر رحمان کاکہنا تھا کہ ہم کسی اورسے تحقیقات کروالیتے ہیں۔ اس موقع پر مطیع اللہ جان کے وکیل صلاح الدین کا کہنا تھا کہ مجھے ایس ایس پی انویسٹی گیشن مسعود احمد پر اعتماد نہیں۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اپنی یونیفارم کی بے عزتی کررہے ہیں، یہ فٹ نہیں، یہ خوفزدہ ہے اوراس میں اعتماد کی کمی ہے، ہمیں یہ آدمی نہیں چاہیئے، یہ آدمی وقت ضائع کررہا ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ بندے نہیں پکڑ رہے 3گاڑیاں آئیں، کیا سیف سٹی ٹھیکے پر چلا رہے ہیں کہ اِس بندے کو پکڑنا ہے اور اِس کو نہیں پکڑنا، جان کرروڑے اٹکا رہے ہیں اور جھوٹ بول رہے ہیں۔ جسٹس عرفان سعادت خان کا کہنا تھا کہ اللہ کو حاضر ناظر جان کر بتادوہم توکچھ اورمانگ بھی نہیں رہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم پاکستان کو محفوظ بنانا چاہتے ہیں، کیوں ہم پولیس پر پیسے خرچ کررہے ہیں۔ اس موقع پر آئی جی پولیس اسلام آباد نے تحقیقات کی یقین دہانی کروائی۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم تاریخ نہیں دیں گے رات 12بجے تک بیٹھیں گے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ مطیع اللہ جان اغواکی چوتھی برسی منانے والے ہیں، اوپر سے حکم آیا ہے، اوپر سے حکم آتاہے، سارے پولیس والے باتھ روم گئے ہیں، کوئی نماز پڑھ رہا ہے، دونمبر کی رپورٹس عدالت میں جمع ہورہی ہیں، کچھ خداکاخوف کریں، اپنی نوکری کوسنجیدہ نہیں لیتے، پولیس کواپنی فکر ہے ان کے پیچھے گارڈ چلتے ہیں، کس سے بچانا ہے،شہریوں سے، گھر میں بیٹھیں کوئی اوردھندہ کرلیں، کیا یہ خوفزدہ ہیں کہ دوآدمی ان کے ساتھ ہیں، قافلے پولیس والوں کے ساتھ چلتے ہیں، ایک زمانہ تھا پولیس ہماری حفاظت کرتی تھی، اب وہ خوداپنی حفاظت کررہی ہے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اسد طور کے ملزمان کے خاکے کیوں اخبارمیں شائع نہیں کئے گئے، اخبار میں اشتہاردیں اور انعام کاعلان بھی کریں۔ چیف جسٹس نے آئی جی اسلام آباد پولیس سے استفسار کیا کہ آپ کے خیال میں ان کو مارے گا کون اوراٹھائے گا کون، دوصحافیوں میں سے ایک کواٹھایااورایک کومارا، کون دو صحافیوں کودھمکائے گا، آپ کے بھی پرجل جائیں گے، یا توطاقتورآدمی ہوگایاطاقتورادارہ ہوگا،کیوں کیا ہے ، کس نے کیا ہے ، پتا نہیں۔ اس موقع پر اسد علی طور کاکہنا تھا کہ جن لوگوں نے انہیں گھر میں گھس کر ماراانہوں نے کہا تھا کہ وہ ایک انٹیلیجنس ادارے سے آئے ہیں۔ اس پر چیف جسٹس کاآئی جی اسلام آباد سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ کیا آپ نے انٹیلیجنس ادارے سے پوچھا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ وزارت دفا ع کوخط لکھنے میں چارسال لگے، وزارت دفاع کہاں رہتی ہے، کیا یہ پاکستان میں رہتی ہے۔
