لوڈ شیڈنگ 7 مئی کو کے الیکٹرک کے ہیڈ آفس پر عوامی پریس کانفرنس کریں گے. منعم ظفر خان

کراچی(صباح نیوز)جماعت اسلامی کراچی کے عبوری امیر منعم ظفر خان نے اعلان کیا ہے کہ کے الیکٹرک کی جانب سے فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں 18.89فی یونٹ کے ممکنہ اضافے کے خلاف 7مئی منگل کوشام 5بجے کے الیکٹرک کے ہیڈ آفس کے سامنے ”عوامی پریس کانفرنس ”ہوگی جس میں آئندہ کے لائحہ عمل کا اعلان کریں گے ،7مئی سے نویں اور دسویں اور اس کے بعد انٹر میڈیٹ کے امتحانات شروع ہورہے ہیں، شدید گرمی و حبس کے موسم میں شہر میں 18گھنٹے کی طویل لوڈشیڈنگ سے شہری بلبلا اٹھے ہیں، طلبہ و طالبات لوڈ شیڈنگ کے باعث امتحانات کی تیاری کرنے میں پریشانی کا شکار ہیں ،کے الیکٹرک اپنا طرزعمل درست کرے اور لوڈ شیڈنگ ختم کرے ، ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ کے الیکٹرک کو قومی تحویل میں لیا جائے ،

اس کا فارنزک آڈٹ کیا جائے ، نجکاری کرنے والوں کو قوم کے سامنے بے نقاب کیا جائے ۔وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ سن لیں کراچی کے عوام کو بیانات نہیں اقدامات چاہیئے ، جامعہ کراچی کے غیر تدریسی عملے کو شوکاز نوٹس دینے کی شدید مذمت کرتے ہیں اور مطالبہ کرتے ہیں کہ حکومت کی جانب سے فوری طور پر 2ارب روپے کی اضافی گرانٹ دی جائے اور جامعہ کراچی کے اساتذہ اور طلبہ کے مسائل حل کیے جائیں ۔آصف علی زرداری جنگی بنیادوں پر شروع کیے جانے والے سیف سٹی پروجیکٹ کی وضاحت کریں کہ ایسا کون سا پروجیکٹ ہے جو گزشتہ 16سال سے مکمل ہی نہیں ہورہا۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے ادارہ نورحق میں شدید گرمی و حبس میں کے الیکٹرک کی جانب سے بدترین لوڈشیڈنگ،نرخوں میں ظالمانہ اضافے کی تیاریاں،عوام کو درپیش دیگر مسائل اور جماعت اسلامی کی”حقوق کراچی تحریک”کے سلسلے میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔اس موقع پر نائب امراء جماعت اسلامی کراچی مسلم پرویز،راجہ عارف سلطان،رکن سندھ اسمبلی محمد فاروق فرحان،نائب صدر پبلک ایڈ کمیٹی وکے الیکٹرک کمپلنٹ سیل کے چیئرمین عمران شاہد، سیکرٹری اطلاعات زاہد عسکری اور سینئر ڈپٹی سیکرٹری اطلاعات صہیب احمد بھی موجود تھے ۔

منعم ظفرخان نے مزیدکہاکہ انہوں نے کہاکہ شہر میں اس وقت مسئلہ بجلی کے ساتھ پینے کے صاف پانی کی عدم فراہمی کا ہے ،جب بجلی ہی نہیں ہوگی تولائن میں پانی کیسے آئے گا ،اورنگی ٹاؤن ، بلدیہ ٹاؤن ، نارتھ ناظم آباد،نیو کراچی ،سرجانی ٹاؤن ، گلستان جوہر کے علاقے ودیگر مقامات پر طویل عرصے سے شہریوں کو پانی میسر نہیں ہے ، سابق سٹی ناظم نعمت اللہ خان نے کے تھری منصوبہ مکمل کر کے بعد 2005میں کے فور منصوبہ پیش کیاتھا آج 2024میں بھی یہ منصوبہ مکمل نہیں ہو ا اور حال یہ ہے کہ اگلے 4سال تک یہ منصوبہ مکمل ہوتا نظر نہیں آرہا ہے ۔

