پاکستان تحریک انصاف کی کافی کوشش ہے کہ وہ ملک میں ایک احتجاجی تحریک چلائے۔ اس مقصد کے لیے انتخابات کے بعد سے کوشش کی جا رہی ہے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ چھ ججز کے خط کے بعد وکلا تحریک کی کوشش بھی کی جا رہی ہے۔ ویسے تو وکلا تحریک کی بھی کافی عرصہ سے کوشش کی جا رہی ہے اور اس حوالے سے بھی متعدد کوششیں ناکام ہو گئی ہیں۔ لیکن چھ ججز کے خط کے بعد دوبارہ کوشش کی جا رہی ہے بانی تحریک انصاف کی جیل سے رہائی اور انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے لیے ایک بڑی تحریک شروع کر دی گئی ہے اس مقصد کے لیے پہلا احتجاج اتوار کو پشاور میں رکھا گیا تھا۔
میں سمجھتا ہوں کہ تحریک انصاف اپنی احتجاجی تحریک کی کامیابی کے حوالے سے پہلے ہی شکوک و شبہات کا شکار نظر آئی ہے۔ اسی لیے پشاور میں پہلا احتجاج رکھا گیا تھا۔ کے پی میں تحریک انصاف کی اپنی مضبوط حکومت ہے، انھوں نے دو تہائی کی اکثریت سے کے پی میں حکومت بنائی ہے۔
ان کا موقف ہے کہ پورے ملک میں انتخابات میں دھاندلی ہوئی ہے۔ لیکن کے پی میں انتخابات شفاف ہوئے ہیں۔ جس پر سب حیران بھی ہیں کہ جنھوں نے پورے ملک میں انتخابات کروائے ہیں انھوں نے ہی کے پی میں بھی انتخابات کروائے ہیں۔
اگر کے پی کے انتخابات ٹھیک ہیں تو پھر پورے ملک کے انتخابات ٹھیک ہیں۔ منظر نامہ اس لیے بھی دلچسپ ہے جس طرح تحریک انصاف کے پی، کے علاوہ پورے ملک کے انتخابات میں دھاندلی کا شور مچا رہی ہے ایسے ہی کچھ جماعتیں صرف کے پی میں دھاندلی کا شور مچا رہی ہیں۔ لیکن ابھی ہم تحریک انصاف کے پشاور سے شروع ہونے والے احتجاج کا جائزہ لے رہے ہیں۔
پشاور میں احتجاج کے لیے فری ہینڈ موجود تھا۔ اپنی حکومت ہے، اس لیے احتجاج کے لیے حکومتی سہولت کاری بھی موجود ہے۔ سرکار بھی احتجاج میں ساتھ ہے، کوئی گرفتاری کا ڈر نہیں۔ کوئی روک ٹوک نہیں بلکہ احتجاج میں جانے سے حکومت نے خوش ہونا ہے۔ ورنہ احتجاج میں شرکت سے اکثر حکومت ناراض ہوتی ہے۔
اتنی بہترین سہولیات کے ساتھ کے پی پشاور میں احتجاج کا اعلان کیا گیا۔ پھر یہ بھی دعوی ہے کہ کے پی میں تو تحریک انصاف کی مقبولیت بلندیوں کو چھو رہی ہے۔
اس لیے ایک عمومی رائے یہی تھی کہ پشاور میں احتجاج کا اس لیے اعلان کیا گیا ہے تا کہ ایک بڑا پاور شو کیا جا سکے اور احتجاجی تحریک کی گیم بنائی جا سکے۔ یہی سوچ تھی کہ ایک بڑا پاور شو پورے ملک میں پیغام دے گا کہ باہر نکل آ۔ کہا جائے گا کہ کے پی والے باہر آگئے ہیں، اب پنجاب والے بھی باہر آجائیں، سندھ والے بھی باہر آجائیں، سب باہر آجائیں۔ اس لیے پشاور کا انتخاب سمجھ میں آتا ہے۔
لیکن یہ کیا ہوا ہے۔ لوگ پشاور میں ہی نہیں آئے۔ ایک کمزور احتجاج کم لوگ، نہ کوئی جوش و خروش، وہی لوگ جو سیاسی جماعتیں اپنے احتجاج میں عموما لاتی ہیں۔ اتنے لوگ تو ایک نسبتا چھوٹی سیاسی جماعت کے احتجاج میں بھی آجاتے ہیں۔ اتنے کم لوگوں کے ساتھ پہلے احتجاج نے کیا تحریک انصاف کے احتجاجی پروگرام کے غبارے سے ہوا نہیں نکال دی؟ اگر کے پی میں اتنے کم لوگ آئے ہیں تو باقی جگہ تو اس سے بھی کم لوگ آئیں گے۔
سونے پر سہاگا اس احتجاج میں جہاں لوگ کم تھے وہاں تحریک انصاف کی قیادت اسٹیج پر آپس میں تقریر کرنے پر لڑتی رہی۔ کوئی کسی کو تقریر نہیں کرنے دینا چاہتا تھا۔ شیر افضل مروت، بیرسٹر گوہر، فیصل جاوید سب آپس میں لڑتے رہے اور یہ سب کچھ میڈیا لائیو دکھاتا بھی رہا۔ یہ ماحول بھی کسی احتجاجی تحریک کے لیے ٹھیک نہیں ہے۔