چیف جسٹس کا آئی جی پولیس سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ کیوں آپ اپنا کام نہیں کررہے، پاکستان میں ہرکوئی دوسرے کواُس کاکام بتاتاہے۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ پوچھنے کی بھی جرائت نہیں کرسکتے، اتنی ہمت بھی نہیں۔ جسٹس نعیم اخترافغان کا کہنا تھا کہ سائنس نے تحقیقات بہت آسان کردی ہیں آپ اس کو بھی ضائع کررہے ہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ عدالت میں جائو مکھن لگائو، انہیں یہی سکھایا گیا ہے، طاقتورلوگوں سے دوربھاگو۔ چیف جسٹس کاایڈیشنل اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ کیوں کوراپ کررہے ہیں اُس وقت آپ کی حکومت تونہیں تھی، اس معاملہ میں سب ایک ہیں، ویسے سیاسی مخالفین ایک دوسرے کو مارنے کودوڑتے ہیں۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آئی جی پولیس تحقیقاتی ٹیم تبدیل کررہے ہیں کہ نہیں۔ اس پرآئی جی پولیس کاکہنا تھا کررہا ہوں۔ جسٹس نعیم اخترافغان کا کہنا تھا کہ فوری طورپر تبدیل کریں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ کیا ہم ایف آئی اے کو پولیس سے تحقیقات کاکہیں۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ مطیع اللہ جان اوراسدعلی طور کے فون کیوں ٹریس نہیں کئے گئے، ایف آئی اے کودیتے ہیں پتا نہیں وہ بھی نہ کرسکیں، پھر ہم انٹرپول کو بلالیں گے۔ آئی جی پولیس کاکہنا تھا کہ تحقیقات میں ہم کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کریں گے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ جب لفاظی کرتے ہیں توکام نہیں کرناہوتا۔ چیف جسٹس کا حکم لکھواتے ہوئے کہنا تھا کہ مطیع اللہ جان کے اغواکی پوری ویڈیواغواکاروں کی شناخت کے لئے پنجاب سائنس فارنزک لیبارٹری کوبھیجیں۔اپنے یوٹیوب چینل پر ویڈیو چلائیں اور لوگوں سے اغواکاروںکی شناخت کی درخواست کریں۔ پی ٹی وی پر ویڈیو چلائیں۔ اسد طور کیس میں ایک ملزم کادوبارہ خاکہ بنائیں اورتیسر ے ملزم کا بھی خاکہ بنائیں ، خاکے اسلام آباد کے ایک بڑے اُردواورایک انگلش اخبار میں چھپوائے جائیں اور انعام کااعلان بھی کیا جائے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم صحافیوں کے کیسز میں ہونے والی تحقیقات سے مطمئعن نہیں، قابل تفتیشی افسر کاتقرر کیا جائے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ حیدر وحید کے بارے میں کیا لکھیں۔ عدالت نے سید ابن حسین کی درخواست میں قوسین فیصل ایڈووکیٹ کو پنجاب بار کونسل، راولپنڈی ڈسٹرک بارایسوسی ایشن اورسپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے توسط سے پیشی کے لئے دوبارہ نوٹس جاری کردیا۔ عدالت نے سابق جوائنٹ سیکرٹری کابینہ ڈویژن حسن محمود کوحکومت پاکستان کے توسط سے دوبارہ نوٹس جاری کردیا۔ عدالت نے سابق آئی جی پولیس سید ابن حسین کو عدالتی احکامات پر عمل نہ کرنے پر توہین عدالت کاشوکاز نوٹس جاری کردیا۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سید ابن حسین بتائیں کہ کیا انہوں نے درخواست دائر کی کہ نہیں یا دائر کرنے کی ہدایات دیں۔ عدالت نے حکم دیا کہ سید ابن حسین آئندہ سماعت پر خود پیش ہوں، یااسلام آباد سپریم کورٹ میں پیش ہوں یاویڈیو لنک کے زریعہ لاہور رجسٹری سے پیش ہوں۔ جسٹس نعیم اخترافغان کاآئی جی اسلام آباد پولیس سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھاکہ نتائج کے ساتھ آناہے ہمیں رپورٹس نہیں چاہیں۔آئی جی پولیس نے تحقیقات کے لئے 45دن دینے کی استدعا کی۔ اس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ 30روز بعد سماعت مقررہوگی، ہمیں نتائج چاہیں، اگر نتائج نہ آئے توپھر کوئی فائدہ نہیں۔ عدالت نے قراردیا کہ کیس کی مزید سماعت 30روز بعد مقر رہوگی۔