انہوں نے کہاکہ گزشتہ دنوں صدر آصف علی زرداری کراچی تشریف لائے اور انہوں نے وزیر اعلیٰ ہاؤس میں ایک ہنگامی اجلاس میں کہاکہ کراچی میں جنگی بنیادوں پر سیف سٹی پروجیکٹ شروع ہونا چاہیئے ، آصف علی زرداری بتائیں کہ جنگی بنیادوں سے ان کی کیا مراد ہے ؟ پیپلزپارٹی16 سال سے مسلسل سندھ پر حکومت کررہی ہے لیکن سندھ میں امن و امان کی صورتحال سب کے سامنے ہے ،ایک سال میں نوے ہزار اسٹریٹ کرائمز کی وارداتیں رپورٹ ہوئی ہیں اور کتنی ہی وارداتیں ایسی ہیں جو رپورٹ ہی نہیں کروائی گئیں۔انہوں نے مزیدکہاکہ جامعہ کراچی ملک کی چند بڑی جامعات میں سے ایک ہے ۔یہاں اس وقت 47ہزار سے زائد طلبہ و طالبات تعلیم حاصل کررہے ہیں ،

جامعہ میں 8فیکلٹیز ، 70ڈیپارٹمنٹ اور ریسرچ انسٹی ٹیوٹ ہیں ، 9سو اساتذہ ہیں اور دوہزار سے زائد غیر تدریسی عملہ کام کررہا ہے ،گزشتہ 12دن سے اساتذہ نے شام کی کلاسز کا بائیکاٹ کیا ہوا ہے ،تدریسی عملہ بھی 29اپریل سے پین ڈاؤن ہڑتال پر ہے ،ایوننگ کے اساتذہ کو گزشتہ ڈیڑھ سال سے تنخواہیں نہیں دی جارہی اس کے علاوہ میڈیکل الاؤنس بھی نہیں دیے جارہے ہیں ،اس وقت جامعہ کراچی خستہ حالی کا منظر پیش کررہا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اٹھارہویں ترمیم کے بعد جامعہ کراچی کے مالی و انتظامی اختیارات بھی صوبے منتقل کردیے گئے ، گورنر جامعہ کے چانسلر ہیں لیکن وہ بھی صرف اکیڈمکس کے اختیارات رکھتے ہیں ، ہم جامعہ کراچی کے اساتذہ اور طلبہ کے مطالبات کی مکمل حمایت کرتے ہیں اور وزیر اعلیٰ جو کہ مالی معاملات کا اختیار رکھتے ہیں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ جامعہ کراچی کے مسائل حل کریں ۔

انہوں نے کہاکہ کے ای ایس سی قومی ادارہ تھا جس کی نجکاری کردی گئی اور طے کیا گیا کہ حکومت کی جانب سے پرائیویٹ کمپنی کو سبسیڈی نہیں دی جائے گی اور معاہدہ نج کاری کے مطابق بجلی کی پیداوار میں اضافہ بھی کیا جائے گا اور کراچی کو لوڈ شیڈنگ فری کیا جائے گا ۔اعداد وشمار کے مطابق 2005میں صارفین کی تعداد 18لاکھ تھی اور آج صارفین کی تعداد 34لاکھ ہوگئی لیکن کے الیکٹرک نے بجلی کے پیداوار میں اضافے کے بجائے مزید کمی کردی ہے ،2005میں بجلی کی پیداوار ملین یونٹ کے حساب سے 9034تھی جو کہ اب 2024میں 18سال گزرنے کے بعد بجلی کی پیداوار بڑھنے کے بجائے 7034ملین یونٹس ہے ،بجلی کی پیداوار میں 19فیصد کمی واقع ہوئی ہے ۔

کے ای ایس سی جب سرکاری تحویل میں تھا تو اس وقت ادارے کو ڈیڑھ ارب روپے کی سبسیڈی دی جاتی تھی لیکن اب 137ارب روپے کی سبسیڈی کے الیکٹرک کو دی جارہی ہے جو تقریباً 9ہزار فیصد زیادہ ہے ،18سال  قبل جن وعدوں کی بنیاد پر پرویز مشرف ،پیپلزپارٹی اورایم کیو ایم کے گٹھ جوڑ نے کے ای ایس سی کو فروخت کردیا اور معاہدہ کیا گیا کہ کے الیکٹرک بجلی کی ٹرانسمیشن و ڈسٹری بیوشن کو بہتر بنائے گا لیکن معاہدے پر عمل نہیں کیا گیا ۔انہوں نے مزیدکہاکہ کے الیکٹرک نے حال ہی میں درخواست دی ہے اور لکھا کہ گزشتہ 9ماہ کے فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں 18.89پر یونٹ میں اضافہ کیا جائے ،اس سلسلے میں 9مئی کو ہونے والی سماعت کے حوالے سے جماعت اسلامی نے چیئرمین نیپرا کو خط جاری کردیا ہے جس میں کے الیکٹرک کی زیادتیوں کے حوالے سے آگاہ کردیا ہے ۔