پی ٹی آئی کے مخالفین ایسے ماحول کو جوتیوں میں دال بٹنے سے تشبیہہ دیں گے کہا جائے گا کہ ایک دوسرے کے کپڑے نوچے جا رہے ہیں۔ ایک طرف تحریک انصاف کا بانی جیل میں ہے، کارکنوں کو سزائیں ہو رہی ہیں، جماعت مشکل میں ہے تو دوسری طرف یہ قیادت تقریر کرنے پر ایک دوسرے سے لڑ رہی ہے۔ اسٹیج پر چڑھنے میں ایک دوسرے سے لڑ رہی ہے،یہ سب کیا تحریک انصاف کے نیرو ہیں۔ کیا اس پر بھی یہ نہیں کہا جا سکتا کہ روم جل رہا تھا اور نیرو بانسری بجارہا تھا۔
یہ سب کچھ کارکنوں کو بد دل کرتا ہے۔ اس کے بعد کارکن کیوں اپنی جان خطرے میں ڈال کر باہر آئیں گے۔ پشاور میں تو پھر سیاسی اور سرکاری آشیر باد موجود تھی، باقی شہروں میں جہاں تحریک انصاف کی حکومت نہیں ہے وہاں کیا ہوگا۔ پنجاب میں تو گرفتاریوں کا بھی ڈر ہوگا۔ پشاور میں احتجاج کے لیے تو اجازت کوئی مسئلہ نہیں تھا۔
باقی شہروں میں تو اجازت بھی ایک مسئلہ ہوگا۔ وہاں تو اس سے بھی کم لوگ آئیں گے۔ پھر کیا ہر بار اسٹیج پر ایسے ہی لڑائی ہوگی۔ کیا اس وجہ سے کچھ لیڈر مائنس ہو جائیں گے ؟ یہ سوال بھی اہم ہے کہ شیر افضل مروت مائنس ہوں گے کہ بیر سٹر گوہر مائنس ہو نگے؟ لوگ تو شیر افضل مروت کو سننا چاہتے ہیں لیکن قیادت بیرسٹر گوہر کے پاس ہے۔ کون کس کو مائنس کرے گا۔
تحریک انصاف کی سولو فلائٹ کی عادت بھی ان کو لے بیٹھی ہے۔ جب سیاسی جماعتیں اور سیاسی قیادت مشکل میں ہوتی ہے تو وہ سیاسی اتحاد بناتی ہیں۔ سیاسی قیادت اور سیاسی جماعتوں کو ساتھ لے کر چلتی ہیں تا کہ حکومتی سختیوں کا وزن بانٹا جا سکے۔ سب سیاسی جماعتوں نے اپوزیشن میں ایسا ہی کیا ہے۔ نواز شریف نے ایسا کیا، محترمہ بے نظیر بھٹو نے ایسا کیا۔ تحریک انصاف کو بھی اس وقت سیاسی دوستوں کی ضرورت ہے۔
اس مقصد کے لیے انھوں نے مولانا فضل الرحمن کے ساتھ تعلقات کی بحالی کے لیے قدم بھی بڑھایا لیکن پھر رک گئے۔ اگر محمود خان اچکزئی کے بجائے اگر مولانا کو صدارتی امیدوار بنایا ہوتا تو زیادہ بہتر نہ ہوتا۔ آج مولانا اپنی اسٹریٹ پاور کے ساتھ کھڑے ہوتے۔ لیکن جب انھوں نے مولانا کو نظر انداز کیا تو پھر مولانا ان کی لڑائی کیوں لڑیں۔ اسی طرح اگر تحریک انصاف ڈیرہ اسماعیل خان کی نشست مولانا کو دے دیتی تو تحریک انصاف کا کوئی نقصان نہیں تھا۔ لیکن مولانا کے پاس تحریک انصاف کے قریب آنے کی معقول وجہ بن جاتی۔ لیکن سولو فلائٹ بھی تحریک انصاف کی ان مشکلات کی بنیادی وجہ ہے۔
بہر حال بانی تحریک انصاف کے شدید اصرار پر شروع کی جانے والی احتجاجی تحریک کا آغاز اچھا نہیں تھا۔ ایک رائے یہ بھی ہے کہ لوگ رمضان کی وجہ سے نہیں آئے۔ لوگ روزہ رکھ کر احتجاجی تحریک نہیں چلا سکتے۔ کیا یہ تحریک انصاف کو پہلے نہیں پتہ تھا۔ رمضان کوئی اچانک نہیں آیا ہے۔ کیا پہلے خیال تھا کہ لوگ رمضان میں آجائیں گے اور اب سمجھ آئی ہے کہ رمضان کی وجہ سے نہیں آئے۔
میں سمجھتا ہوں کہ تحریک انصاف رمضان کے بعد بھی احتجاج کرے گی تو یہی صورتحال ہوگی، لوگ نہیں آئیں گے۔ بانی تحریک انصاف کو اپنی رہائی اور اس حکومت کو گھر بھیجنے یا دبا میں لانے کے لیے جتنے لوگ سڑکوں پر چاہیے۔ اتنے آنے کا کوئی امکان نہیں۔ ویسے بھی پنجاب میں ن لیگ کی حکومت ہے اور پنجاب کے بغیر کسی تحریک کا کامیاب ہونا ممکن نہیں۔ پشاور سے اسلام آباد آنے کے لیے پنجاب سے گزرنا پڑتا ہے۔
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس